18 فروری 2007ء کو بھارت پاکستان سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ ہوا۔ 68 پاکستانی شہید ہوئے۔ ہریانہ پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کیا لیکن واقعہ کے تین سال بعد جولائی 2010ء میں اس کی تفتیش، قومی انویسٹی گیشن ایجنسی کو منتقل کر دی گئی۔ حملے کے فوراً بعد بھارتی حکام نے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے کا الزام پاکستان پرتھونپ دیا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ نے اسے خوب اُچھالا، پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے خوب پراپیگنڈہ کیا گیا جبکہ پاکستان نے اس بے ہودہ الزام تراشی کی سختی سے تردید کی اوراس قسم کی کسی سرگرمی میں ملوث ہونے کا شدومد سے انکار کیا۔
بھارت کی انٹی ٹیررازم سکواڈ ٹیم کی تحقیقات کے نتیجے میں مودی کی بی جے پی سے گہرا تعلق رکھنے والے اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے لیڈر انتہا پسند ہندو لیڈر آسیم آنند نے اعتراف کر لیا کہ سمجھوتہ ایکسپریس کو نذر آتش کرنے کے منصوبے کا وہ حصہ تھا۔ اُس نے تفتیش کاروں کو مزید بتایا کہ آر ایس ایس کے کئی ایک پرچارک بھی نہ صرف اس (ناپاک) منصوبے میں ملوث ہیں بلکہ انہوں نے اجمیر (شریف) مالے گائوں اور مکہ مسجد بم دھماکوں کے لیے مالی وسائل بھی مہیا کیے۔ اُس نے اعترافات کے دوران انکشاف کیا کہ جنرل جے جے سنگھ(2007 ء تک آرمی چیف) بھی ’’ہمارے ساتھ‘‘ ہے۔ اس اعتراف کی تائید اُس وقت ہوئی، جب صوبہ مہاراشٹر کے ضلع ناسک کے مسلم اکثریتی شہر مالے گائوں کے دھماکوں میں انڈین آرمی کا لیفٹیننٹ کرنل شری کانٹ پرشاد پروہت ملوث پایا گیا اور اس کے سمجھوتہ ایکسپریس کو اُڑانے والوں سے تعلقات کے ثبوت بھی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ مالے گائوں اور سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کا شکار مسلمان ہی تھے، مگر پھر بھی بھارتی پولیس نے صرف مسلمانوں کو ہی گرفتار کیا۔ ان دونوں دھماکوں کی تحقیقات ریاستی انٹی ٹیرر سکواڈ کے سربراہ ہیمنت کر کرے نے کی۔ اُس نے ان دھماکوں کے شبے میں جن گیارہ افراد کو پکڑا ، وہ سب ہندو تھے۔ ان میں انتہا پسند ہندو تنظیم ابھی نائو بھارت وشوا پریشد کے سابق سربراہ سادھوی پراگیا سنگھ ٹھاکر، سوامی امرت نند عرف دیانند پانڈے، راشٹریہ سیوک سنگھ کا رُکن سوامی اسیم نند، ریٹائرڈ میجر رمیش اُپا دھیائے اور حاضر سروس فوجی افسر لیفٹیننٹ کرنل پرشاد سری کانت پروہت بھی شامل تھے۔ گرفتار ہونے والوں میں بیشتر کا تعلق کٹر انتہا پسد ہندو تنظیم سنگھ پریوار سے تھا۔ مسٹر کرکرے نے نہایت پیشہ ورانہ مہارت کو استعمال کرتے ہوئے ٹھوس ثبوت فراہم کر دئیے (کہ کسی شک کی گنجائش ہی نہ چھوڑی) اسے ان شہادتوں اور ثبوتوں کے بارے میں پختہ یقین تھا کہ ملزمان سزا سے نہیں بچ پائیں گے۔ اس تفتیش نے بھارتی فوج‘ را اور آر ایس ایس کو ڈی آئی جی کرکرے کے خلاف سخت مشتعل کر دیا حالانکہ اُس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اُس نے اپنے ذمہ لگائی گئی تفتیش کو بڑی ایمانداری سے سرانجام دیا اور حقیقی مجرموں کو بے نقاب کیا۔ را، آر ایس ایس ہی نہیں بلکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی اعلیٰ قیادت نے اسے سنگین نتائج بلکہ جان سے مار دینے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ بی جے پی کے وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار ایل کے ایڈوانی اور گجرات کے اُس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے اُسے غدار قرار دیا اور اُسے ’’دیش دھر وہی ‘‘ (وطن دشمن) قرار دے کر اُسے سزائے موت دینے کا مطالبہ کر دیا۔ یہ بیانات ڈی آئی جی کے لیے پروانہ موت ثابت ہوئے۔ بدقسمتی سے مجرموں (آر ایس ایس) کے اس بہادر شکاری کو آر ایس ایس اور را نے نشانے پر رکھ لیا، بالآخر 27 نومبر 2008ء کو دہشت گردوں کے اس جانی دشمن کو ممبئی حملوں کے دوران گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ اس کے قتل کی تفتیش تک نہ ہونے دی گئی حالانکہ سبھی جانتے تھے کہ قاتل کون ہیں۔ آر ایس ایس اور را جیت گئیں۔ بہادر اور ایماندار کرکرے، دہشت گردی کے سرغنوں کے سامنے جان کی بازی ہار گیا۔
