تحریک پاکستان اور ملتان کی خواتین
ملتان کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے تاریخی جائزے کے مطابق یہ قریباً پانچ ہزار سال پرانا شہر ہے۔ ہر دور میں اس کی اہمیت اور مرکزی کردار رہا ہے انتظامی لحاظ سے اسے ہمیشہ صوبائی حیثیت حاصل رہی ہے ملتان پر انگریزوں کے قبضے کے بعد اسے ڈویژن کا درجہ دیدیا گیا۔
تحریک پاکستان میں برصغیر کے تمام علاقوں کے مسلمانوں نے بھرپور دلچسپی لی تاہم خطہ ملتان معاشی طورپر پسماندہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات میں اس کا کردار موثر نہیں راہ ملتان کی سیاسی صورتحال کا تاریخی تناظر میں جائزہ لینے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس خطے کی سیاست چند مخصوص خاندانوں کے گرد گھومتی ان خاندانوں میں گیلانی‘ قریشی‘ گردیزی‘ خاکوانی وغیرہ نمایاں ہیں۔ یہ خاندان عمومی طوپر بڑے بڑے جاگیرداروں زمینداروں پر مشتمل ہیں اور ہمیشہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے برسراقتدار اور قیام پاکستان سے پہلے انگریز حکمرانوں کی حمایت کرتے رہے ہیں اس لئے اس خطے میں تحریک پاکستان کے لئے جدوجہد دوسرے علاقوں کے مقابلے میں تاخیر سے شروع ہوئی یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ جس کی بنیاد 1906ء میں رکھی گئی تھی۔ ملتان میں 1936ء سے پہلے قائم نہ کی جا سکتی یہاں کا جاگیردار طبقہ اور بڑے بڑے تمام سیاسی خانوادے پنجاب میں یونینسٹ پارٹی سے وابستہ تھے۔
اسلئے یہاں پر مسلمانوں کی علیحدہ سیاسی تنظیم قائم نہ کی جا سکی۔ ملتان میں مسلم لیگ کی بنیاد نومبر1936ء میں سید سعید احمد شاہ بخاری آغا عزیز مرزا ایڈووکیٹ اور معروف صحافی محمد اکرم خان نے مل کر رکھی تھی لیکن اس کے قیام کے بعد بھی تمام بڑے سیاسی خانوادوں نے اس میں شمولیت کی طرف توجہ --- دی اس لئے طویل عرصے تک یہ جماعت عوامی سیاسی جماعت نہ بن سکی۔
اس صوتحال میں یہاں کی خواتین میں تعلیم اور خواندگی کا تناسب انتہائی کم بھی تھا قدامت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ پردے کی سخت پابندی بھی موجود تھی اس لئے مسلم خواتین کے لئے اس خطے میں سیاسی کردار ادا کرنا بے حد مشکل تھا۔
نامساعد حالات کی وجہ سے ملتان میں زنانہ مسلم لیگ کا قیام 1934ء میں عمل میں لایا گیا اور یہ اعزاز سید زبیدہ خاتون کے حصے میں آیا جو سعید احمد شاہ بخاری کی چھوٹی بہن تھی جنہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر 1936ء میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی تھی۔
ملتان میں زنانہ مسلم لیگ کے قیام سے خواتین میں سیاسی بیداری پھیلنے میں مدد ملی کچھ اور جرأت مند خواتین آگے آئیں اور اگلے تین چار برسوں میں بالخصوص 1947ء میں خضر حیات حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک میں مردوں کے ساتھ ساتھ حتی المقدور کردار ادا کیا۔
سیدہ زبیدہ جعفری
اس خطے میں پاکستان کے قیام کے لئے جدوجہد کرنے والی خواتین میں سب سے نمایاں کردار سیدہ زبیدہ جعفری کا ہے وہ زنانہ مسلم لیگ کی بانی اور پہلی جنرل سیکرٹری تھیں زبیدہ جعفری کا تعلق ایک باعزت سید خاندان سے تھا۔ ان کے دادا سید رشید الدین شاہ قیام پاکستان سے بہت پہلے یو پی سے ہجرت کر کے ملتان میں آباد ہو گئے تھے ان کے والد سید سعید الدین شاہ بخاری محکمہ جنگلات میں افسر تھے اس وج سے مختلف علاقوں میں ان کے تبادلے ہوتے رہتے تھے۔۔ زبیدہ جعفری 1922ء میں ملتان میں پیدا ہوئیں۔ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سے میٹرک کیا ملتان میں گرلز کالج نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مزید تعلیم کے لئے لاہور جانا پڑا وہ اسلامیہ کالج برائے خواتین لاہور کی طالبہ تھیں اور دوران تعلیم وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے طالبات ونگ کی سرگرم کارکن تھیں۔ ایک بار قائداعظم کالج میں آئے طالبات کی جانب سے خطبہ استقبالیہ زبیدہ جعفری نے پیش کیا قائداعظم نے اپنے خطاب میں طالبات سے کہا وہ گھر میں بیٹھنے کی بجائے میدان عمل میں نکل آئیں اور پاکستان کے قیام کی جدوجہد اپنے گھر کے مردوں کے شانہ بشانہ شریک ہوں اور مسلم لیگ کے مقاصد کے لئے کام کریں۔ زبیدہ جعفری اپنے آبائی وطن ملتان آئیں اور یہاں 1943ء میں زنانہ مسلم لیگ کی شاخ قائم کی لیکن ابھی تک ان کی تعلیم مکمل نہیں ہوئی تھی اس لئے انہیں واپس جانا پڑا اور یہاں خواتین کی سیاسی سرگرمیاں ماند پڑ گیئں۔ 