برصغیر میں احیائے اسلام کا جو تصور لیکر حضرت مجد الف ثانی نے میدان عمل میں آکر جلال الدین اکبر اور جہانگیر کو للکارا وہ سلسلہ اورنگ زیب کی شکل میں پھلنے پھولنے لگا مگر اس کی وفات کے بعد اسلام پسند قوتیں انتشار کا شکار ہوتی چلی گئیں ۔ مغلیہ سلطنت ہزار سالہ حکومت کے بعد روبہ زوال ہوگئی ۔1857ء کی جنگ آزادی نے برصغیر میں مسلم قوتوں کو بری طرح کچل دیا اب مسلمان علم و ہنر اور تعلیم و تربیت سے دور ہوتے چلے گئے جس کے باعث سرکاری نوکریوں سے ہی نہیں بلکہ کاروباری زندگی کے ہر شعبہ میں شکست و ریخ کی حالت میں تھے ۔ ہندو قیادت نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزی زبان سیکھنے اور انگریز کی چاپلوسی کرکے مسلمانوں سے الگ انگریز سرکار کا ہمدرد وفادار ثابت کرنے کا کوئی موقع نہیں جانے دیا ۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو ہر شعبہ زندگی میں بری طرح ناکام کرنے میں سازشیں اپنے عروج پر تھیں ۔ حد تو یہ ہے کہ ہندو قیادت نے ایسی پر تشدد تحریکیں متعارف کرائیں جس کا مقصد مسلمان دوبارہ ہندو ہوجائیں ۔ان کو گائے کا پیشاپ اور گوبر کھانے پر مجبور کیا گیا ۔سنگٹھن اور شدی کی تحریکوں کے ذریعے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کو بری طرح نیست و نابود کرنے کا عمل انگریزکی سرپرستی میں جاری تھا ۔اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کیلئے مسلم قیادت نے سرسید کے ساتھ مل کر مزاحمتی تحریکوں کو ترک کرکے مفاہمتی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ۔مسلمانوں کو انگریزی زبان سیکھنے تعلیم حاصل کرنے اور مفاہمت کے راستے پر گامزن ہونے کا پرچار کیا جس کے نتیجہ میں چند عشروں میں پورے ہندوستان میں مسلم نوجوانوں کی پڑھی لکھی ایک کھیپ تیار ہوگئی جنہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں مسلم حقوق کی بات کرنے کا بیڑہ اٹھایا ۔1905ء میں تقسیم بنگال کے ذریعے مسلم بنگال علیحدہ کر لیا گیا انہی زعما نے 1906میں مسلم برصغیر کی اجتماعی ترجمانی کے طور پر سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا اعلان کیا ۔ ابتداء میں مسلم لیگ رئوسا پر مشتمل جماعت تھی مگر مسلم ہند کی آواز کا حق بنی رہی ۔ 1930ء الہ آباد اپنے سالانہ اجلاس مسلم لیگ میں مسلمانان ہند کیلئے علیحدہ خطہ زمین کی ضرورت کا اظہار کیا جو تاریخ میں خطبہ الٰہ آباد کے نام سے روشن و تاباں ہے ۔ یہ خطبہ مصور پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال کی بصیرت افروز فکر کا عکاس تھا ساتھ ہی حضرت اقبال نے اس عظیم مشن کیلئے سالار ملت کے طور پر قائداعظم محمد علی جناح کو علم آزادی کا مستحق قرار دیا ۔ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلامیان ہند کے اتحادو اتفاق کا مظاہرہ لاہور کے منٹو پارک میں 23مارچ 1940کو ایک عظیم الشان اورایمان افروز اجتماع کی صورت میں کیا۔ 23مارچ 1940ء اسلامیان ہندکی منزل مراد کی جانب سنگ میل اورچراغ راہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس قرار داد کو پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی حمایت حاصل تھی ماسوائے چند شوبوائے اور ابن الوقت ملائوں کے۔تمام قوم یک جان اور یک زبان تھی پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اس نعرہ مستانہ نے جہاں مسلمانوں کے دل بڑھاتا وہاں دشمنوں کے دل دھلادیتا ۔صرف سات سال کے قلیل عرصہ میں مسلم لیگ کو منزل مراد نصیب ہوگئی ۔ آزادی تو میسر آگئی مگر اس کے عمل میں بددیانتی کے تحت ہندو انگریز سازش کے ذریعے مسلم اکثریت پر مشتمل گرداس پور کے علاقہ جو کہ جموں کشمیر سے ملحق تھا اقلیت قرار دیکر بھارت میں شامل کر دیا جس کا مقصد بھارت کو کشمیر پر تسلط جمانے کا راستہ فراہم کرنا تھا ۔ فیروز اور امرتسر کے علاقے بھی مسلم اکثریت ہونے کے باوجود ہتھیا لیے گئے ۔ علاوہ ازیں حیدر آباد دکن ، مناوادر ، اور جونا گڑھ کی ریاستوں نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا جسے سامراجی عزائم کے ہندو انگریز نے کھل کر جارحیت کرتے ہوئے ہڑپ کر لیا ۔سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا ہر لمحہ پاکستان کو ختم کرنے کیلئے یہ قوتیں برسرپیکار رہتی ہیں ۔مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے نام سے اپنی فوجوں کو داخل کرکے مشرقی بازو کاٹ دیا۔ ہم پر ثقافتی یلغار ہے ۔ عجب حادثہ ہے ۔ ہم ہی دہشت گردی کا شکار ہیں ۔ ہم پر ہی اور ہم پر ہی دہشت گردی کا الزام ہے ۔ 23مارچ آج پھر ہمیں ایفائے عہد کی یاددہانی کراتا ہے ۔ ہمارے بزرگوں نے 23مارچ 1940ء کو خدا اور بندگان خدا سے جو وعدہ کیا تھا جس کے لئے کئی عشرے جدوجہد کی ہم اس سے روگردانی کے مرتکب ہوئے ۔ہم نے اپنے بزرگوں کے فیصلوں پر عمل کیا نہ ان کی طرز زندگی اپنائی۔ ہم ذاتی اور گرو ہی مفاد کو قومی اور ملی مفاد پر ترجیح کے مجرم ہیں ہم نے 71 سال بد عملی اورکج روی میں گزارے ۔ہمیں واپس آنا ہے ۔ اپنے بزرگوں کے بلند کردار اور اعلیٰ اوصاف کو اپنانا ہوگا ہم نے نظریہ پاکستان پر 23مارچ 1940کے جذبوں ولولوں پر کاربند ہونا ہے ۔23مارچ 2019ء انشاء اللہ ہماری قومی زندگی میں 23مارچ 1940کی طرح سنگ میل بن کر ابھرے گا ۔پاکستان اپنی منزل ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کا وہ ماڈل بن کر پیش ہوگا ّ۔ بقول بابائے قوم اس جدید اسلامی ماڈل سے پوری دنیا رہنمائی حاصل کرے گی ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024