یہ زندہ جملہ مریم نواز نے کہا ہے تو معروف ہوا ہے۔ جب دینی دانشور واصف علی واصف نے یہ جملہ کہا تھا تو بالکل معروف نہ ہوا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ مریم نواز نے اپنے طور پر یہ جملہ کہا ہے یا کہیں پڑھ لیا ہے۔ دونوں صورتوں میں ہم مریم نواز کو مبارکباد دیتے ہیں۔
یہ بھی امید ہے کہ مریم نواز نور اور روشنی کے فرق کو جانتی ہو گی۔ نور کوئی روحانی کیفیت ہے اور روشنی دنیا وی حقیقت ہے۔ نور کو زوال نہیں تو روشنی کو بھی زوال نہیں مگر دونوں میں فرق ہے اور اس فرق کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ کبھی مریم سے ملاقات ہوئی تو پوچھوں گا۔
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم ماں کے جیسی حکمران جیسنڈا آرڈن کو ایک نوجوان نے کہا کہ میری دعا ہے کہ آپ مسلمان ہو جائیں۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ وہ آج کے مسلمان کی طرح نہیں ہیں تو انہوں نے کارنامے جیسا کام کیا ہے۔ مسلمانوں کے لیے ان کی مہربانی اور عملی حمایت کے لیے دنیا بھر کے مسلمان ان کے شکر گزار ہیں۔ مسلمان انسان بھی ہوتا ہے۔ نیوزی لینڈ کی مہربان اور عظیم وزیراعظم نے اپنے ملک کے شہریوں اور انسانوں سے مہربانی کا اظہار کیا ہے۔
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے جو کچھ کیا ہے وہ مسلمان نہ ہونے کی حیثیت سے کیا ہے۔ یہ ایک اچھا اور خیر کا کام ہے۔ کئی عظیم فلاحی شخصیات تھیں جنہوں نے مسلمان نہ ہونے کے باوجود انسانیت کی خدمت کے لیے بہت بڑے بڑے اور اچھے اچھے کام کئے۔
ہم نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنے شہری مسلمانوں کی حمایت کر کے پوری مسلمان قوم کے دل جیت لیے ہیں۔ عالمی اور بین الاقوامی طور پر بھی لوگوں کے دل میں محبت کے جذبے جگا دئیے ہیں۔
برادرم جاوید صدیق نے بہت خوبصورت اور جامع کالم لکھا ہے۔ پورے پاکستان اور پوری دنیا میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے لیے محبت اور شکر گزاری کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اُن کا نام نوبل امن انعام کے لیے تجویز کیا جا رہا ہے۔ ان سے زیادہ اس ایوارڈز کا مستحق کون ہے؟ یہ تو اس اعزاز کے لیے اعزاز ہو گا۔ جیسنڈا آرڈرن نے ا پنے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ حکمران ماں کے جیسا ہوتا ہے۔ ہمدردی درد مندی محبت اور قربانی کے امتزاج سے ماحول کا مزاج بنایا اور عمل کر دکھایا۔ دلوں میں محبت کے دریا بہا دئیے۔ اتنی سادہ اور آسودہ مزاج کی حکمرانی ہم سب نے دیکھی۔ سارے حکمرانوں کو ان کے جیسا ہونا چاہئے۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو شکریئے کا پیغام دیا ہے۔ ہمیں عمران خان سے بھی امید ہے کہ وہ اپنے عمل سے لوگوں کیلئے محبت اور قربانی کے جذبات کا مظاہرہ کریںگے۔ اب ان سے امید بھی ہے کہ بشریٰ بی بی خاتون اول بن کر ان کی ہمسفر بھی ہیں اور رہنما بھی ہیں۔
ان کی رفاقت میں ایک مثبت تبدیلی عمران خان کے مزاج میں دکھائی دیتی ہے۔ تبدیلی اصل میں یہی ہے۔ اس کا فائدہ عام لوگوں کو بھی ہو گا۔ اب عمران خان ایک تبدیل شدہ آدمی ہے۔ اس نے جب پاکپتن میں بابا فرید کے مزار کی سیڑھیوں میں جھک کر سلام کیا تھا‘ تو میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی مجھے یاد آ گئے؎
جیڑیاں تھانواں صوفیاں جا کے لئیاں مل
اوہ اوہناں دے درد دی تاب نہ سکیاں جھل
اکو کوک فرید دی سنجے کر گئی تھل
برادرم حفیظ اللہ خان نیازی کے والد محترم میانوالی کی ایک بڑی شخصیت تھے۔ میرے ساتھ ان کی بہت محبت تھی۔ میرے ساتھ محبت تو عمران خان کے والد کی بھی تھی۔ ظفر اللہ خان اور اکرام اللہ خان آپس میں بھائی تھے۔ حفیظ اللہ خان عمران خان کے بہنوئی ہیں مگر وہ ان کے بیٹے حسان خان نیازی کے ولیمے میں نہ پہنچے۔ عمران خان رشتوں کے معاملے میں بھی بہت بے نیاز آدمی ہیں۔ اب ان کی تربیت بشریٰ بی بی کو کرنا چاہئے۔
لگتا ہے میانوالی سے بھی ان کا رشتہ کمزور ہو رہا ہے۔ عمران نے جو نمل یونیورسٹی موسیٰ خیل کی پہاڑیوں میں بنانا شروع کی ہے‘ وہ میرے گائوں موسیٰ خیل سے دو ایک میل دور ہے۔ اب موسیٰ خیل کی ترقی کیلئے بھی عمران کو کوشش کرنا ہو گی مگر ایسی امید اس کے ساتھ نہیں ہے۔ پھر بھی ہم اسے بتاتے رہیں گے کہ اسے کیا کیا کرنا چاہئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024