آج وقت کا تقاضا اس بات پر بضد ہے کہ دوسرے تمام ایشوز کو چھوڑ کر صرف کرونا وائرس پر بات کی جائے۔ وقت کی بات کو مانتے ہوئے کرونا وائرس کے متعلق راقم کچھ دانشوروں کے اس نقطہ نظر کا حامی ہے کہ یہ ایک بیماری نہیں بلکہ یہ کانسپریسی تھیوری کے تحت ایک دجالی فتنہ ہے جس پر میں سمجھتا ہوں دلائل کے ساتھ بات ہونی چاہئے جو پھر کبھی سہی۔ سردست راقم نے ورلڈ ہیلتھ ارگنائزیشن کی ویب سائٹ coronavirus/info/ worldometers سے آج منگل کی صبح تک جو ڈیٹا اکٹھا کیا ہے، وہ کچھ اسطرح ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں رپورٹڈ کیسوں کی تعداد 3,62,052 ہے جن میں ابتک 15,496 اموات ہو چکی ہیں جبکہ ان میں 1,00,657 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں اور 2,45,899 افراد ابھی زیر علاج ہیں جن میں 11,661 افراد کی حالت نازک ہے۔ آگے چل کر دیکھیں تو کل 3,62,052 کیسوں میں چین میں رپورٹڈ کیسوں کی تعداد 81,093 ہے جہاں پر دسمبر میں اس بیماری کا آغاز ہوا تھا آج کے دن وہاں صرف 39 نئے مریضوں کا اضافہ ہوا ہے۔ اب اس لسٹ میں دوسرا نمبر یورپ کے ملک اٹلی کا آتا ہے جہاں پر کل مریضوں کی تعداد 59,138 ہے اور یہاں پر یہ وباء فروری میں شروع ہوئی ہے۔ اللہ کی قدرت دیکھیں وہ ملک جس کا سربراہ دو ہفتے پہلے اس وباء کو ایک خاص ملک سے جوڑ کر طنزیہ انداز اپناتا ہے اسکے اپنے ملک میں صرف ایک ہفتے میں تعداد 40,841 کو پہنچ ہی ہے جس میں صرف آج کے دن 7,295 افراد کا اضافہ ہوا ہے اور یہ ملک دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک امریکہ ہے۔ چوتھے نمبر پر سپین 33,089 پانچویں نمبر جرمنی 28,784 چھٹے نمبر پر ایران 23,049 ساتویں پر فرانس 16,68 آٹھویں پر جنوبی کوریا 8,961 نویں پر سوئٹزرلینڈ 8,547 اور دسویں پر برطانیہ 5,837 کے ساتھ موجود ہے۔ اب آتے ہیں اپنے ملک پاکستان کی طرف جہاں ابتک کے اعداد و شمار کل تعداد 873 بتا رہے ہیں جس میں آج کا فگر 97 نئے کیسز بتا رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ کے دیئے گئے چارٹ کا مطالعہ کریں تو سب سے بڑی چیز جو ہم پاکستانیوں کیلئے حیرانگی کا باعث بن رہی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک نظر آ رہا ہے جہاں پر متاثرہ اشخاص یہ بیماری دوسرے ملکوں سے لیکر آئے ہیں جبکہ مقامی طور پر transmitted افراد کی تعداد ابھی بہت کم ہے جبکہ باقی دنیا میں یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ مقامی ٹرانسمیشن کے ذریعے پھیلا ہے۔ سوچنے اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستانی حکومت اس کا تدارک نہیں کر سکتی تھی۔ راقم سمجھتا ہے کہ ابھی یہ وقت ایسی بحثوں میں اْلجھنے کا نہیں۔ وقت کی پکار یہ ہے کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ اوپر ذکر کردہ ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کا تجزیہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پچھلے دو روز سے جب سے کچھ یورپی ممالک میں لاک ڈائون شروع ہوا ہے وہاں پر نئے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی شرح بتدریج کم ہونی شروع ہوئی ہے۔ جگہ کی کمی کی وجہ سے تمام ممالک کا ڈیٹا شیئر نہیں کر سکتا صرف برطانیہ کا ڈیٹا ڈسکس کر لیتے ہیں۔ 21 مارچ کو برطانیہ میں 1,035 مریضوں کا اضافہ ہوا تھا جبکہ 22 مارچ کو یہ تعداد کم ہو کر 665 اور 23 مارچ کو اس سے بھی کم ہو کر 154 پر آ گئی ہے اور اس سے ملتی جلتی صورتحال دوسرے یورپی ممالک میں بھی دیکھی جا رہی ہے جو اس بات کا واضع پیغام ہے کہ آئسولیشن سے بڑا بچاؤ اور علاج کوئی نہیں۔ دوسری سب سے اہم بات لوگوں کے دلوں سے یہ خوف ختم کرنا ہے کہ جسکو بھی یہ مرض لاحق ہو گیا وہ تو گیا۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ مرض مہلک، جلد پھیلنے والا اور اذیت ناک ضرور ہے ڈیٹا چیک کر لیں نوے فیصد سے زیادہ مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ چنانچہ اس سارے کالم کا حاصل مقصد یہ ہے کہ آپ جان لیں اور یقین کر لیں کہ اس مرض سے اگر بچنا ہے تو سب سے پہلے حفاظتی تدابیر جس میں سب سے پہلے آئسولیشن دوئم اپنا مدافعتی نظام بہتر بنائیں اور سوئم اپنی قوت ارادی بڑھائیں اور ان سب سے بڑھ کر اللہ سے رجوع کریں اور اس سے رحم مانگیں۔ اْسے یاد دلائیں کہ اے رَب کریم تو نے جس ہستی کو اپنا محبوب چْنا وہ اسی آدم قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تْجھے تیرے محبوب کا واسطہ اس قبیلے اس بنی نوع انسان پر رحم فرما جس کو توں نے اتنی چاہتوں اور پیار کے ساتھ بنایا۔ اسکے ساتھ ساتھ درود شریف بھی پڑھیں کیونکہ حضور نبی اکرمؐ کا فرمان ہے کہ میں آپکے پڑھے درود شریف کو سنتا ہوں اور اس کا جواب دیتا ہوں۔ جب آپ کسی کو اسلام علیکم کہتے ہیں تو آگے سے کیا جواب ملتا ہے وعلیکم اسلام۔ بس معاملہ سمجھنے کا ہے جب آپکے سلامتی کے کلمات کے جواب میں حضورؐ کی طرف سے سلامتی کا جواب آ جائے تو اللہ کیسے ٹالے گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38