بنام شیخ رشید
نواز شریف کو پورے خاندان سمیت نابود کرنے کا دعویٰ کرنے والے شیخ رشید اس بات خوش ہوئے کہ نوازشریف نے میڈیا کے سامنے ان کا نام لیا ۔ ا س سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ رشید کچھ بھی بڑھکیں ماریں وہ اندر سے اپنی اور نوازشریف کی حیثیت سے بخوبی واقف ہیں ۔ نوازشریف نیب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید پر شکیل اعوان کی طرف سے قائم اثاثے چھپانے کے مقدمہ کا ذکر کررہے تھے۔ شیخ رشید پر الزام ہیں کہ انہوں نے اسلام آباد کے نئے ایئر پورٹ کے قریب اپنی ایک ہزار کنال سے زائدرہائشی زمین میں سے تقریباً 100 کنال اپنے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کی ،انہوںنے زرعی انکم کے متعلق دو بیان حلفی جمع کروائے ہیں ایک میں لکھا ہے وہ زرعی انکم ٹیکس دیتے ہیں جبکہ دوسرے میں لکھا ہے وہ زرعی انکم ٹیکس نہیں دیتے ۔ انہوں نے مکان کی قیمت بھی تقریباً3 کروڑ کم ڈکلیئر کی ہے انہوں نے اپنی آمدنی میں بینک سے حاصل شدہ منافع بتایا ہے لیکن منافع کی رقم اکائونٹ میں موجود رقم کے مطابق نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے۔ شیخ رشید کے وکیل نے عدالت کے سامنے اس بات کا اقرار کیا کہ ان سے کاغذات نامزدگی میں غلطی ہوئی ہے۔ شکیل اعوان کے وکیل نے پاناما کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں یہ اصول طے کرلیا گیا ہے کہ غلطی ہونے پر نااہلی ہوگی۔ اس پر جسٹس عظمت رشید نے کہا کہ ایسا کوئی اصول طے نہیں ہوا کہ کسی بھی غلطی پر نااہلی ہوجائے گی۔نیت بھی دیکھنا ہوتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ پاناما کیس لندن فلیٹ کے بارے میں تھا اور فیصلہ اقامہ پر آگیا ۔ الیکشن لڑنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ نامزدگی کا فارم بھرنا بھی مشکل ہے۔ جسٹس قاضی عیسیٰ نے ریمارکس پر نواز شریف نے کہا ہے کہ اب تو پانامہ کیس کے اندر سے بھی آوازیں آرہی ہیںیعنی فیصلہ انتہائی متنازعہ تھا۔ دوسری طرف یہ تجزیہ بھی کیا جاسکتا ہے انہوں نے یہ ریمارکس اس لئے دئیے ہیں کہ وہ اتنی سختی کو درست نہیں سمجھتے اور شاید شیخ رشید پر اتنی سختی نہ کریں۔ لیکن انہوں نے یہ ریمارکس بھی دئیے ہیں کہ اگر غلطی ثابت ہوگئی تو نتیجہ پاناما جیسا ہی ہوگا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ رشید صاحب پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ عدالت اس نتیجہ پر پہنچے کہ غلطی تو ہوئی ہے لیکن چاروں غلطیاں کرتے وقت شیخ صاحب کی کوئی بدنیتی نہ تھی۔ ایسا فیصلہ آیاتو یقینا اعتراضات اٹھیں گے ۔ کہا جائے گا یہ نہیں دیکھا گیا غلطی کرتے وقت نیت کیا تھی بلکہ یہ دیکھا جارہا ہے کہ غلطی کس سے ہوئی ہے۔
سپریم کورٹ کے جج صاحبان یقینا قانون کا مکمل ادراک رکھتے ہیں اور یقینا سب سے بڑے قانونی دماغ ہیں اسکے ساتھ ساتھ انہوں آئین اورقانون کے مطابق انصاف مہیا کرنے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ فیصلے آئین اور قانون کے مطابق ہی ہوتے ہونگے ۔ لیکن میری یہ خواہش ہے کہ فیصلے اس طرح ہوں کہ عوام کو بھی محسوس ہو کہ انصاف ہورہا ہے۔ پرانی کہاوت ہے انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے۔نوازشریف کے کیس میں نوازشریف کو نہیں معلوم تھا کہ پاکستان کے سپریم کورٹ میں غیر وصول شدہ تنخواہ اثاثہ ہے یا نہیں کا فیصلہ امریکی بلیک لا ڈکشنری کے مطابق ہوگا اور پاکستان کا انکم ٹیکس کا قانون غیر متعلقہ قرار پائے گا ۔ انہوں نے اس رقم کو پاکستانی قانون کے مطابق اثاثہ نہ سمجھا اور کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کیا ۔ سپریم کورٹ نے اس غلطی کو بدنیتی پر قرار دے کر فیصلہ کیا ۔ دوسری طرف عمران خان پورے مقدمہ میں نیازی سروسز لمیٹڈ کو اپنی کمپنی قرار دیتے رہے جو1983 میں قائم ہوئی اور 2015 میں ختم کی گئی۔ اس دوران لاکھوں پونڈ آتے اور جاتے رہے۔اس کمپنی کو کبھی بھی کاغذات نامزدگی یا انکم ٹیکس میں ظاہر نہ کیا گیا۔ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے تسلیم کیا کہ یہ کمپنی ظاہر نہ کرکے عمران خان سے غلطی ہوگئی ہے۔ عدالت نے اس وقت ریمارکس دئیے کہ ہم دیکھیں گے اس میں بدنیتی ہے یا نہیں۔ جب فیصلہ آیا تو نیت اور بدنیتی کا بھی ذکر نہ تھا بلکہ کہا گیا عمران خان کو یہ کمپنی ظاہر کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ عمران خان کی بنی گالہ رہائش کے متعلق بھی ایک جعلی دستاویزعدالت میں پیش کی گئی ہے۔ مریم نواز پر الزام ہی یہ ہے کہ جعلی دستاویز عدالت میں دی اور نیب میں کیس چل رہا ہے ۔عمران خان سے کہا گیاہے آپ جرمانہ جمع کروادیں سب ریگولر ہوجائے گا۔ ان معاملات میں ہوسکتا ہے کچھ نکات عوام کے سامنے نہ آئے ہوں لیکن سپریم کورٹ کو اس بات کو اہمیت دینی چاہئے کہ عوام کے ایک بہت بڑے حصے کو انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا اور اس سے نوازشریف کو سیاسی فائدہ پہنچ رہا ہے۔
سیاسی فائدہ تو نوازشریف کو نیب عدالت نے لندن میں اپنی کینسر کے مرض میں مبتلا اہلیہ کی عیادت اور ڈاکٹروں سے مشورہ کیلئے جانے کی اجازت نہ دے کر بھی پہنچایا ہے۔ مریم نواز نے درست کہا ہے بیماری کسی پر بھی آسکتی ہے اور کلثوم نواز نے اللہ پر بھروسہ کا اظہار کرکے عوام کی نظروں میں اپنی عزت میں اضافہ کیا ہے۔ خدا کو بھولے ہوئے تبصرہ نگار عجیب عجیب باتیں کررہے ہیں۔ ایک چینل پرایک بزرگ چوہدری غلام حسین تبصرہ فرمارہے تھے یہ دونوں بڑے ڈاکٹر (نواز شریف اور مریم نواز) لندن کلثوم نوا ز کے علاج کیلئے جانا چاہتے ہیں۔آج کا کالم شیخ رشید کے نام ہے۔ واپس شیخ رشید پر آتے ہیں۔ شیخ رشید میڈیامیں رہنے کا فن خوب جانتے ہیں۔ اب جوڈیشل مارشل لا کا شوشہ چھوڑا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کا مطلب کیا ہے تو فرمایا چیف جسٹس الیکشن کروانے کیلئے نگران وزیر اعظم اور صوبوں میں وزیر اعلیٰ مقرر کریں۔ درحقیقت شیخ صاحب چیف جسٹس کو مشورہ دے رہے ہیں یا اکسا رہے ہیں کہ وہ آئین پاکستان کے آرٹیکل224 اور224 A کو ایک طرف رکھ دیں جس میں تفصیل کے ساتھ نگران حکومتیں بنانے کا طریقہ کار موجود ہے۔ شیخ صاحب سے یہاں بھی غلطی ہوئی ہے دراصل انکی نیت خراب نہیں۔ انکی آئین کے بارے معلومات واجبی سی ہیں۔ وہ بار بار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب آرٹیکل 199کے تحت آرمی کو الیکشن کروانے کی ذمہ داری سونپ دیں ۔ آرٹیکل 199 ہائی کو رٹ کے دائرہ اختیار کے بارے میں ہے۔ وہ شاید آرٹیکل190 کہنا چاہتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے تمام ایگزیکٹو اور جوڈیشل ادارے سپریم کورٹ کی مدد کریں گے۔ یہاں بھی آرمی کو براہ راست حکم دینے کا کوئی ذکر نہیں۔ آرمی کو سول حکومت کی مدد کیلئے بلانے کا اختیار آرٹیکل 245 کے تحت صرف وفاقی حکومت کو ہے اور درحقیقت اگر وفاقی حکومت نے آرمی کو کسی علاقے میں سول حکومت کی مدد کیلئے بلارکھا ہو تو وہ علاقہ ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں رہتا۔ دراصل شیخ رشید کو چیف جسٹس کو ایسا مشورہ دینے کا حوصلہ اس لئے ہوا کیونکہ چیف جسٹس صاحب شفا ف الیکشن کروانے کا مصمم ارادہ ظاہر کرچکے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایک صوبے کی بیورو کریسی کو دوسرے صوبے میں ٹرانسفر کردیں گے ۔معلوم نہیں آئین کے تحت چیف جسٹس صاحب کو یہ اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ شیخ صاحب کے موجودہ بیان کا چیف جسٹس صاحب نے نوٹس لیا ہے اور کہا ہے کہ آئین میں جو ڈیشل مارشل لا کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ درست ہے کہ لفظ جوڈیشل مارشل لا کاآئین میں کوئی ذکر یا گنجائش نہیں لیکن شیخ صاحب جو اقدامات کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں شاید اس سے ملتے جلتے اقدامات کی عوام کے مفاد میں آرٹیکل(3)184 کے تحت گنجائش نکالنا مشکل نہ ہو۔ شیخ صاحب کی نیت جو بھی ہو عوام کو چیف جسٹس کی طرف سے شفاف الیکشن کروانے کی یقین دہانی پر اطمینان کا اظہار کرنا چاہئے۔ چیف جسٹس صاحب اس بات کو ضرور مد نظر رکھیں گے کہ 2013 کے الیکشن جوڈیشری کی مدد سے کروائے گئے تھے اور آرمی کے جوان بھی ہرجگہ پر موجود تھے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب بھی شفاف الیکشن کروانے کے اقدامات کر رہے تھے لیکن ہارنے والی پارٹی نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر دھاندلی کروانے کے سنگین الزامات لگادئیے تھے۔ اس بار بھی ہارنے والی پارٹی وہی ہوگی۔