حضرت اُ م عمار ہ نسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہا کو اپنے شوہر اوردوبیٹوں کے ساتھ غزوہ اُحد میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی،اس جنگ میں انھوںنے ایسی جرأت ،شجاعت اورپامردی کا مظاہرہ کیا کہ انہیں تاریخ میں ’’خاتونِ اُحد‘‘ کے لقب سے یاد کیاگیا۔جنگ اُحد کے ابتدائی مرحلے میں مسلمانوں کا پلہ بھاری تھا ،اس دوران حضرت اُم عمارہ دوسری مسلمان خواتین کے ساتھ زخمیوں کی خبر گیری کرتی رہیں اور مشکیزوں میں پانی بھر بھر کر مسلمان مجاہدین کو پلاتی رہیں ۔ایک اتفاقی فیصلے سے جنگ کی صورت حال تبدیل ہوگئی ،مسلمان مجاہدین انتشار اور بے ترتیبی کا شکار ہوگئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گنتی کے چند افراد ہی رہ گئے ۔
حضرت اُم عمارہ نے یہ کیفیت ملاحظہ کی تو انھوںنے پانی کا مشکیزہ پرے پھینک دیا ،تلوار اور ڈھال سنبھال لی ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئیںاور کفار کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑی ہوگئیں۔ کفار کی بھر پور کوشش تھی کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وار کریں اور انھیں حتیٰ المقدور نقصان پہنچائیں ،یہاں تک کہ آپ شہید ہوجائیں۔وہ باربار یورش کرکے حضور کی طرف بڑھتے ،اُم عمارہ انہیں دوسرے مجاہدین کے ساتھ مل کر روکتیں اورپوری قوت سے پرے دھکیل دیتیں۔یہ بڑا کٹھن اورنازک وقت تھالیکن یہ بہادر اورشیر دل خاتون استقامت کا پہاڑ بن کر ایک سیلابِ بلا کے سامنے ڈٹی ہوئی تھی۔ایک مشرک نے ان کے سر پر پہنچ کر اپنی تلوار سے بھر پور وار کیا،اُم عمارہ نے اسے اپنی ڈھال پر روک لیا،اورپھر جواب میں اس کے گھوڑے کے پائوں پر تلوار کا ایسا اچٹتا ہواوار کیا کہ گھوڑا اوراس کا سوار دونوں زمین آرہے ، حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم یہ ماجرا دیکھ رہے تھے، آپ نے اُم عمارہ کے بیٹے عبداللہ کو پکار کر فرمایا:’’عبداللہ! اپنی ماں کی مدد کرو ‘‘وہ فوراً اس طرف لپکے اورتلوار کے ایک ہی وار سے اس مشرک کو واصل جہنم کردیا۔
عین اس وقت ایک دوسرا مشرک تیزی سے ادھر آیا اورحضرت عبداللہ کا بایاں بازوزخمی کرتے ہوئے نکل گیا۔ حضرت اُم عمارہ نے فوراًہی اپنے ہاتھ سے عبداللہ کا زخم باندھ دیااورفرمایا بیٹے !اٹھو اورجب تک دم میں دم ہے لڑتے رہو۔ حضور علیہ السلام نے ان کی جانثاری اورحمیت اسلام کو دیکھ کر فرمایا:’’من یطیق ماتطیقین یا اُم عمارہ۔اے اُم عمارہ ! جتنی طاقت تجھ میں ہے وہ اورکسی میں کہاں ہوگی؟‘‘اسی اثنا میں وہی مشرک جس نے حضرت عبداللہ کو مجروح کیا تھا ، پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہوا ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام عمارہ سے فرمایا:’’ام عمارہ ! ذرا سنبھلنا یہی وہی بد بخت ہے جس عبداللہ کو زخمی کیا ہے‘‘۔حضرت ام عمارہ جوش وغضب کا شاہکار بنی ہوئیں اس پر جھپٹیں اورتلوار کا ایسا بھر پور وار کیا کہ وہ دوٹکڑے ہوکر نیچے گر پڑا ۔حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر مسکرا اٹھے اورفرمایا :اے ام عمارہ!تم نے اپنے بیٹے کا خوب بدلہ لے لیا۔(رضی اللہ عنہم اجمعین )
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024