دشمن کے عزائم کا ادراک کریں اور اسے اپنی کسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ دیں
صدر مملکت کا بھارت کو دوٹوک پیغام اور شہبازشریف کی سیاستدانوں‘ ججوں‘ جرنیلوں سے یکجہت ہونے کی اپیل
صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ ہماری امن اور دوستی کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے‘ بھارت پرامن طریقے سے مسئلہ کشمیر حل کرے۔ طاقت کے زور سے کسی مخصوص ملک کو جھکایا نہیں جا سکتا اور نہ دنیا اب کسی ایک سیاسی طاقت کے تابع ہے۔ گزشتہ روز یوم پاکستان کے موقع پر اسلام آباد میں مسلح افواج کی پریڈ کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ تخریبی حربوں کے ذریعے ہمارے ہمسائے نے علاقائی امن کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت استصواب رائے کے ذریعے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی دنیا میں مستقل امن اور عدم مداخلت کے اصولوں پر مبنی ہے۔ پاک فوج نے اقوام متحدہ کی چھتری تلے قیام امن کیلئے تاریخی کردار ادا کیا ہے جبکہ پاکستان نے افغانستان میں بھی امن و استحکام کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم خطے میں امن و ترقی کے مخالفین کو خیرسگالی کا پیغام دینا ضروری سمجھتے ہیں لیکن اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہماری امن اور دوستی کی خواہش کو ہماری کمزوری سے تعبیر کرنا خطرناک غلطی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کسی قوم یا ملک پر اسکی مرضی کیخلاف بالادستی قائم کرنے کی ضد عالمی امن تباہ کر سکتی ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ ہمارا ہمسایہ بھارت اپنی فوجی قوت میں مسلسل اضافہ کررہا ہے۔ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باﺅنڈری پر جارحیت کے ذریعے بے گناہ شہریوں کی جان و مال کا نقصان کیا جارہا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری خالصتاً مقامی تحریک آزادی پر ظلم کے پہاڑ توڑنا بند کرے کیونکہ آزادی کی تحریکوں کو بزور دبایا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پریڈ کے شاندار انعقاد پر اسکے کمانڈرز‘ شرکائ‘ مقامی انتظامیہ اور ضلعی حکومت کو شاباش دیتے ہیں اور اپنے بہادر جوانوں اور افسروں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ ملک و ملت کی حفاظت و سلامتی کیلئے بہادری‘ نیک نیتی اور ایمانداری کے ساتھ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرتے رہیں۔ اس مقدس فریضہ کی ادائیگی میں وہ ہر ہم وطن کو اپنے شانہ بشانہ پائیں گے۔
ہمارا روایتی مکار دشمن بھارت جس دیدہ دلیری کے ساتھ ہماری سلامتی کیخلاف اپنے جارحانہ عزائم اور منصوبوں کا اظہار و اعلان کرتا رہتا ہے اور بالخصوص ہندو انتہاءپسند مودی سرکار کے دور میں پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کھلم کھلا سازشیں کی جارہی ہیں‘ اسکے تناظر میں ہمیں اپنی مسلح افواج کے مضبوط دفاعی حصار کا عملی مظاہرہ کرکے دشمن کو ٹھوس پیغام دینا ہے تاکہ اسے ہماری کسی بھی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اس ارضِ وطن پر کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب کرنے کی جرا¿ت نہ ہوسکے۔ اس حوالے سے یوم پاکستان ہی وہ واحد دن ہے جب ہم مسلح افواج کی پریڈ کے موقع پر اپنے دفاعی حصار میں موجود جدید اسلحہ‘ ایٹمی ہتھیاروں بشمول میزائلوں‘ ٹینکوں‘ جنگی جہازوں اور دوسرے جنگی ہتھیاروں کی نمائش کرکے مکار دشمن کو مسکت پیغام دے سکتے ہیں کہ وہ ہمارے سامنے آنے کی جرا¿ت نہ کرے ورنہ وہ اپنے زخم چاٹتا رہ جائیگا۔
یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے کمانڈو جرنیل مشرف کی جرنیلی آمریت کے دور میں دہشت گردی کے خطرے کا بہانہ بنا کر مسلسل پانچ سال تک یوم پاکستان کے موقع پر فوجی پریڈ اور مسلح افواج کے پاس موجود اسلحہ کی نمائش معطل رکھی گئی جس سے ملک کی مسلح افواج ہی نہیں‘ ملک کی کمزوری کا بھی دشمن کو پیغام ملتا رہا چنانچہ ہماری سلامتی کیخلاف اسکے حوصلے مزید بلند ہوئے اور اسکی ایجنسی ”را“ نے بلوچستان میں اپنا نیٹ ورک پھیلا کر اسکے ذریعے پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی وارداتوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس کا مقصد خوف و ہراس کی فضا پیدا کرکے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا ہی تھا جس کا اسے ہمارے فوجی دور حکومت میں موقع ملنا ہمارے لئے کسی المیے سے کم نہیں۔ پھر پیپلزپارٹی نے بھی اپنے دور حکومت میں 23 مارچ کو فوجی پریڈ اور اسلحہ کی نمائش معطل رکھنے کی جرنیلی آمریت کی ڈالی گئی بری روایت برقرار رکھی جبکہ میاں نوازشریف کی حکومت کے دو سال بھی اسی بری روایت کو تھامے ہوئے گزر گئے۔ اب گزشتہ تین سال سے ہر 23 مارچ کو پہلے جیسے جوش و جذبے کے ساتھ یوم پاکستان مناتے ہوئے اسلام آباد کی پریڈ گراﺅنڈ میں مسلح افواج کی پریڈ اور انکے پاس ملک کے دفاع کیلئے موجود ہر قسم کے ہتھیاروں کی نمائش کی جارہی ہے جس سے قوم کے جذبے بھی بلند ہوتے ہیں‘ دفاع وطن کیلئے قومی یکجہتی کی فضا بھی مستحکم ہوتی ہے اور پاکستان کی سلامتی پر بری نظریں رکھنے والے اسکے دشمنوں کو بھی ٹھوس پیغام مل جاتا ہے کہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے اس لئے جو اس سے ٹکرائے گا وہ پاش پاش ہو جائیگا۔
گزشتہ روز پریڈ گراﺅنڈ اسلام آباد میں یوم پاکستان کے حوالے سے ملک کی مسلح افواج کا اجتماع اور اسکے جدید ایٹمی ہتھیاروں کی نمائش کے ساتھ ساتھ جنگی جہازوں کی مشاقی کے مظاہرے یقیناً دشمن کو وطن عزیز کے دفاعی حصار کے مضبوط ہونے کا مسکت پیغام دینے کا ذریعہ بنے ہیں جبکہ صدر مملکت ممنون حسین نے بھی اپنے خطاب میں بالخصوص بھارت کو دوٹوک الفاظ میں پاکستان کے دفاعی حصار مضبوط ہونے کا پیغام دیا اور ساتھ ہی اسے یہ بھی باور کرایا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کو استصواب کا حق دے کر مسئلہ کشمیر حل کرے اور کشمیریوں پر ظلم و جبر کا سلسلہ روک دے۔ اسی طرح وہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر بھی جارحیت کے ارتکاب سے باز آجائے اور علاقائی امن و سلامتی کو تہہ و بالا کرنے کی سازشیں ترک کردے‘ بصورت دیگر ملک کی مسلح افواج دفاع وطن کیلئے اپنی پیشہ ورانہ آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے ہمہ وقت چوکس ہیں۔
اس دوٹوک پیغام کے بعد بھارت کو یقیناً پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی جنونیت اور ہذیانی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے سو بار سوچنا پڑیگا۔ بھارتی صدر رام ناتھ نے غالباً اسی تناظر میں گزشتہ روز پاکستان کو پیغام دیا ہے کہ ہم اسکے سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے خواہاں ہیں۔ تعلقات کی بہتری کا دارومدار مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل پر ہی ہے جس سے بھارت گزشتہ سات دہائیوں سے منحرف ہورہا ہے اور اس مسئلہ کے دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کی راہ پر آنے سے ہمیشہ گریز کرتا ہے۔ اسکے برعکس اسکے توسیع پسندانہ عزائم پاکستان سے منسلک آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات تک پھیلے ہوئے ہیں جن کے بارے میں بھارتی وزیراعظم مودی اور وزیر خارجہ سشماسوراج کے علاوہ بھارتی آرمی چیف بپن راوت بھی متعدد مواقع پر بڑ مار چکے ہیں اس لئے ہم اپنی دفاعی تیاریوں اور صلاحیتوں میں ہلکی سی غفلت یا کوتاہی کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ بھارت کی پیدا کردہ یہی وہ صورتحال ہے جو ملک کی تمام سول‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کے دفاع وطن کیلئے یکسو ہونے اور قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کی متقاضی ہے۔ ہمیں امن کی کوششیں یقیناً ترک نہیں کرنی چاہئیں اور اس حوالے سے کوئی کمزور پہلو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ گزشتہ روز پاکستان کے ہائی کمشنر سہیل محمود نے نئی دہلی میں یوم پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ پاکستان بھارت سے اچھے تعلقات چاہتا ہے اور کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور باہمی مذاکرات کے ذریعے حل ہونے چاہئیں۔ اسکے باوجود ہمیں ملک کی سلامتی کے تحفظ کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا ہے کیونکہ مکار دشمن سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ وہ منہ کی کھا کر ہی ہماری سلامتی کیخلاف سازشوں سے باز آئیگا۔ اس کیلئے ملک میں بہرصورت اتحاد و یکجہتی کی مثالی فضا پیدا کیا جانا ضروری ہے۔
بدقسمتی سے ملک میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری سیاسی عدم استحکام اور اداروں میں طاقت و اختیار کی رسہ کشی سے اتحاد و یکجہتی کی ایسی مثالی صورتحال استوار نہیں ہوسکی جس کی ہمیں دشمن کے عزائم کی بنیاد پر دفاع وطن کیلئے ضرورت ہے۔ سیاسی عدم استحکام سے یقیناً ہماری اندرونی کمزوریوں کا تاثر ابھرتا ہے جس سے لامحالہ ہمارے دشمن کو تقویت ملتی ہے اس لئے آج باہم زور آزمائی میں مصروف ہماری محترم سیاسی‘ عسکری اور عدالتی شخصیات کو اپنی انائیں ترک کرکے ملک کی سلامتی کے تقاضے نبھانے کیلئے فکرمند ہونا ہوگا۔ حکمران مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے اسی حوالے سے یوم پاکستان کے موقع پر گزشتہ روز لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے پنجاب تیانجن یونیورسٹی کے افتتاح کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیاست دانوں‘ جرنیلوں اور ججوں سے دردمندانہ اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان کے مستقبل کیلئے سوچیں اور مل کر نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں۔ انکے بقول اداروں میں مفاہمت نہ ہونا ملک کی سلامتی کے تقاضوں کے منافی ہوگا اور محاذآرائی سے نقصان ہوگا جبکہ اس وقت اتحاد کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت ملک جن اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہے اور ہمارا دشمن جس جنونی انداز میں ہماری سلامتی کو چیلنج کررہا ہے‘ ملک کی سلامتی کے تقاضے نبھانا ہماری سیاست کا بھی مطمح¿ نظر ہونا چاہیے اور عساکر پاکستان کو بھی دفاع وطن کیلئے خود کو پیشہ ورانہ آئینی ذمہ داریوں تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔ اس سے ہی قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کا تاثر مضبوط ہوگا۔ ہمارے لئے ملک کی سلامتی بہرصورت ہر معاملے پر مقدم ہونی چاہیے کیونکہ ہماری سیاستیں اور نعمتیں اس ارض وطن کے ساتھ ہی وابستہ ہیں۔