پیر ‘ 17 ؍ رجب المرجب ‘ 1440ھ‘ 25؍ مارچ 2019ء
شیخ خاندان ایک بار پھر بھارت کی گود میں جا بیٹھا
ابھی چند روز قبل تک فاروق عبداللہ پسر شیخ عبداللہ بڑے کروفر کے ساتھ اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ وہ الیکشن میں تنہا پرواز کریں گے۔ ان کی قوت پرواز کو کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں۔ ہم دہلی سرکار کو دکھا دیں گے کشمیر ہمارا ہے۔ حالانکہ اس وقت وہ خود کشمیر میں اپوزیشن میں تھے۔ پی ڈی پی والے مفتی خاندان نے شیخ خاندان کو کشمیر کے تخت سے محروم کر دیا تھا۔ اب بھارت کے الیکشن مئی میں مکمل ہونے والے ہیں۔ پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس دونوں بھارت کی پروردہ جماعتیں ہیں۔ سچ کہیں تو یہ کشمیر میں بھارتی تخریب کاروں کے سہولت کار ہیں جو کشمیر میں رہ کر بھارتی مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں۔ اس کے صلے میں انہیں وققے وقفے سے حکمرانی کے چند ٹکڑے ڈال دئیے جاتے ہیں۔ اب فاروق عبداللہ کے پہلے بیان کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ گزشتہ روز وہ پورے خلوص کے ساتھ ایک بار پھر کانگریس (آئی) کی گود میں بیٹھ گئے اور بھارت سے رشتہ مضبوط بنانے کی جھک مارنے لگے پہلے وہ ایسے خیالات کو ہذیانی کہتے تھے اب خود اس میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ دیکھنا ہے پی ڈی والی محبوبہ مفتی اب کیا کرتی ہے وہ بی جے پی کے ساتھ دوبارہ تعلقات استوار کرتی ہیں یا علیحدہ کشمیری جماعتوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑتی ہیں۔ سارا کشمیر الیکشن کا بائیکاٹ کرتا ہے مگر یہ بے شرم بھارتی ایجنٹ جماعتیں 11 تا 18 فیصد ووٹ لے کر خود کو نجانے کس زعم میں کشمیریوں کی نمائندہ کہلاتی ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ بھارت کے زرخرید غلام ہوتے ہیں کشمیر کے نمائندہ نہیں…
٭٭٭٭
خورشید شاہ نے ایک ملاقاتی کی جیب سے پیسے نکال کر دوسرے کو تھما دئیے
اسے کہتے ہیں چالاکی اور سیاست۔ پلے سے ایک دھیلے بھی خرچ نہیں کیا اور ایک مالدار آسامی کی جیب بھری دیکھ کر اس میں سے کچھ رقم نکال کر دوسرے خالی جیب والے کی جیب میں ڈال دئیے۔ ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ اس کی جیب زیادہ بھاری تھی ۔ دینے والا بھی خوش کہ شاہ جی کی نظر عنایت اس کی جیب پر پڑی اب وہ مستقبل میں اس جیسی کئی جیبیں بھرے گا اور لینے والا بھی خوش کہ شاہ جی نے اس کی جیب گرم کر دی اب آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں ضعیف الاعتقادی عام ہے۔ شاہ کی طرف سے جو بھی ملے وہ تبرک سمجھا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے مرید اور غریب کمی کمین ان شاہوں کی بے نقط سن کر بھی خاموش رہتے ہیں اور اسے بھی باعث برکت سمجھتے ہیں۔ شاہ جی یعنی خورشید شاہ خود بھی ارب پتی ہیں وہ چاہیں تو ہر محفل میں موجود شرکا کو اپنی جیب خاص سے ہزاروں بانٹ سکتے ہیں۔ مگر کیا کریں عادت ہی ایسی ہو گئی ہے کہ وہ بھی صرف لینا جانتے ہیں دینا نہیں۔ چنانچہ ایک جیب سے مال نکال کر دوسرے کی جیب میں ڈالنے کا فلسفہ عوام کو تو سمجھ ہی نہیں آتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ بے چارے تو ہاتھ کی اس صفائی پر ہی مر مٹتے ہیں اور شاہ جی کو دعائیں دیتے ہیں۔ کون ان کے ساتھ ہاتھ کر رہا ہے وہ نہیں جانتے وہ تو اپنے منہ سے چھینا گیا نوالہ واپس اپنی پلیٹ میں آتا دیکھ کر ہی خوش ہو جاتے ہیں۔ یہی ان کی وہ کمزوری ہے جو سیاستدانوں کے ہاتھ لگ گئی ہے اور وہ آج تک اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور عوام کو ’’ماموں‘‘ بنا رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے ٹرین روک لی
