نادیدہ کرونا وائرس نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا، ماہرین سماجیات ششدر بتا رہے ہیں کہ 2020ء انسانی تاریخ کا ایسا سنگ میل بن جائے گا جب اریخ کا تعین قبل از مسیح یا بعد از مسیح کے سنہ عیسوی کی بجائے کرونا کی آمد سے پہلے کی دنیا اور کرونا تباہی کے بعد کی کائنات سے کیا جایا کرے گا۔دانش مغرب کی علامت’ کالم نگارتھامس ایل فریڈ مین نے نیویارک ٹائمز میں ’ہماری نئی تاریخی تقسیم‘ کے عنوان سے لکھا ہے جس میں ’قبل مسیح‘ (اے سی اور بی سی) کو ’قبل کورونا‘ اور ’بعداز کورونا‘ کا نیا نام دیا ہے۔ انہوں نے کورونا کی آمد سے قبل اور بعد کی دنیا کے فرق کو بیان کیا ہے۔
ڈاکٹر تھامس کوآن کے تجزئیے کے مطابق دنیا میں جب ریڈار ٹیکنالوجی شروع ہوئی تو ہانگ کانگ میں زکام کی وباء پھیلی تھی۔ انہوں نے اپنے نظریے یا تحقیق کے حق میں یہ دلچسپ حقیقت بھی بیان کی ہے کہ کورونا وائرس کی تازہ عالمی وباء دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والے بیس ہزار سٹلائٹ ہیں جن کے ذریعے دنیا فائیو جی ٹیکنالوجی کی جدید ترین سہولت سے فیض یاب ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کورونا وائرس جس شہر ووہان سے پھیلا ہے وہ دنیاکا پہلا فائیو جی شہر تھا۔ انہی مقناطیسی شعاعوں کا اثر ہے کہ یہ دنیا بھر میں اتنی تیزی سے پھیلا ہے کیونکہ ہر شخص ان لہروں کی زد میں ہے اور موبائل تو ہر جیب میں موجود ہے۔ ڈاکٹر تھامس کوآن کے مطابق اس وقت دنیا میں انسان کے طورپر زندہ رہنا مشکل ہے اور اس ضمن میں روحانیت سے ناطہ جوڑنا ہوگا کیونکہ روحانیت ہی آپ کو انسان بناتی ہے۔
تھامس ایل فریڈ مین نے نیویارک ٹائمز میں ’ہماری نئی تاریخی تقسیم‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے جس میں ’قبل مسیح‘ (اے سی اور بی سی) کو ’قبل کورونا‘ اور ’بعداز کورونا‘ کا نیا نام دیا ہے۔ انہوںنے کورونا کی آمد سے قبل اور بعد کی دنیا کے فرق کو بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا کے آنے سے پہلے وہ اکیسویں صدی کی سیاسی جماعتوں کے موضوع پرکتاب لکھنے کا سوچ رہے تھے لیکن کورونا کے آنے کے بعد دنیا اس قدر بدل جائیگی، یہ ہمارے حاشیہ خیال میں نہ تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ذہن یہ قبول کرنے کو تیار نہیں کہ اگر ہم نے ابھی لاک ڈاون نہ کیا تو کورونا کے پانچ ہزار مریضوں کی تعداد بڑھ کر دس لاکھ ہوجائے گی۔
ان ٹیل کمپیوٹر کے شریک بانی گورڈن مور کے ایک اصول کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کمپیوٹر کی رفتار اور امور کو انجام دینے کی صلاحیت میں جس رفتار سے ترقی ہوئی ہے، وہ حیرت انگیز ہے۔ ووکس ویگن بیٹل گاڑی جسے عرف عام میں ’ڈڈو کار‘ کہاجاتا ہے، کی 1971ء سے اب تک ترقی کو کمپیوٹر کی ترقی کے بیان کیلئے مثال کے طورپر بیان کیاجائے تو انجینئرز کا کہنا ہے کہ اس گاڑی کی رفتار آج تین لاکھ میل فی گھنٹہ ہوتی۔ ایک گیلن میں یہ گاڑی بیس لاکھ میل کا سفر کرتی اور اسکی لاگت صرف چار سینٹ ہوتی۔ یہ ہے کمپیوٹرز کی ترقی کی رفتار۔ایک اور امریکی محقق کو امید ہے کہ سارس، ایچ ون این ون، ایبولااور زیکا وائرس کے بعد اب کورونا جس تیزی سے پھیل رہا ہے، باصلاحیت ذہین لوگ بائیولاجیکل اور وبائی امراض کی سائنس کی طرف آئیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس طرح کمپیوٹرز نے ترقی کی ہے، کیا اسی رفتار سے ان وبائی امراض کی دوائی بھی تیار ہوپائے گی؟ ہارورڈ کینیڈی سکول سینٹر برائے پبلک لیڈرشپ کے ایک محقق گوتم مکنڈا کے مطابق ایچ آئی وی اور ملیریا کی بھی ویکسین اب تک نہیں آئی۔ اس میں وقت لگے گا۔یہ لطیفہ بھی جاری ہے کہ اس مرتبہ صدارتی انتخاب کے موقع پر ری پبلکن سیاستدانوں کو اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ کہنے کا تکلف نہیں کرنا پڑیگا کہ ’’ہائے، میں حکومت کی طرف سے ہوں اور میں آپکی مدد کیلئے موجود ہوں۔‘‘ یہ تجزیہ بھی کیاجارہا ہے کہ پرانی نسل نے جنگ عظیم دوم کے بعد خامیوں کو دور کیاتھا لیکن کیا آج کی نسل ایسا کرپائے گی۔ کورونا کے آنے کے بعد امریکی معاشرہ اپنے کلچر کو جتنا سخت کرے گا اور اپنے پرس کو ڈھیلا یعنی خیرات کرے گا معاشرہ اتنا ہی مضبوط اور رحم دل ہوگا۔ پاکستان میں بحث جاری ہے کہ لاک ڈاون ہونا چاہئے یا نہیں؟ سندھ میں لاک ڈاون شروع ہوگیا ہے، وزیراعظم فرمارہے ہیں کہ ایسا نہیں کروں گا۔
عجب مرض ہے جس کی دوا ہے تنہائی
بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں
……………… (ختم شد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38