کرکرے کے قتل میں بنیادی شہادت‘ گولی کس ہتھیار سے چلائی گئی…غائب کر دی گئی۔ اُس کے جسم سے گولیاں نکالی گئیں لیکن کہہ دیا گیا کہ کوئی گولی نہیں ملی اور یوں تفتیش کو آگے بڑھانے کے ثبوت ہی ضائع ہو گئے۔ بہادر افسر کرکرے کی بیوہ کویتا کرکرے اپنے خاوند اور اپنے بچوں کے لیے انصاف کی دہائی دیتی رہی لیکن اس بے چاری کی چیخ و پکار پر عدل و انصاف کے کسی کرتا دھرتا نے کان نہ دھرے۔ ہندو کالونی دادر کی رہائشی کویتا، این ایس ایس بی ایڈ کالج میں پروفیسر تھی۔ خاوند کے ظالمانہ قتل نے اسے ہائپرٹینشن کا مریض بنا دیا، چنانچہ اسے ملازمت چھوڑنا پڑی، صدمے اور ہائپرٹینشن کے باعث اُس کے دماغ کی رگ پھٹی اور کوما میں چلی گئی، اسی بے ہوشی کے عالم میں 29 ستمبر 2014ء کو 57 سال کی عمر میں اُس نے جان دے دی۔
لیفٹیننٹ کرنل سری کانٹ پروہت جسے انٹی ٹیررزم سکواڈ (اے ٹی ایس) نے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے میں گرفتار کیا تھا اور جس نے دوران تفتیش اعترافِ جرم بھی کر لیا تھا دندناتا پھرتا ہے جبکہ ہیمنت کرکرے صفحہ ہستی سے مٹایا جا چکا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پروہت نے اے ٹی ایس کے اہلکاروں کو بتایا تھا کہ اُس نے اس منصوبے کا خاکہ تیار کیا تھا اور 29 ستمبر کے ’’انتقام‘‘ کے لیے مالے گائوں اور سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکوں کے لیے بارود فراہم کیا تھا۔ 37 سالہ افسر پروہت نے مزید اعتراف کیا کہ اُس نے انتہا پسند ہندو تنظیم ’’ابھی ناو بھارت‘‘ کو ان دھماکوں کے لیے رہنمائی اور دھماکہ خیز مواد فراہم کیا تھا۔ تفتیش کے دوران کرنل پروہت نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اُس نے سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ اور مسلمانوں پر حملوں کے لیے آر ایس ایس کے ہندو دہشت گردوں کو تربیت دینے کے علاوہ آر ڈی ایکس (RDX) بھی فراہم کیا تھا، اُس نے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ اُس کی کوشش تھی کہ کسی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان مسلح تصادم ہو جائے تاکہ بھارت میں مسلم دشمن جذبات کوبھڑکا کرتشدد کا بازار گرم کیا جا سکے۔ (مسلمانوں کا قتل عام کرنے کا جواز مل جائے) (غور کریں تو) ان اعترافات کی پلوامہ کے بعد کے حالات سے بڑی مشابہت ہے۔
انٹی ٹیررزم سکواڈ نے دعویٰ کیا تھا کہ کرنل پروہت نے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کے ایک رُکن کو RDX فراہم کیا تھا۔ پبلک پراسیکیوٹیر اجے مسرا کا کہنا ہے کہ انتہا پسند ہندو تنظیم ابھی ناو بھارت کے خزانچی اجے راہیکار نے لیفٹیننٹ پروہت کوڈھائی لاکھ روپے دئیے تھے۔
ڈی آئی جی کرکرے کی موت کے بعد بھارتی حکومت نے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کے ذریعہ تحقیقات کا ک ام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ پھر ٹرائل کورٹ میں خامیوں سے بھرپور تفتیش اور جان بوجھ کر مسخ کی گئی شہادتوں پر مبنی مقدمہ چلا۔ (فیصلہ ظاہر ہے کیا برآمد ہونا تھا) بھارتی حکومت نے جج جگدیپ سنگھ سے مرضی کا فیصلہ لے لیا ۔ آر ایس ایس کو بچانے اور آئندہ الیکشن میں بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لیے تمام مجرم بری کر دئیے گئے۔ اس فیصلے نے اصل میں مودی کے ’’وار ڈاکٹرائن‘‘ کی تائید کر دی ہے۔ اس ڈاکٹرائن کا ایک مقصد مخالف سیاسی جماعتوں کو کچلنا ہے۔ صاف لگتا ہے کہ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کا فیصلہ پردھا ن منتری مودی کی ہدایت پر دیا گیا ہے کیونکہ تفتیش و انصاف کے محکمے ، مودی کے تحت ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اُس نے ملزموں کے حق میں فیصلہ لینے کے لیے اپنا پسندیدہ جج مقرر کیا۔ تفتیش اور ملزموں کے عدالتی بیانات کے بعد اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ سمجھوتہ ایکسپریس حملہ کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی اور اس پر عمل کا کردار بھارتی ایجنسیوں نے ادا کیا۔ یہ فیصلہ بھارتی معاشرہ میں ہندو انتہا پسندی کو مزید تقویت دے گا اور دنیا آنے والے برسوں میں ’’ہندو طالبان‘‘ دیکھے گی۔ آر ایس ایس ، بی جے پی کا تشدد پسند گروپ ہے جو بھارت کے دوہرے چہرے کو آشکار کرتا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے بھارتی جمہوریت اور سیکولر زم کو بُری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ میں اس طے شدہ فیصلے کو یکسر مسترد کرتا ہوں، جسے ایک ایسے جج نے لکھا، جو مودی کا دوست ہے۔ مندرجہ بالا حقائق کے پیش نظر بھارت کو ایک دن بین الاقوامی عدالت انصاف کو درج ذیل سوالوں کا جواب دینا ہو گا۔ لوگ ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر سکتے کہ 68 مسلمانوں کے سفاک قاتل کیفر کردار کو پہنچنے کی بجائے دندناتے پھریں۔
-1 ملزموں کی فہرست سے ایسے بہت سے نام کیوں خارج کر دئیے گئے، جن کے خلاف ٹھوس شواہد موجود تھے ا ور جن کے عدالتی اعترافات آن ریکارڈ دستیاب ہیں۔ -2 شہادت کے باوجود کرنل پروہت کے اصل کردار کو عدالت کی کارروائی کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا۔ جج نے اس پہلو کو کیوں نہیں دیکھا کہ اسے کیوں نامزد نہیں کیا گیا۔ -3 سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کا فیصلہ ایک ایسے وقت کیوں آیا کہ جب لوک سبھا کے انتخابات سر پر آ گئے ہیں اور بی جے پی کو ان انتخابات میں کامیابی کا یقین نہیں ہے۔ -4 سمجھوتہ ایکسپریس کیس کو نیشنل انویسٹی گیشن کو منتقل کیا گیا جبکہ اس سے پہلے تفتیشی ادارے اس پر قابل لحاظ پیش رفت کر چکے تھے۔ -5 ڈی آئی جی کرکرے، ممبئی دہشت گردانہ حملے میں قتل کر دیا گیا، جبکہ بی جے پی کی قیادت اُس پر سخت برہم تھی ، آر ایس ایس کے کرتا دھرتا اُس پر کیوں تنقید کرتے تھے؟ -6 ڈی آئی جی کرکرے کے قتل کی مسلمہ قانونی طریق کار کے مطابق کیوں تفتیش نہ کی گئی۔ -7 سادھو سوامی آسیم نند نے عدالتی نگرانی میں مجسٹریٹ کے روبرو (اپنے جرم کا) اعتراف کیا۔ اُس کے اس اعتراف کو عدالتی کارروائی کا حصہ کیوں نہ بنایا گیا اور پھر اس کے اعترافات کے باوجود اُسے کیوں بری کر دیا گیا۔ -8 پاکستانی مسلم خاتون راحیلہ وکیل کی موقعہ کی گواہ ہونے کی حیثیت سے عینی شہادت کو کیوں اہمیت نہ دی گئی اور اسے عدالت کے سامنے پیش ہونے کا موقعہ کیوں نہ دیا گیا حالانکہ اس کی شہادت ریکارڈ کرنے کے لیے حتمی فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔ -9 سادھو سوامی اسیم انند مکہ مسجد، اجمیر درگاہ دھماکوں میں باقاعدہ ملزم نامزد ہونے کے باوجود ہر بار کیسے معصوم قرار پایا جاتا رہا۔ اس کی چھان بین ہونی چاہئے کہ وہ ان تمام پُرتشدد واقعات میں کیوں نامزد ہوتا رہا ہے۔ کیا بھارتی حکومت اس کی کوئی منطقی توجہیہ دے سکتی ہے۔ -10 کافی شواہد کے ساتھ ثابت ہو چکا ہے کہ اس سانحے میں آر ایس ایس کے تربیت یافتہ دہشت گرد ملوث تھے اور اُنہیں بی جے پی کی قیادت کی پشت پناہی بھی حاصل تھی جو ظاہر کرتا ہے سمجھوتہ ایکسپریس حملہ دہشت گردی کا ایک ایسا واقعہ ہے جسے حکومتی سرپرستی حاصل تھی۔ آخر بھارت کے نام کو سیاہ (بدنام) کرنے والوں سے ریاستی قانون کے تحت مجرموں کا سا برتائو کیوں نہ کیا گیا، کیا بھارت ثابت کر سکتا ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی نہیں ہے۔
سمجھوتہ دہشت گردی کے متاثرین بھارتی حکومت کے جواب کے منتظر ہیں ا ور چیف جسٹس آف انڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ریاست کے پالتو دہشت گردوں کی اس ناانصافی کا نوٹس لیں۔
(ترجمہ: حفیظ الرحمن قریشی)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024