آج میرے ملک کا ہر سیانا نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی سیاسی سوجھ بوجھ اور دانش کے گیت گاتا نظر آرہا ہے ۔یہ ایک حقیت ہے کہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردکھایا ہے کہ وہ کتنی بہادر اور زیرک سیاست دان ہیں انکے دل میں انسانیت کے لیے کیسے جذبات ہیں ایک انسانی جان کی ان کے دل میں کیا اہمیت ہے ۔وہ اپنے ایک بیان میں افسوس کا اظہار کر لیتی یا دو چار روز گزرنے کے بعد مسلمانوں سے اظہار افسوس کرنے چلی جاتیں تو یہ بھی دکھ کے ماروں کے لیے بہت بڑی بات ہوتی ۔لیکن انسانیت کا مقام سمجھنے والی جیسنڈرا آرڈن سیاہ لباس پہنے سر ڈھانپ کے مسلمانوں کے سر پر دشت شفقت رکھنے جا پہنچیں۔ آنکھوں میں آنسو, ہاتھ معافی کے طلباگار اور ان کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ اندر سے کتنی دکھی ہیں ۔یہ وقت تھا کہ وہ کسی بھی سمت چل پڑتیں ۔وہ امریکی صدر کی مدد کی درخواست قبول کر لیتیں اور اپنے ملک کو مستقل حالت جنگ میں لے آتیں۔لیکن انہوں نے ثابت کیا کہ وہ بغیر وردی کے ایک کمانڈو ہیں ۔انہوں نے دوسرا رستہ بلکہ سیدھا رستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ۔نقصان جو ہونا تھا ہو چکا تھا ۔لیکن اب وقت تھا زخموں پر مرحم رکھنے کا ۔مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا ۔اور یہ کام نہ صرف وزیر اعظم نیوزی لینڈ بلکہ نیوزی لینڈ کے ہر بندے نے کر دکھایا ۔وزیر اعظم نیوزی لینڈ لوگوں کے گھروں میں جا جا کے انکے غم بانٹ لینے کی کامیاب کوشش کرتی رہیں ۔نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی بار قانون ساز اسمبلی کی کاروائی تلاتِ قران سے شروع ہوئی۔نیوزی لینڈ کے ریڈیو اور ٹی وی سے جمعہ کی اذان براہ راست نشر کی گئی ۔اخبارت نے اپنے صفحہ اول پر اسلام امن کا مذہب لکھا۔جب مسجد میں موذن نے اذان شروع کی تو باہر سڑکوں پر ہزاروں لوگ خاموش اور باادب کھڑے نظر آئے ۔وہاں کے باسیوں نے انسانیت سے محبت کا پیغام دینے والا ہر کام کیا اور کر رہے ہیں ۔ایک بزدل دشت گرد نے نہ صرف نیوزی لینڈ بلکہ دنیا بھر میں اسلام کو ایک بار پھر زندہ کردیا ہے ۔آج دنیا کہہ رہی ہے کہ دشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوسکتا ۔ مسلمان حکمرانوں کی بے حسی کہیں یا سیاسی سوجھ بوجھ کی کمی۔کہ وہ اپنے لوگوں کے لیے نہ روز گار کے بہتر مواقع پیدا کرسکے اور نہ ہی اپنے نوجوانوں کے لیے اعلی تعلیم کے لیے مثالی درسگاہیں قائم کرسکے۔دنیا کی بہترین درسگاہیں یورپ میں ہونے کی وجہ سے مسلمان ملکوں کی اشرافیہ کے بچے ایک عرصے سے وہاں تعلیم حاصل کرتے چلے آرہے ہیں ۔وہاں کے ماحول اور قوانین سے متاثر ہو کر بہت سے وہاں بسی گوریوں کی زلفوں کے اسیر ہو کے ساری عمر کے لیے پھر وہیں بس جاتے ہیں۔جب سے ہوش سنبھالی ہیں باقاعدگی سے ایک ملی نغمہ سنتے آرہے ہیں ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں ۔لکھنے والے نے بڑی محبت سے پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے ۔لیکن دنیا ہمیں زندہ قوم نہیں مانتی ۔صاحبو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم آج تک قوم بننے کا فلسفہ سمجھ ہی نہیں سکے ہیں ۔ جب ہم پوری دنیا کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو بڑی آسانی سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ دنیا میں ان قوموں نے ہی سدا کامیابیاں حاصل کی ہیں جنہوں نے بحیثیت قوم اپنے آپ پر فخر کیا ہو، جنہیں اپنے وطن، اپنے رسم و رواج، اپنے مذہب ا ور اپنی زبان سے سچی محبت ہوتی ہے۔ پرائیوٹ سکولوں کی بھرمار نے ہماری نئی نسل سے مادری زبان کے ساتھ قومی زبان بھی چھین لی کیوںکہ اب بچوں کو نرسری سے ہی انگریزی زبان میں تعلیم دی جانے لگی ہے جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل ایک عجیب مخمصے کا شکار ہے کہ وہ کیا کریں؟ پاکستان کا بڑا مسئلہ یہ نظامِ تعلیم بھی تو ہے۔ یہی وہ مسئلہ ہے جو ہمیں ایک قوم بنانے کی بجائے مزید طبقات میں تقسیم کر رہا ہے ۔اگر ہم نے آج ایک زندہ قوم بننا ہے تو ہمیں اپنی دھرتی سے جڑنا ہوگا ۔اپنے بچوں کے اندر قومی محبت پیدا کرنا ہوگی ۔آج اگر ہم اپنے بچوں کو مادری زبان کے ساتھ قومی زبان میں تعلیم دیں تو امید ہے کہ ہم بحیثیت قوم بہت جلد دنیا میںاپنی ایک پہچان بنالیں۔۔ بہت وقت گزر گیا مگر ابھی تک ہماری دفتری زبان اردو ہو سکی اور نہ ہی مادری زبانوں کو ان کا اصل مقام مل سکا۔ آج ہمارا رہا سہا کام بھی انگریزی زبان کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اردو ایک بہت ہی زرخیز زبان ہے۔ ہماری تاریخ کے نامور شاعر حضرات نے اردو زبان میں بہت کچھ بیان کیا ہے۔ اردو زبان پوری دنیا کے ممالک میں بولی جاتی ہے۔ بی بی سی لندن، امریکہ سمیت بہت سے دوسرے ملکوں میں اردو میں پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ فرانس والے فرنچ زبان پر فخر کرتے ہیں، انڈیا والے ہندی بولنا پسند کرتے ہیں، چین والے ہمیشہ اپنی زبان میں بات کرتے ہیں تو پھر ہمیں کیا مجبوری ہے کہ ہم پاکستان میں بھی اور باہر بھی انگریزی زبان میں ہی بات کرتے ہیں۔ آج ہم ترقی یافتہ ملکوں کو دیکھتے ہیں تو اس میں چین، کوریا، جاپان، ملائیشیا، جرمن، اٹلی اور فرانس وغیرہ جتنے بھی ملکوں نے ترقی کی ہے وہ بڑے فخر سے اپنی زبان بولتے بھی ہیں اور اپنے بچوں کو پڑھاتے بھی ہیں۔ہیجان سے نکل کے زندہ قوم بننے کا آسان نسخہ ہے کہ اپنی قومی روایت پر فخر کیا جائے ۔نصاب میں قانون کا احترام ,انسانیت سے محبت کا درس اور اخلاقیات نہ صرف پڑھائی جائے بلکہ عملی طور پر سمجھائی جائے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024