ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کی پاکستان آمد اہل وطن کے لیے فخر کی بات ہے۔ یہ وہ عظیم رہنما ہیں جنہیں ان کی قوم نے ان کی پیرانہ سالی کے باوجود وزیر اعظم منتخب کیا اور قوم کا بچہ بچہ ان کیلئے دیدہ و دل فرش راہ رکھتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سوا کھرب روپے کے معاہدے ہوئے ہیں، ساتھ ہی وزیراعظم نے 3 ہفتے میں تیل و گیس بارے بڑی خوشخبری دینے کی نوید سنائی ہے۔ اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ بیورو کریٹس فیصلے نہیں کر رہے جس سے حکومتی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ نیب بارے بھی عمران خان نے اپنا نقطۂ نظر بیان کیا کہ نیب ہر کیس کھولنے کے بجائے بڑے مقدموں پر توجہ دے۔ انکے نزدیک بڑے لوگوں کو سزا ملتے ہی چھوٹے بدعنوان خود بخود ٹھیک ہو جائینگے۔ آج تک تو ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔ نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہ کر بھی دربدر ہیں۔ ان کی دربدری اور خواری سے چھوٹے بدعنوان جوں کے توں ہیں۔ کیا سرکاری انسپکٹر رشوت سے تائب ہو گئے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو اینٹی کرپشن محکموں کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ پانچ سال صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان رہنے والے مردِ خُر آصف علی زرداری چھوٹی چھوٹی عدالتوں میں دست بستہ حاضری دے رہے ہیں۔ نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ کیا انکے زوال سے کسی اور نے سبق سیکھا ہے۔ کوئی کسی کے انجام سے سبق نہیں سیکھتا۔ مردے کی نماز جنازہ اور تدفین تک خود پر خوف موت طاری رکھتے اور جناز گاہ سے نکلتے ہی خوفِ الٰہی کے وقتی خول کو اتار پھینک کر اپنی آئی پر آ جاتے ہیں۔ زیادتیاں ،نفرتیں ، حرام اور سود خوریاں کبھی ہڑتال پر نہیں گئیں نہ ہی ناجائز کمائیوں نے کبھی دھرنا دیا ہے نہ ہی ان کے کیلنڈر میں یوم تعطیل ہوتا ہے۔
پنجاب اسمبلی کے ارکان عمران خان کے مزاج شناس ہوتے تو تنخواہوں میں حیران کن اضافے میں اتنی جلد بازی نہ کرتے اپنے رہنما کی آشیر باد ضرور حاصل کرتے فی الحال تو اراکین کو لالی پاپ پر گزارہ کرنا پڑیگا اس لیے کہ پنجاب میں قائد ایوان عثمان بزدار نے کہہ دیا ہے کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ حالات بہتر ہونے پر ہو گا گویا فی الحال مالی حالات اجازت نہیں دے رہے۔ قرضوں پر قرضے چڑھ رہے ہیں۔ جمہوریت کی ساکھ دائو پر لگی ہے۔ صوبائی خود مختاری اور جنوبی پنجاب صوبے کا کچھ پتہ نہیں گورنر ہائوس کی دیوار ہلانے کی کوئی جرأت نہیں کر سکتا۔ وزیر اعظم ہائوس سے بہتر مہمان خانہ نہیں ہو سکتا، آزادیٔ صحافت اور نیب کی آزادی میں بڑا فر ق ہے۔ مقدمات کی طوالت پیچیدگی اور الجھائو سمجھ سے بالاتر ہے جھوٹی گواہی بے گناہ کو تختۂ دار تک لے جاتی ہے۔ سچائی کے سفر کا آغاز نہ جانے کب ہو گا۔ دہشت گرد تنظیموں کی بیخ کنی کے باوجود ان کا بیج باقی ہے۔ چور پکڑا جائے تب بھی اسکے ہمدرد اور سہولت کار آزاد رہتے ہیں۔ رات دن تعلیم کا چرچا کرنے کے باوجود بچوں کی بڑی تعداد سکولوں سے باہر ہے۔ دوردراز کے علاقوں میں لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔ مڈل سکول ہر آبادی میں نہیں ہیں۔ پرائیویٹ سکولوں کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ ٹرین کے ڈبوں کی طرح درجہ بندی کا تعین فیس کرتی ہے۔ زیادہ فیس نامور سکول ، کم فیس معمولی سکول اور سرکاری سکولوں پر تو اعتبار ہی ختم ہو گیا۔ حکومت نے قدرتی گیس کے صارفین کو اوور بلنگ کی مد میں اڑھائی ارب روپے واپس کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2016-17 ء سے بڑی کمپنیوں اور بڑے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔ 2018-19 ء میں سوئی گیس کے بلوں میں 146 فیصد تک اضافہ نے صارفین کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ ترقیاتی بجٹ انتہائی کم ہونے سے ملک میں نئے منصوبے شروع نہیں ہو رہے جس سے ملکی معیشت جامد ہو چکی ہے۔ سٹاک مارکیٹ مندے کا شکار ہے۔ عمران خان نے تیل و گیس کے ذخائر کے حوالے سے بڑی خوشخبری کی بات کی ہے۔ ساحل مکران کے آس پاس 9 کھرب مکعب فٹ قدرتی گیس اور بحیرہ عرب کے ساتھ سمندر میں 6 ارب بیرل تیل موجود ہے۔ اسی طرح تھر کے علاقے سے کوئلے کے بہت بڑے ذخیرے کی دریافت کے بعد پہلے کول پاور پلانٹ نے 330 میگاواٹ بجلی کی پیداوار نیشنل گرڈ میں شامل کی ہے۔ ابھی دو مزید پاور پلانٹ لگائے جانے ہیں جن سے 660 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔ اگلے سال تک تھر سے 2 ہزار میگا واٹ بجلی کی پیداوار متوقع ہے۔ گرمیوں میں شہروں میں دس سے بارہ جبکہ دیہی علاقوں میں بیس گھنٹے تک بجلی بند رہنے کی شکایات عام رہی ہیں۔ روزانہ پانچ ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے جو 8 ہزار میگا واٹ تک بھی چلا جاتا ہے۔ بجلی کی ضرورت 20 سے 32 ہزار میگا واٹ ہے جبکہ پیداواری گنجائش 23 ہزار میگاواٹ ہے۔ پانی سے بجلی تیار کرنے کے لیے چھوٹے بڑے ڈیم بنانے اور سورج کی روشنی اور ہوا سے بھی بجلی بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت اٹھارہ بڑی سکیموں پر 290 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ پچھلے 8 سال کے دوران زرعی شعبے کے اخراجات میں 60 فیصد کمی کے باعث ہمارا زرعی درآمدی بل ڈیڑھ ارب ڈالر سے بڑھ کر چار ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ درآمدی اشیاء میں دو ارب ڈالرکا خوردنی تیل بھی شامل ہے۔ بھارتی پنجاب میں فی ایکڑ پیداوار دوگنا ہو چکی ہے۔ بہترین کپاس، گندم اور خوش ذائقہ سبزیوں کی وجہ سے دنیا میں ہمارا نام ہے۔ پاکستان کو 2047ء میں اپنی 100 ویں سالگرہ تک خوشحال ملک بننے کے لیے سخت اور مشکل فیصلے کرنا ہونگے۔
ہمیں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈلوانے والا مودی ہی تو ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی چبھن بھی ایسے ہی دشمنوں کو ہے دشمن کا ہم نوا دوست نما دشمن ہی ہوتا ہے۔ امریکی سلامتی کو درپیش پانچ بڑے خطرات میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی شامل ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد اور اپنے دفاع کیلئے ہے۔ امریکہ کی نظر میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غلط ہاتھوں میں جانے کا خدشہ ہے۔ یوں تو ہر شخص اپنے کمرے کی چھت پر نظر ڈال کر اسکے سر پر گرنے کا خدشہ سامنے لا سکتا ہے۔ خدشہ تو موت زلزلے اور کسی بھی قدرتی آفت کا ہو سکتا ہے۔ دوست کے دشمن بن جانے کا بھی تو خدشہ ہو سکتا ہے۔ ہر شادی شدہ جوڑے کو طلاق اور خلع کا بھی خدشہ ہو سکتا ہے۔ خدشات کی تو نہ ختم ہونے والی لسٹ ہر کوئی تیار کر سکتا ہے۔ امریکہ یہ بتائے کہ اسکے پاکستان بارے کتنے خدشات حرف بہ حرف پورے ہوئے ہیں۔ خدشات کو سر پر اٹھا کر پھرنے والوں نے ہمارے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنایا۔ سیاسی منظر نامہ کہ اپوزیشن نام کی چیز ملک میں ہے ہی نہیں۔ ن لیگ اپوزیشن کا کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں۔ پیپلز پارٹی گئی گزری ہو کر بھی بے جان نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری میں کرنٹ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ ن لیگئیے بھرپور تعداد میں قومی اور پنجاب اسمبلی میں موجود ہیں لیکن انہوں نے زبان کھولنا نہیں سیکھا۔ کبھی کبھی الیکٹرانک میڈیا حمزہ شہباز کے سامنے کیمرہ لے آتا ہے۔ وہ شبیہ تایا جان بننے کی خوب اداکاری کرتے ہیں۔ حکومت کیخلاف کوئی گرینڈ ایلائنٹس بنتا دکھائی نہیں دے رہا۔ زرداری کی ممکنہ گرفتاری کی صورت میں احتجاج یا تحریک کے بارے حتمی طور پر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ مئی 2006ء میں لندن میں ہونے والا میثاق جمہوریت بحالیٔ جمہوریت اور مشرف آمریت کے خاتمے کیلئے تھا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مفادات یکساں نہیں۔ پیپلز پارٹی صرف سندھ میں ہے۔ پی ٹی آئی کی حریف جماعت ن لیگ ہے۔ نواز شریف سے ڈیل ہو نہ ہو آئی ایم ایف سے ضرور ڈیل ہونے جا رہی ہے۔ ڈیل تو ملک ریاض سے بھی ہو چکی ہے جس طرح ملکوں کے درمیان جنگ کوئی حل نہیں، مذاکرات کی میز پر جلد یا بدیر آنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ڈیل ڈھیل اور یوٹرن بھی سیاسی ادویات ہیں جنہیں سیاسی صحت یابی کیلئے دینا اور لینا پڑتا ہے۔ مذکورہ اصطلاحات سیاسی لغت کا حصہ ہیں۔ نواز شریف، زرداری اور عمران خان تینوں نے اس لغت کا بغور مطالعہ کر رکھا ہے!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024