یوم پاکستان کی پریڈ میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے فرمایا کہ ہماری جنگ جہالت کے خلاف ہے۔یہ حسن اتفاق ہے کہ تعلیم کے موضوع پر میں مسلسل دوسرا کالم لکھ رہا ہوں۔ اور تیسرے کے لئے ریسرچ مکمل کر چکا ہوں۔میںنے گزشتہ کالم میں یونی گائیڈ کے سی ای او تنویر نذیر کے حوالے سے تعلیم کی زبوں حالی کا ذکر کیا تھا۔ یہ تصویر کاایک رخ تھا۔ اب دوسرا رخ پیش خدمت ہے۔کوئی ایک عشرہ قبل لاہور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے خبریں سنی تھیں۔ یہ یونیورسٹی غالباً جی او آر کے علاقے میں بننا تھی لیکن وہاں وزیراعلیٰ کے دفتر کی موجودگی اور بیوروکریٹس کی رہائش گاہوں کی وجہ سے شاید اسے سکیورٹی کلیئرنس نہیں مل سکی۔ فیروزپور روڈ پر انتہائی بلند و بالا‘ وجیہ اور سترہ منزلہ جدید عمارت ارفع سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک پر نگاہ پڑی تو وزیراعلیٰ شہباز شریف نے یونیورسٹی کے قیام کے لئے اس عمارت کو منتخب کیا۔ ڈاکٹر عمر سیف اس کے بانی وائس چانسلر بنے۔ ان چھ برسوں کے دوران یہ یونیورسٹی بے انتہا کامیابیاں سمیٹتی دکھائی دی۔ملک میں سینکڑوں سرکاری و نجی یونیورسٹیاں موجود ہیں لیکن نوے فیصد یونیورسٹیوں میں زیادہ تر رجحان تحقیق کی بجائے صرف تدریس کی جانب ہے۔ عالمی سطح کے تحقیقی مقالے لکھنے کی بجائے طلبا ڈگری حاصل کرنے کے لئے شارٹ کٹ استعمال کرتے ہیں۔ اسی لئے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کو بھی یہ کہنا پڑا کہ ہماری یونیورسٹیاں سالانہ لاکھوں بے روزگار گریجوایٹس پیدا کر رہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اگر دیگر یونیورسٹیاں بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کی تقلید کریں اور تحقیق کو اہمیت دیں تو ان کا معیار بھی بہتر ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر نیاز احمد اختر پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ آئی ٹی یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر بھی ہیں۔ستارہ امتیاز کے حامل ڈاکٹر نیاز چار سال کے لئے پنجاب یونیورسٹی کے 48ویں وائس چانسلر مقرر ہوئے تھے۔ وہ برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی سے کیمیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ڈاکٹر نیاز احمد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا کے وائس چانسلر کے علاوہ نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد کے ریکٹر کے عہدے پر بھی کام کر چکے ہیں۔ ان کی پیشہ وارانہ زندگی اور شاندار تعلیمی قابلیت کی بدولت گورنر سرور نے انہیں آئی ٹی یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر کے عہدے کے لئے منتخب کیا ۔ میرا گورنر سرور سے تیس سال سے یارانہ ہے جب وہ گلاسگو سے پہلے مسلمان ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ وہ دوبارہ گورنر پنجاب بنے ہیں اور پنجاب کی سرکاری یونیورسٹیوں کے چانسلر کے طور پر وہ پنجاب میں تعلیم کے معیار پر کڑی نظر رکھ سکتے ہیں۔یقینا وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت سے بھی خوب واقف ہوں گے۔ گوگل‘ فیس بک‘ ایپل جیسی کمپنیاں جنہوں نے دنیا کی معیشت کا نہ صرف رخ موڑ دیا ہے بلکہ ان کا بجٹ بھی کئی ملکوں کے سالانہ کل بجٹ سے بھی زیادہ ہے اس کے ماہرین بھی وہاں کی جدید یونیورسٹیوں سے ہی فارغ التحصیل ہیں۔ آئی ٹی یونیورسٹی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی‘انجینئرنگ اور سائنس کے شعبوں میں بیچلر‘ ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ یہاں کی فیکلٹی میں تمام پروفیسرز فارن پی ایچ ڈی کوالیفائڈ ہیں’ طلبا دوران تعلیم مختلف مسائل کے حل کیلئے ٹیکنالوجی پر مبنی منصوبے پیش کرتے ہیں’آئی ٹی یونیورسٹی کے طلبا کی بڑی تعداد ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری اور تحقیق کے لئے سکالر شپ پر ایم آئی ٹی’ ہارورڈ سمیت دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم ہے ۔ یہ پاکستان کی پہلی سرکاری یونیورسٹی ہے جہاں پہلی مرتبہ سٹارٹ اپ انکوبیٹرز قائم کئے گئے جہاں گریجوایشن مکمل کرنے کے بعد طالب علموں کو عملی طور پر اپنی تخلیق سامنے لانے میں مدد ملتی ہے ۔ یہاں کے ریسرچ سنٹر اور لیب میں طلبا کسی مسئلے کے حل کے لئے گروپ کی شکل میں ٹیکنالوجی پر مبنی منصوبہ چھ ماہ کے عرصہ میں مکمل کرتے ہیںاور انہیں آفس سپیس’ انٹرنیٹ’ لیپ ٹاپ’ انجینئرنگ ٹولز اور ماہرین کی خدمات مفت مہیا کی جاتی ہیں۔ دنیا کی جتنی بھی بڑی ایجادات ہو رہی ہیں وہ عالمی یونیورسٹیوں کے سٹارٹ اپس میں طالب علم ہی کر رہے ہیں۔آئی ٹی یونیورسٹی کے طالب علم بھی واسا’ صحت ’ الیکٹریکل اور دیگر اداروں اور شعبوں کیلئے کم لاگت کے کئی جدید منصوبے بنا کر دے چکے ہیں جو کامیابی سے چل رہے ہیں۔ ایم آئی ٹی’ ہارورڈ اور سٹینفرڈکو قائم ہوئے ڈیڑھ سو برس بیت چکے ہیں جبکہ چھ برس کی قلیل مدت میں ایک سو ساٹھ کمپنیوں کا تخلیق پانا آئی ٹی یونیورسٹی اور پاکستان کیلئے ایک منفرد اعزاز ہے ۔ یہاں میرٹ اور ضرورت کی بنیاد پر سکالر شپ دئیے جاتے ہیں اور اگر طالب علم ایک مقررہ حد تک سمسٹر میں نمبر برقرار رکھتا ہے تو وہ تمام تعلیم مفت حاصل کرتا ہے۔کسی بھی تعلیمی ادارے کے معیار کا ایک اندازہ اس میں داخلوں کی درخواستوں کی تعداد اور قبولیت کی شرح سے لگایا جا سکتا ہے ۔ گزشتہ برس یہاں چھبیس ہزار طلبا نے چار سو سیٹوں کیلئے اپلائی کیا’ جبکہ داخلہ حاصل کرنیوالوں کی شرح دو اعشاریہ دو فیصد رہی۔ اسی طرح کسی یونیورسٹی کی ساکھ کا اندازہ اس کے فارغ التحصیل طلبا سے بھی لگایا جا سکتا ہے ۔آئی ٹی یونیورسٹی کے اب تک کل دو بیچ پاس آئوٹ ہو چکے ہیں۔گزشتہ برس 139 طلبہ کا پہلا بیچ پاس آئوٹ ہوا’ اس میں سے 24 نے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا’ 61ملکی و غیر ملکی آئی ٹی کمپنیوں سے منسلک ہو چکے ’ 30 ہونہار طلبا کو آئی ٹی یونیورسٹی نے ہی بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ بھرتی کر لیااور17 نے اپنی ذاتی آئی ٹی کمپنیاں بنا لیں ۔ بیرون ملک یونیورسٹیاں دراصل ایجادات کا گڑھ بن چکی ہیں۔ وہاں کی حکومتیں اور اشرافیہ یونیورسٹیوں کے تحقیقی شعبوں کو بڑے پیمانے پر امداد دیتے ہیںجس کی وجہ سے پیچیدہ بیماریوں کا علاج تک انہی یونیورسٹیوں میں دریافت ہو رہا ہے۔ نت نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی زندگی کو درپیش مسائل کا حل بھی وہیں ڈھونڈا جا رہا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ کے ذریعے ہزاروں انسانوں کا کام ایک مشین یا روبوٹ سے کرانے کے طریقے دریافت ہو رہے ہیں۔ آئی ٹی یونیورسٹی بھی انہی خطوط پر کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ گزشتہ برس آئی ٹی یونیورسٹی نے جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے پانی سے متعلقہ پراجیکٹس کے سمارٹ سلوشنز تیار کرنے کی غرض سے واسا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت سڑکوں پر کھڑے بارش کے پانی کی سطح سے متعلق لمحہ بہ لمحہ معلومات واسا کو ایک سافٹ ویئر میں بھیجی جاتی ہیں جن کی مدد سے واسا شکایات کا فوری تدارک کرتا ہے۔ یہی ٹیکنالوجی اگر باہر سے درآمد کی جاتی تو اس پر اسی کروڑ سے ایک ارب دس کروڑ تک لاگت آتی ۔ جبکہ آئی ٹی یو کی بنائی گئی ایک ’’کون‘‘ڈیوائس صرف 75ہزار سے ایک لاکھ روپے میں تیار کی جا رہی ہے۔ آئی ٹی یونیورسٹی اپنے پروگرام میکستان کے تحت پنجاب آئی ٹی بورڈ کے ساتھ مل کر یوحنا آباد میں غریب بچوں اور سنجن نگر پبلک ٹرسٹ فنڈز سکول کے طلبا کیلئے تعلیمی کیمپ کا اہتمام بھی کرتی ہے جس کا مقصد پسماندہ طبقے کے طلبا میں عملی تجربے سے سیکھنے اور تخلیقی انداز میں مسائل حل کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ یہ انتہائی شاندار اقدام ہے کیونکہ عموماً ایسی یونیورسٹیوں میں غریب کے بچے تو دور کی بات ان کے ماں باپ بھی قدم نہیں رکھ سکتے تھے لیکن یہاں پر غریب بچوں کو بھی روبوٹکس‘ پروگرامنگ‘ سکیچنگ اور ڈیزائن تھنکنگ سے آگاہ کیا جاتا ہے جس سے وہ ٹیکنالوجی کی بنیادوں کو سمجھتے ہوئے مختلف اشیا بنانے کے قابل ہوتے ہیں۔ اسی طرح آئی ٹی یونیورسٹی جعلی موبائل ایس ایم ایس کی نشاندہی‘ روک تھام اور کم خواندہ لوگوں کو ایسے پیغامات کی پہچان اور دھوکہ دہی سے بچانے کیلئے اہم تحقیقی اور سائنسی منصوبے پر کام کر رہی ہے ۔ یہ یونیورسٹی طلبا کو صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کا سبق نہیں پڑھاتی بلکہ انہیں یہاں ملکی اور بین الاقوامی معاملات اور تاریخ اور ثقافت سے بھی آگاہ رکھا جاتا ہے۔ اس سال جنوری میں انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے شعبہ گورننس اینڈ پالیسی کے زیراہتمام افکار تازہ دوروزہ تھنک فیسٹ کی تیسری عالمی کانفرنس الحمرا ہال لاہور میں ہوئی جس میں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے سکالرز’ محقق اور دانشورشریک ہوئے۔کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں حکومتی اور اپوزیشن نمائندوں کو ایک پلیٹ فارم پر بیٹھنے اور اپنے خیالات کے تبادلے کا موقع ملا۔ پیرس سے ڈاکٹر کرسٹوف جیفرلٹ’ برطانیہ سے دیبیش آنند’آسٹریلیا سے ڈاکٹر کما میکلن’ سویڈن سے ڈاکٹر اشتیاق احمد اور برطانیہ سے ڈاکٹر کرس موفٹ نے اہم عالمی ’ علاقائی اور تاریخی امور پر بحث کی جن سے طلبہ کو نصاب سے ہٹ کر دیگر علوم اور اہم معاملات سے آگاہی حاصل ہوئی۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کا میدان پاکستان سمیت پوری دنیا کے لئے کھلا ہے۔ بل گیٹس نے درست کہا تھا کہ اس زمانے میں کوئی شخص غریب پیدا ہوتا ہے تو یہ اس کا قصور نہیں ہے لیکن اگر وہ غریب مر جاتا ہے تو یہ اس کی ناکامی ہے۔ خدا کرے پاکستان کا بھی غربت سے امارت کی جانب سفر جلد شروع ہو اور اس کے طلبا اور فیکلٹی اس مقصد کی بارآوری کے لئے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024