ایسا لگ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے جیالوں سے متاثر ہو کر مسلم لیگ کے متوالوں نے بھی سیاست میں گرمی دکھانا شروع کر دی ہے۔ اسلام آباد میں آصف زرداری اور بلاول زرداری کی نیب عدالت میں پیشی کے موقع پر پیپلز پارٹی والوں نے جو رنگ جمایا اسے ہم احتجاجی سیاست کا ایک انداز کہہ سکتے ہیں۔ اس کو دیکھ کر مسلم لیگ (ن) والوں کو احساس ہوا ہو گا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں دونوں ہاتھوں سے خزانہ لوٹنے والے لاہور کے رہنما تو یہ بھی نہ کر سکے۔ خود کو ابن لاہور یا فخر لاہور کہلانے والے گدھے کے سر کے سینگوں کی طرح غائب ہیں۔ آج اس ابتلا کے دور میں ان کی شکلیں تک نظر نہیں آ رہیں۔ ہاں کل مسلم لیگ (ن) پھر برسراقتدار آتی ہے تو کاغذی پہلوان اپنی قیمتی گاڑیوں میں قبضہ شدہ زمینوں پر قائم ڈیروں میں پھر چہکتے نظر آنے لگیں گے آفرین ہے ان کارکنوں پر جنہوں نے بنا کسی رہنما کے جیل میں قید اپنے قائد سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی طرف سے ملاقات نہ کرنے کے اعلان کے باوجود جیل کے باہر تماشہ لگایا۔ صرف اس پر اکتفا نہ کیا جیل کے قریب سے گزرنے والی ٹرین بھی روک لی۔اس طرح اب مسلم لیگی کارکن کہہ سکتے ہیں کہ بلاول زرداری کی ٹرین یاترا سے قبل ہی انہوں نے ٹرین روک کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا اسلام آباد میں پیپلز پارٹی والوں پر مقدمات کی طرح لاہور میں بھی مسلم لیگی کارکنوں پر مقدمہ درج ہو گیا۔ کئی دودھ پینے والے مجنوں تو اب خود جا کر تھانوں میں منتیں ترلے کر رہے ہوں گے کہ ان کا نام بھی مقدمہ میں درج کیا جائے تاکہ وہ بھی انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہوں۔ …
٭٭٭٭٭
شام میں دہشت گرد تنظیم داعش کا مکمل خاتمہ کر دیا ہے: ٹرمپ
یہ امریکی صدر کی عادت ہے کہ کسی بھی بات کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ جیسے وہ کوئی بہت بڑا کام کیا ہو۔ افغانستان سے طالبان کے خاتمے کے پروگرام کو18 برس ہو گئے مگر امریکی کامیابی کے تمام تر اعلانات محض سراب ثابت ہوئے۔ اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ دنیا کے موجود امریکہ ترلے منتیں کر کے انہی طالبان سے امن مذاکرات کر رہا ہے جن کو مٹانے کے دعوے کرتے کئی امریکی صدور سابق ہو گئے مگر طالبان ہنوز افغانستان میں سب سے بڑی طاقت کے طور پر سامنے ہیں۔ اگر امریکہ کو رتی بھر بھی طالبان کے خلاف کامیابی ہوئی ہوتی تو آج وہ افغانستان میں ان کے ساتھ کبھی مذاکرات کی میز پر نہ بیٹھتا۔ شام کو افغانستان کی طرح کھنڈرات میں بدل کر اب اگر امریکہ داعش کے خاتمے کا اعلان کر رہا ہے تو اس پر خوشی نہیں ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ لاکھوں بے گناہ شامی مارے گئے ، سینکڑوں شہر و دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ داعش والے بھیس بدل کر شہریوں کی آڑ لے کر فرار ہو گئے تو ہاتھ کیا آیا۔ امریکہ کو تو اپنی ناکامی پر تلملانا چاہئے کہ ایک بھی جنگجو ہاتھ نہ آیا۔ وہ سب اپنے اسلحہ سمیت انخلا کے نام پر نکل گئے اب دیکھتے ہیں وہ کہاں جا کر ایک مرتبہ اپنے مخالفین کے لیے قدم قدم پرمشکلات کے پہاڑ کھڑے کرتے ہیں…کیونکہ صدر ٹرمپ کی کوئی بات قابل یقین نظر نہیں آتی۔ نجانے کب وہ کسی ا ور ملک کے خلاف داعش کا گڑھ ہونے کا الزام تھوپ کر نئی جنگ چھیڑ دیں…
٭٭٭٭٭