اس مالی سال کا نواں مہینہ تقریباً مکمل ہو رہا ہے۔ اس دوران جو کارکردگی سامنے آئی ہے، اس میں اب کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئیگی۔ لہٰذا اب یہ ممکن ہے کہ ہم پہلے سال کی ممکنہ کارکردگی اور مستقبل کے چیلینجز کا ایک جائزہ نظرِ قارئین کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نئی حکومت کو ایک مشکل معیشت ورثے میں ملی تھی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نئی قیادت اپنا کوئی معاشی تصّور ساتھ نہیں لیکر آئی۔ معاشی ترقی کے مخدوش امکانات ، افراط زر کا بڑھتا دباؤ، سرکلر ڈیٹ کا پھیلتا سلسلہ، مجموعی قرضے خصوصاً بیرونی قرضے، میں مسلسل اضافہ، بجٹ اور بیرونی ادائیگیوں کا بڑھتا خسارہ اور سرمایہ کاری ماحول اور اعتماد میں گراوٹ وہ چند رجحانات تھے جواْ س مشکل معیشت کی تصویر پیش کررہے تھے جو حکومت کو وراثت میں ملی تھی۔ لیکن نئی حکومت نے اس سب میں کوئی قابل قدر بہتری کا سامان پیدا نہیں کیا ہے۔ یہ تمام برے رجحانات اس بات کے متقاضی تھے کہ ان کا سامنا کیا جاتا اور ان کے تدارک کا انتظام کیا جاتا۔ یہ خرابیاں بنیادی طور پر موجود وسائل سے زیادہ اخراجات کا نتیجہ تھیں۔ اس کا آغاز بجٹ کے خسارے میں ہوتا ہے لیکن بہت جلد یہ بیرونی ادائیگیوں کے خسارے میں بدل جاتا ہے۔ حکومت مقامی کرنسی میں جسقدر خرچے کرنا چاہے وہ ممکنہ طور پر کرسکتی ہے، کیونکہ وہ نوٹ پرنٹ کرسکتی ہے، لیکن جب وہ یہ خرچے درآمد شدہ اشیا پر کریگی ، مثلاً توانائی کے حصول میں پیٹرولیم اشیاء کسی نہ کسی شکل میں براہ راست استعمال کیلئے درامد کی جاتی ہیں یا پھر بجلی کی پیداوار کے حصول میں صرف ہوتی ہیں، تو وہ یہ خرچے اپنی مرضی سے نہیں کرسکتی۔ کیونکہ یہ خرچے صرف غیر ملکی کرنسیوں مثلاً ڈالر میں ممکن ہیں۔ ان کی فراہمی کسی حکومت کی منشا پر نہیں بلکہ معیشت کی اس اہلیت پر منحصر کہ وہ دیگر دنیا کو برآمدات کرکے کتنا زرمبادلہ کماسکتی ہے، یا پھر اگر کوئی تفاوت ہے تو وہ مستقبل میں ہونے والی ترقی کی بنیاد پر قرضوں کے حصول کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب ہم اس مقام پر پہنچتے ہیں جہاں ہماری درآمدات کی مانگ ہمارے ذخائر پورا نہیں کرسکتے اور نا ہی کوئی قرضہ دینے کو تیار ہے تو ملک کو دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جو ایک اضطراری کیفیت ہوتی جہاں صرف آئی ایم ایف کی مدد کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہتا۔
یہ تھا وہ بنیادی مسئلہ جس کا حکومت کو سامنا تھا۔ اسے بجٹ خسارے کو کم کرنا تھا، سرکلر ڈیٹ کو ختم کرنا تھا، درآمدات کو کم اور برامدات کو بڑھانا تھا۔ ٹیکس کی گرتی شرح نمو کو بڑھانا تھا۔ سرمایہ کار کا اعتماد بحال کرنا تھا۔ ذمہ دار طرز حکومت کو فروغ دینا تھا۔ لیکن ان تقاضوں کے برعکس ان مسائل کی طرف حکومت کا طرز عمل ایک بے اعتنائی (indifference) کا رہا ہے۔ اس کی وجہ ایک یکسو سوچ کا فقدان ہے۔ جن حالات سے معیشت گذر رہی تھی اس میں ایک صاف اور واضح راستہ آئی ایم ایف کیطرف رجوع کرنے کا تھا۔ اس سادہ سے حل کے برخلاف حکومت نے ایک دوسری راہ اپنائی اور دوست ممالک سے مدد کی درخواست کی۔ یہ مدد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے مانگی گئی اور اس ضمن میں اب تک کوئی پانچ ارب ڈالر موصول ہوگئے ہیں اور تین مزید آئینگے۔ اس مدد کی نوعیت بیماری کے علاج کو موخر کرنے سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ مدد آگئی اور استعمال بھی ہوگئی جبکہ معیشت کے مسائل اپنی جگہ کھڑے ہیں۔ ان مسائل میں بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر کی مطلوبہ تعداد میں موجودگی اولین اہمیت کی حامل ہے۔ اس مدد کے باوجود ہمارے ذخائر مسلسل گر رہے ہیں۔ جب تک یہ سلسلہ جاری رہیگا معیشت عدم استحکام کا شکار رہے گی۔ درحقیقت وہ بنیادی مسئلہ جس کی ہم نے اوپر نشاندہی کی ہے اس میں مزید خرابی پیدا ہوئی ہے۔
