پاکستان بھارت تنازعات پر مشیر امور خارجہ اور امریکہ میں پاکستانی سفیر کی تضاد بیانی …… کور ایشو کشمیر سے ہٹ کر پاکستان بھارت مذاکرات بے معنی ہونگے
وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ہماری پہلی ترجیح ملکی خودمختاری کا تحفظ اور اپنی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ ہم کسی ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرینگے۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ بھارت میں نئی آنیوالی حکومت سے بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائیگا۔ انکے بقول سرکریک‘ پانی اور دیگر ایشوز کو حل کرلیا جائے تو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے فضا بہتر ہو جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے افغانستان سمیت ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی جو پالیسی اختیار کی ہے‘ اگر بھارت اور افغانستان بھی یہی پالیسی اختیار کرلیں تو خطے میں امن و خوشحالی یقینی ہو سکتی ہے۔ انکے بقول بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا معاملہ وہاں پر نئی حکومت کے قیام تک مؤخر کردیا گیا ہے۔
اس میں کوئی دور رائے نہیں کہ ملک کی آزادی‘ خودمختاری اور سلامتی کا تحفظ ہی حکومت کی پہلی ترجیح ہوتی ہے چنانچہ ملک کی سالمیت کو جہاں سے بھی زد پڑنے کا اندیشہ ہو یا ملک کی خودمختاری کیخلاف کوئی بیرونی سازش کارفرما ہوتو اس کا توڑ اور سدباب بھی ملکی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے تقاضوں کے تحت حکومت کی پہلی ترجیحات میں ہی شامل ہوتا ہے۔ اگر ہمارے ہمسایہ ملک بھارت اور افغانستان ہمارے ساتھ خیرسگالی کے جذبے کے تحت برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے کی خودمختاری کے احترام کے تقاضے نبھاتے ہوئے برادرانہ تعلقات استوار کرنے کے راستے پر گامزن ہوں تو اس سے یقیناً علاقائی امن و استحکام کی ضمانت مل سکتی ہے اور جنگی دفاعی تیاریوں پر اٹھنے والے اخراجات اپنے اپنے ملک کی ترقی اور قومی خوشحالی کیلئے بروئے کار لائے جا سکتے ہیں مگر اس معاملہ میں ہمیں اپنے پڑوسیوں بھارت اور افغانستان کی جانب سے نہ صرف کبھی خیر کی خبر نہیں ملی بلکہ وہ ہمیشہ ہماری سالمیت کو نقصان پہنچانے کے ہی درپے نظر آتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تو ہمارا اصل تنازعہ ہی کشمیر کا ہے جو خود بھارتی لیڈران کا پیدا کردہ ہے۔ اگر تقسیم ہند کے وقت کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کردیا جاتا تو مملکت خداداد کا بھارت کے ساتھ کبھی کوئی جھگڑا ہی پیدا نہ ہوتا اور ایک دوسرے کے ساتھ مثالی تعاون کی راہیں استوار کرکے برصغیر کو بھی یورپ جیسی ترقی سے ہمکنار کردیا گیا ہوتا مگر بھارت کے جنگی جنون اور اکھنڈ بھارت کے منصوبے کی بنیاد پر اسکے توسیع پسندانہ عزائم نے اسے کشمیر پر اپنا تسلط جمانے کا راستہ دکھایا۔ آج کشمیر پر بھارتی قبضے کو چھ دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر نہ صرف وہ یہ تسلط ختم کرنے پر آمادہ نہیں بلکہ اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کے بعد وہ آزاد کشمیر پر بھی اپنا حق جتا رہا ہے۔ بھارت کی یہی سوچ اصل فساد کی جڑ ہے جبکہ یہ سوچ پاکستان کی سالمیت ختم کرنے کے بھارتی ایجنڈے پر مبنی ہے جس کے تحت پاکستان کے پانیوں کو اپنی دسترس میں رکھنے کی نیت سے کشمیر پر تسلط جمایا گیا۔ اگر بھارت کی جانب سے کشمیر کا تنازعہ پیدا نہ کیا جاتا تو پھر پانی‘ سرکریک اور سیاچن سمیت پاکستان بھارت کسی دوسرے تنازعہ کی نوبت ہی نہ آتی۔ اس تناظر میں کشمیر کا مسئلہ یو این قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہو جائے تو پھر پانی اور سرکریک سمیت دوسرے تنازعات ازخود حل ہو جائینگے۔ یہ پاکستان بھارت تنازعات طے کرنے کا سیدھا سیدھا فارمولا ہے مگر مشیر امور خارجہ پاکستان بھارت تنازعات کو طے کرانے کیلئے کان کو سیدھے ہاتھ سے پکڑنے کے بجائے الٹے ہاتھ سے پکڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں جن کے بقول سرکریک‘ پانی اور دوسرے تنازعات حل ہو جائیں تو مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ بھی نکل آئیگی۔ پاکستان بھارت تنازعات طے کرانے کا یہ فارمولا درحقیقت بھارتی لابی کے زیراثر ان بیرونی قوتوں کا ایجنڈہ ہے جو کشمیر پر بھارتی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی پر پاکستان کی جانب سے مہرتصدیق ثبت کراکے‘ کشمیر کا قضیہ ہی پاک کرنا چاہتی ہیں تاکہ اس خطے میں بھارت کی تھانیداری تسلیم کراکے اسکے ذریعے اپنے توسیع پسندانہ مقاصد حاصل کئے جا سکیں۔ اگر ہماری حکومتی صفوں میں سے بھی پاکستان بھارت اصل تنازعہ کشمیر کے بجائے دیگر تنازعات کے حل پر زور دیا جائیگا تو ہماری ملکی اور قومی سالمیت کے حوالے سے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے۔
