بہت دن ہوئے ہر دوسرے دن اسلام آباد ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے زیر انتظام کھیل کے میدانوں کے حوالے سے ہمارے ساتھی رپورٹر محسن علی کوئی نہ کوئی سٹوری ضرور کرتے ہیں۔ کبھی اس حوالے سے قومی کرکٹرز کے انٹرویوز دی نیشن کے سپورٹس پیجز پر شائع ہوتے ہیں تو کبھی مقامی کرکٹ منتظمین کا نقطہ نظر دی نیشن کے صفحات کی زینت بنتا ہے۔ محسن علی کئی برس رسجا کے صدر رہے ہیں۔ وہ ایسی سٹوریز کے لیے ہمیشہ متحرک رہتے ہیں جہاں کھلاڑیوں کی تربیت کا مسئلہ ہو، پلیئرز کو سہولیات کا مسئلہ ہو، اس مرتبہ وہ اسلام آباد ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے زیر انتظام کرکٹ گراؤنڈز کو سرکاری قبضے میں جانے سے رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ قومی ٹیم کے نمایاں کرکٹرز اس مہم میں "دی نیشن" کے ہمسفر ہیں۔ قومی کرکٹرز مستقبل کے کرکٹرز کی آواز بن رہے ہیں، وہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی توجہ اس اہم مسئلہ کی جانب دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔چند ہفتے قبل کراچی کنگز کے کپتان اور قومی ون ڈے،ٹونٹی ٹونٹی ٹیم کے اہم رکن آل راؤنڈر عماد وسیم نے "دی نیشن" کے ذریعے اپنی آواز وزیراعظم عمران خان تک پہنچانے کی کوشش کی۔ عماد وسیم نے اس حوالے سے ٹویٹ بھی کیا جسمیں انہوں نے اسلام آباد کے کرکٹ گراونڈز کو اثاثہ قرار دیتے ہوئے ایسوسی ایشن انتظامیہ کے کردار کو بھی سراہا اور کہا کہ مقامی کرکٹرز کے لیے بہترین سہولیات اچھا کرکٹر بننے میں بڑا ذریعہ ہیں، عماد نے لکھا کہ گراؤنڈ بچائیں وفاقی دارالحکومت میں کرکٹ بچائیں۔ کئی برس ہوئے عماد وسیم قومی ٹیم کی نمائندگی کر رہے ہیں لیکن اب بھی وہ قائد اعظم ٹرافی میں اسلام آباد ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنے ریجن کے ساتھ ایسے لگاؤ اور محبت کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ عماد وسیم کو بھی خطرہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت کے میدان سرکاری اداروں کے "بابو" کے قبضے میں گئے تو شہر میں کرکٹ کے لیے بہترین بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو جائے گا۔ انہی خطرات کے پیش نظر سہیل تنویر، عمر گل سمیت دیگر نمایاں کرکٹرز اپنے خدشات و تحفظات وزیراعظم تک پہنچا رہے ہیں۔ ان کھلاڑیوں میں نیا اضافہ قومی ٹیم کے بلے باز بابر اعظم ہیں۔ بابر اعظم کہتے ہیں کہ آج اگر وہ دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں تو یہاں تک پہنچنے کے لیے موقع اسلام آباد ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کی انتظامیہ نے دیا تھا۔ میں نے بہترین سہولیات سے فائدہ اٹھایا، ٹریننگ کی اور اس مشق کا فائدہ اب پاکستان ٹیم کو ہو رہا ہے۔ مجھے اپنے شہر لاہور نے کھلانے سے انکار کیا لیکن اسلام آباد نے مجھے موقع دیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اسلام آباد کے میئر ملکی کرکٹ کے وسیع تر مفاد میں شہر کے میدانوں پر لشکر کشی کے بجائے ایسوسی ایشن انتظامیہ کو نوجوان کرکٹرز کی خدمت کا موقع دیں۔ ایسوسی ایشن کا راستہ روکنے کا مطلب ٹیلنٹ کا راستہ روکنا ہے۔ عابد علی پاکستان ٹیم میں آئے ہیں کیا "بابو" جانتے ہیں کہ وہ کن میدانوں پر کھیل کر پروان چڑھے ہیں۔ دیگر کرکٹرز کی طرح میں بھی اسلام آباد ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کو آزادانہ کام کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ ساتھی کھلاڑیوں کی طرح میری بھی وزیراعظم پاکستان عمران خان سے اپیل ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل میں خصوصی و ذاتی دلچسپی لیں کیونکہ یہ کسی کی ذات نہیں پاکستان کرکٹ کا مسئلہ ہے۔
اسلام آباد کے میدانوں کا مسئلہ سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث رہا، اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں، ٹیلی ویژن چینلز پر بھی بحث ہوئی۔ بعض لوگوں نے اسے ذاتی مسئلہ بنایا، ذاتی مخالفت کو نبھانے کے لیے اداروں کا سہارا لینے کی کوشش کی۔ ماہرین یقینا جانتے ہیں کہ قومی کھیل ہاکی سمیت جن کھیلوں کے مستقبل کے فیصلے "بابو" کرتے رہے ہیں وہ تباہ ہو چکے ہیں۔ کیا ان کھیلوں کا حشر قوم کے سامنے نہیں ہے، آج ملک میں کھیلوں کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے یہ تباہی "بابو" کے طفیل ہوئی ہے۔ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنے والے مشقتیوں کے راستے میں دیوار بنا رہے ہیں۔ یہ کھلاڑی اور منتظمین مشقتی ہوتے ہیں جو موسموں کی سختیوں کی پرواہ کیے بغیر کام کرتے ہیں۔جب ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی تو کرکٹرز آواز بلند کریں گے۔ ان قومی کرکٹرز نے عملی طور پر اسلام آباد ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے ساتھ کام کیا ہے۔ یہاں سے اپنا کیرئیر بنایا ہے وہ درد رکھتے ہیں تو بول رہے ہیں۔ وہ درد محسوس کرتے ہیں تو آواز بلند کر رہے ہیں، کیا سرکاری مشینری کا کام مسائل حل کرنا ہے یا پھر مسائل پیدا کرنا ہے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے دو ہزار پندرہ یا سولہ میں قومی ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے چیئرمین پی سی بی شہریار خان کو خط لکھتے ہوئے ڈائمنڈ کرکٹ گراؤنڈ کو پاکستان کی بہترین کرکٹ گراونڈ قرار دیا تھا، اس گراؤنڈ کو اس قابل کس نے بنایا، کیا یہ کسی "بابو" کی محنت تھی؟؟؟
جو لوگ کرکٹ کو سمجھتے ہیں، جو لوگ کرکٹرز کی ضروریات کو سمجھتے ہیں، جو لوگ کھیل کے مسائل کو سمجھتے اور انہیں حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں انکو سپورٹ کرنا چاہیے یا رکاوٹیں کھڑی کرنی چاہییں۔ قومی کرکٹرز اور وفاقی دارالحکومت کے نو عمر و نوجوان کرکٹرز اپنے پسندیدہ اور بہترین گراؤنڈز کو ممکنہ تباہی سے بچانے کے اپنے وزیر اعظم کی طرف دیکھ رہے ہیں، وہ امید کر رہے ہیں کہ نئے پاکستان میں "بابو" راج نہیں کھیل دوست لوگوں کا راج ہو گا۔ وفاقی دارالحکومت کی کرکٹ ترقی کرے گی تو پاکستان کی کرکٹ ترقی کرے گی۔ عماد وسیم، بابر اعظم، عابد علی جیسے باصلاحیت کرکٹرز سامنے آئیں گے اور ملک کا نام روشن کریں گے اور دنیا کے میدانوں میں نعرہ لگائیں گے پاکستان زندہ باد!!!!!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024