1945ء میں بی اے کرنے کے بعد وہ مستقل طورپر ملتان آگئیں اور مسلم لیگ کی زنانہ شاخ کی تنظیم نو کی باقاعدہ رکنیت سازی کی گئی انہوں نے خود کو اس کی جنرل سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا جبکہ بیگم مخدوم ولایت حسین گیلانی اس کی صدر منتخب ہوئیں۔ یہ زبیدہ جعفری کا اہم کارنامہ ہے کہ پہلی بار گیلانی خاتونی کی پردہ دار خاتون سٹیج پر لانے میں کامیاب ہوئیں صرف یہی نہیں انہوں نے قائداعظم اور مسلم لیگ کا پیغام گھر گھر پہنچایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1947ء میں خضر حیات حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کا جب آغاز ہوا تو ان کی لوہاری گیٹ میں واقع رہائش گاہ سے خواتین کے جلوس نکالے جانے لگے جو بوہڑ گیٹ حرم گیٹ اور پاک گیٹ سے ہوتے ہوئے چوک بازار میں اختتام پذیر ہوتے تھے ملتان جیسے قدامت پسند شہر میں برقع پوش خواتین کے جلوسوں سے انگریز حکومت پریشان ہو گئی اور اس نے زبیدہ جعفری اور ان کی کئی خواتین کارکنوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے لیکن ان کی سرگرمیوں یں فرق نہ پڑا اور خواتین کے جلوس روزانہ نکالے جاتے تھے اس طرح وہ ملتان کی کم تعلیم یافتہ اور پردے کی پابند خواتین میں بیداری کی لہر پیدا کرنے میں کامیاب رہیں۔
قیام پاکستان کے بعد ان کی سیاسی و سماجی سرگرمیاں جاری رہیں وہ میونسپل کارپوریشن اور ضلع کونسل ملتان کی رکن بھی رہیں ملتان میں خواتین کی تنظیم اپوا کی شاخ قائم کی اس کے علاوہ خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والی کئی تنظیموں میں وہ شامل تھیں دارلامان اور قیدی خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے ان کی سرگرمیاں قابل ستائش ہیں ان کے خاوند ملتان میں اسلحہ کے ڈیلر تھے اب وہ وفات پا چکی ہیں لیکن ملتان کی خواتین کو سیاسی طورپر متحرک کرنے اور تحریک پاکستان میں کام کرنے والی خواتین میں ان کے کردار کو بھلایا نہیں جا سکا۔
مسز انور پاشا
ملتان میں تحریک پاکستان کے لئے کام کرنے والی خواتین میں دوسرا نام مسز انور پاشا کا ہے ان کا تعلق فیصل آباد سے تھا ان کے والد محکمہ انہار میں ڈپٹی کلکٹر تھے اس لئے ان کے تبادلوں کی وجہ سے مسز انور پاشا نے مختلف مقامات پر تعلیم حاصل کی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں ضلع فیصل آباد میں اصل کی پھر ملتان کرنال اور امرتسر کے تعلیمی اداروں میں پڑھتی رہیں بی اے کرنے کے بعد وہ ملتان آگئیں اور وہ ایک سکول میں پڑھاتی رہیں انہوں نے مسلم لیگ کے شعبہ خواتین میں شمولیت اختیار کر لی اور خضرحیات کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک میں بہت مستعدی سے کام کیا۔ زبیدہ جعفری کی دست راست تھیں دونوں خواتین کی بدولت ملتان میں خواتین کے جلسے اور جلوس ہوتے تھے اور وہ دونوں مل کر اس کی قیادت کرتی تھیں کئی بار ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے لیکن زنانہ پولیس انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہی ۔
قیام پاکستان کے بعد 1951ء میں ان کی شادی ملتان میں انور پاشا کے ---- اس لئے وہ ملتان میں قیام پذیر رہیں اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں مسلسل مصروف رہیں وہ ضلع کونسل ملتان کی رکن رہی اپواء لیڈیز کلب اور خواتین کے لئے فلاحی سرگرمیوں میں مصروف اداروں سے وابستہ رہیں۔
دیگر خواتین: ان دنوں سرکردہ خواتین کے ساتھ اور بہت سی خواتین کارکن تحریک پاکستان کے لئے کام کرتی رہیں زبیدہ جعفری کی دو بھاوجیں مسز رشید اور مسز آصف ‘ محترمہ اختر رفیقی‘ مسز صغریٰ عزیز (جو معروف سول سرجن ڈاکٹر عبدالعزیز کی اہلیہ تھیں) شمسہ بخاری ‘ ممتاز صاحبہ دختر محمد بخش ایڈووکیٹ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ڈویژنل انسپکٹر ایگزیکٹو مسٹر شوق محمد کی دو صاحبزادیوں صفیہ پوش اور عطیہ شوق اور عطیہ شوق کا کردار بھی بہت اہم تھا جو اس وقت ایمرسن کالج ملتان کی طالبہ تھیں انہوں نے زنانہ مسلم لیگ کے ساتھ مل کر طالبات میں سیاسی شعور کی بیداری کے لئے نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ عقیلہ چغتائی‘ مسز صدیقی وغیرہ نے بھی بہت اہم خدمات انجام دیں۔
مجموعی طورپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ناموافق حالات کے باوجود ملتان کی خواتین میں سیاسی بیداری پیدا کرنے اور تحریک پاکستان کے لئے کام کرنے والی خواتین کا کردار قابل فخر اور قابل رشک ہے۔