اگر مسئلہ کشمیر جوں کا توں برقرار رہتا ہے اور اسے نظرانداز کرکے پاکستان بھارت مذاکرات کی میز سجائی جاتی ہے تو ان مذاکرات کا نتیجہ بھی ماضی کی طرح صفر جمع صفر ہی برآمد ہو گا۔ مشیر امور خارجہ کو کم از کم اس حقیقت کا تو ادراک کرنا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کے برقرار رہتے ہوئے بھارت کے ساتھ پانی کا تنازعہ کیسے طے ہو سکتا ہے جبکہ یہ تنازعہ تو کشمیر پر بھارتی تسلط کے باعث ہی پیدا ہوا ہے۔ بلاشبہ کشمیر ہی ہمارا کورایشو ہے اور اگر ہماری حکومتی صفوں میں اس کورایشو سے ہٹ کر پاکستان بھارت تنازعات طے کرنے کیلئے مذاکرات کی بات کی جارہی ہے تو یہ مذاکرات پاکستان کے بجائے بھارت کے فائدے میں ہونگے جبکہ ان مذاکرات کی بنیاد پر بھارت کو مقبوضہ کشمیر ہی نہیں‘ آزاد کشمیر پر بھی اپنا حق جتانے کا موقع مل جائیگا۔ کیا مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز بھارت کو یہی موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر حکومتی صفوں میں ایسی کوئی سوچ پروان چڑھ رہی ہے تو یہ کشمیر کاز کے ساتھ ہی بدعہدی نہیں‘ ملک کے مفادات اور سلامتی کو بھی نقصان پہنچانے کے مترادف ہو گا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف نے گزشتہ ماہ 6فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر مظفرآباد میں کشمیر لیجسلیٹو اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کو کورایشو قرار دیا جو ملک کی کشمیر پالیسی کے عین مطابق تھا مگر انکے مشیر اور وزراء کشمیر کے بجائے دوسرے مسائل پر پاکستان بھارت مذاکرات کا عندیہ دے رہے ہیں۔ ایسی ہی حکومتی پالیسی پاکستان کے ساتھ الحاق کی تمنا رکھنے والے کشمیری عوام میں ہمارے معاملہ میں مایوسی کو فروغ دیتی ہے جس کا اظہار بزرگ کشمیری رہنماء سیدعلی گیلانی گزشتہ روز کر بھی چکے ہیں۔
کیا یہ ہمارے لئے شرمندگی کا مقام نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی حریت کانفرنس تو 23 مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر پاکستان کو اسلام کا ناقابل تسخیر قلعہ قرار دے کر اسکی خوشحالی اور استحکام کیلئے دعاگو نظر آتی ہے مگر اسکے برعکس ہمارے حکمران اب کشمیر کو کورایشو قرار دینے سے بھی شرماتے نظر آتے ہیں۔ کیا کشمیر پر بھارتی ہٹ دھرمی کو تسلیم کرنا ہی ہمارے حکمرانوں کی اولین ترجیح ہے؟ اس تناظر میں پاکستانی قوم ہی نہیں‘ کشمیری عوام بھی اپنے حکمرانوں کی مبہم کشمیر پالیسی پر حیران و مضطرب ہیں۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ مشیرامور خارجہ تو پاکستان بھارت مذاکرات کیلئے کشمیر کے بجائے پانی اور سرکریک جیسے مسائل پر بات کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں جبکہ امریکہ میں تعینات پاکستان کے سفیر جلیل عباس نے گزشتہ روز واشنگٹن میں ایشیا سوسائٹی کی تقریب سے خطاب کے موقع پر کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے اصولی مؤقف کی روشنی میں باور کرایا ہے کہ بھارت کو کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کیلئے پاکستان کی سنجیدہ کوششوں کا مثبت جواب دینا ہوگا۔ ہم مسئلہ کشمیر کے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل میں خود کتنے سنجیدہ ہیں‘ اس کا اندازہ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز کے بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال میں وزیراعظم میاں نوازشریف کو‘ جن کے پاس وزارت خارجہ کا قلمدان بھی ہے‘ پارلیمنٹ میں کشمیر پر پالیسی بیان دینا چاہیے تاکہ کشمیر ایشو پر انکے وزیروں‘ مشیروں کی جانب سے پیدا کیا گیا ابہام دور ہو سکے اور کشمیری عوام کے دلوں میں پاکستان کے مؤقف کے حوالے سے پیدا ہونیوالے تحفظات ختم ہو سکیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان بھارت تنازعات میں کشمیر ہی ہمارا کورایشو ہے جس سے ہٹ کر بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا اسے پاکستان کی سالمیت کیخلاف اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہوگا۔