بھائیوں کی مدد سے شوہر کو موت کے گھاٹ اتار دیا
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جس کسی نے مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا اسکی سزا جہنم ہے‘‘ مگر اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے وطن عزیز میںکوئی دن ایسا نہیں جب دیرینہ عداوت‘ مال و دولت اور جائیداد کی خاطر‘ رشتوں کے تنازعہ‘ غیرت کے نام یا معمولی جھگڑے پرکسی نہ کسی کو ابدی نیند نہ سلا دیا جاتا ہو۔ دوہرے‘ تہرے قتل کے واقعات بھی معمول بن چکے ہیں۔ اس کا اندازہ پنجاب پولیس کی سال 2013ء کی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال کے 365 دنوں میں 6095 قتل اور اسی دوران 4395 اقدام قتل کے مقدمات درج ہوئے۔ جبکہ رواں ماہ یکم مارچ سے لے کر 23 مارچ تک صرف لاہور سمیت چند شہروں میں مختلف وجوہات کی بناء پرمتعدد خواتین سمیت تقریباً 36 سے زائد افرادکی زندگیوں کے چراغ گل کر دیئے گئے۔ کئی وارداتوں میں خونی رشتے دار‘ قریبی عزیز اور حتیٰ کے جیون ساتھی تک بھی ملوث ہیں اور ملزمان نے بندوقوں‘ چھریوں اور کلہاڑیوں کے استعمال کیساتھ ساتھ بہیمانہ تشدد کے ذریعے قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔
قارئین کرام! ایسا ہی ایک دلخراش واقعہ 16 مارچ کو ضلع نارووال کے گائوں غیاث پور کاہلواں میں پیش آیا جہاں 8 بچوں کی ماں عذرا بی بی نے اپنے 3 بھائیوں سے مل کر شوہر کو سفاکیت سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ذرائع کے مطابق 45 سالہ ریٹائرڈ فوجی طارق محمود کی شادی 18 سال قبل عذرا بی بی سے ہوئی تھی اور ان کے ہاں 5 بیٹیاں اور 3 بیٹے پیدا ہوئے۔ وہ چند سال قبل ہی پاک فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل گائوں آکر محنت مزدوری کرکے اہلخانہ کی کفالت کر رہا تھا تاہم اسکی شریک حیات عذرا بی بی اکثر و بیشتر عزیزوں اور میکے جانے کے بہانے بغیر بتائے گھر سے غائب رہنے لگی جس پر طارق محمود اسے ایسی حرکات سے منع کرتا لیکن وہ اپنی روش پر برقرار رہی۔ وقوعہ کے روز بھی عذرا بی بی صبح گھر سے جانے لگی تو طارق محمود کے باز پرس کرنے پر وہ طیش میں آگئی اور اس نے اپنے بھائیوں شبیر احمد‘ تنویر احمد اور جمیل احمد کو فون کرکے بلا لیا۔ اس کے بھائیوں نے جونہی گھر میں قدم رکھا تو ملزمہ عذرا نے اپنے مجازی خدا پر لوہے کے راڈ سے حملہ کر دیا جس سے طارق محمود زمین پر گر گیا تو شبیر وغیرہ بھی اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کے پیٹ‘ ٹانگوں اور سر پر ہتھوڑے‘ آہنی سریے سے وار کرنے شروع کر دیئے۔ ملزمہ بھی برابر ان کا ساتھ دیتی رہی جبکہ طارق محمود درد سے چیختے چلاتے ہوئے ان سے زندگی کی بھیک مانگتا رہا مگر وہ وار کرتے رہے جس کے نتیجہ میں اس نے موقع پر ہی تڑپ تڑپ کر جان دیدی۔ اسی اثناء میں مقتول کے چھوٹے بھائی الیاس اور دیگر اہل دیہہ شور سن کر وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے چاروں کو فرار ہونے کی کوشش کے دوران پکڑ لیا اور ایک کمرے میں بند کر کے پولیس تھانہ صدر نارووال کو اطلاع دیدی۔ پولیس پارٹی نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر ملزمہ کو ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا۔ اب چاروں ملزمان جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے۔ مقتول کے ورثاء کا کہنا ہے کہ اپنی نصف عمر ملک کی سرحدوں کے تحفظ میں صرف کرنے والے کو اپنے گھر میں ہی آستین کے سانپ نے ڈس لیا۔ ہم سفاک ملزمان کو تختہ دار پر لٹکتے دیکھنے کے منتظر ہیں جنہوں نے 8 بچوں کے سر سے والد کا سایہ اور ہمارا سہارا چھین لیا۔
جیسا کہ جرم کا تعلق جہالت سے ہے اور جہالت کے خاتمے سے ہی جرم کا تدارک ممکن ہے اس لئے انصاف‘ دینی و دنیاوی تعلیم‘ اخلاقی اقدارکے فروغ اور اچھی تربیت سے معاشرے میں پنپتی متشددانہ سوچ کو ختم کرکے قتل جیسے سنگین جرم کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