مزید براں حکومت کی فکر میں کچھ تضادات اس نوعیت کے ہیں جو معاشی ماحول میں کدورتیں پھیلانے کا باعث ہورہے ہیں۔ وزیر اعظم تسلسل سے اپنے انتخابی وعدوں کا اعادہ کررہے ہیں کہ وہ کرپٹ عناصر کو جیل میں ڈالے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ابتداً تو وہ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ وہ لوٹی ہوئی دولت کو واپس لا رہے ہیں جو خالی خزانے کو پورا کریگی۔ ان کے خیال میں انھیں آئی ایم ایف کے پروگرام میں نہیں جانا چاہیے کیونکہ اس سے ملک میں افراط زر میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ اس سے بچنے کیلئے اور جب تک وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لیکر آتے ہیں ، انہیں وقتی طور پر کچھ بیرونی مدد کی ضرورت ہے جو وہ دوست ممالک سے درخواست کررہے ہیں کہ وہ مرکزی بینک میں جمع کرادیں تاکہ یہ مشکل وقت نکل جائے۔ یہ وہ سوچ تھی جو ایک سادہ حل کے بجائے حکومت کو ایک ایسے راستے پر لے چلی جہاں وہ مشکل فیصلے موخر کرتی رہی اور معیشت کی زبوں حالی میں ابتری آتی رہی۔ اکابرین حکومت قرضوں کی بہتات کے شاکی رہے ہیں اور اس سے اجتناب کی نوید دیتے رہے ہیں۔ لیکن اپنے فہم کے مطابق بحالی معیشت کیلئے قرضوں پر ہی انحصار کو صحیح سمجھا گیا۔ امید کرنی چاہیے کہ اس بات سے انہیں یہ علم تو ہوگیا ہوگا کہ قرضے کہاں استعمال ہوتے ہیں اور ان کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔
اس منتشر سوچ نے سرمایہ داروں کے اعتماد میں اضافہ نہیں کیا ہے۔ ٹیکس وصولیوں کیلئے جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے کاروباری طبقے نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے۔ مقامی سرمایہ کار ایک انجانے خوف کا شکار ہے۔ بینکنگ نظام میں پیچیدگیاں در آئی ہیں او رلوگوں کی کوشش ہے کہ اس سے باہر رہ کر کام کریں۔ اس سال ٹیکسوں کی وصولیاں ملک کی تاریخ میں شائد کم ترین اضافہ کی حامل رہی ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ شدید مندی کا شکار ہے۔ سرمایہ کار یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ معیشت کس سمت میں جارہی ہے۔ معیشت عدم استحکام کا شکار ہے۔ حکومت بیورکریسی کے عدم تعاون کی شاکی ہے، لیکن وہ یہ نہیں سمجھتی کہ خود اس کا اپنا بیانیہ اس رویے کا باعث بن رہا ہے۔
حال میں حکومت نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ بالآخر آئی ایم ایف کا پروگرام شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس کیلئے وہ فنڈ کیساتھ مذاکرات کررہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فنڈ نے پہلے سخت شرائط رکھی تھیں لیکن اب اس میں نرمی پیدا کردی ہے جو پاکستان کو قبول ہیں۔ یہ بیانیہ کسی کو گمراہ نہیں کرسکتا۔ فنڈ پروگرام سخت تقاضوں کا حامل ہوگا۔ اس کی مرکزی شرط مجموعی مانگ کو کم کرکے موجود وسائل کی حد کے اندر لانا ہوگا۔ اس کی وجہ سے شروع میں یقیناً افراط زر میں اضافہ ہوگا، بجٹ کا خسارہ کم ہوگا، ترقی کی شرح کم ہوگی، لیکن ملک کی سب سے بڑی ضرورت یعنی زرمبادلہ ، جو خطرناک حد تک کم ہوگئے ہیں ، پوری ہوجائیگی۔ اس کیساتھ ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول پیدا ہونا شروع ہوجائیگا۔ اگر ہم استقامت کیساتھ پروگرام پر عمل کرتے رہے تو بالآخر ترقی کا سلسلہ بھی شروع ہوجائیگا۔
لیکن ماضی میں پاکستان کی شہرت یہ رہی ہے کہ وہ پروگرام تو شروع کردیتا ہے لیکن اس کی مشکل شرائط کو وہ سیاسی طور پر ناقابل قبول سمجھ کر جلد ختم کردیتا ہے۔ اس تناظر میں پروگرام کے حصول سے زیادہ مشکل کام اس کا تسلسل سے جاری رہنا ہے۔ اس کیلئے عزم مصمم اور پروگرام کی اہمیت کا صحیح ادراک بہت ضروری ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے متعلق جس رویے کا اظہار کیا ہے وہ مستقبل میں حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان تعلقات کو خوش اسلوبی سے آگے بڑھنے کا حوصلہ افزا عندیہ نہیں دیتا۔ لیکن یہ تعاون ہماری معیشت کی صحت اور ترقی کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت اب کوئی وقت ضائع کیے بغیر یکسوئی کیساتھ معیشت کی ضرورتوں کا خیال کرتے ہوئے اس تعاون کو موثر اور کامیاب بنائیگی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024