صوبائی دارالحکومت لاہور کے 14 گھروں میں ایک ہی رات میں پونے دو کروڑ کے ڈاکے ڈالے گئے‘ شہری سڑکوں پر بھی لیٹے رہے اور گوجرانوالہ میں ڈاکوئوں نے باپ کے سامنے جواں بیٹا قتل کر دیا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کی نذر ایک شعر ہے…؎
خدا کی راہ میں پہلے بسر کرتے تھے سختی سے
محل میں بیٹھ کر اب عشقِ قومی میں تڑپتے ہیں
اس وقت پورا پنجاب جہاں دوسرے گوناگوں مسائل کی زد میں آیا ہوا ہے‘ اس پر مستزاد یہ کہ اس صوبے کو اب پنجاب کی جگہ ڈاکو نگری کہنے کو جی کرتا ہے۔ غضب خدا کا پولیس کے دو ہی کام رہ گئے ہیں‘ ایک حکمرانوں کی حفاظت دوسرے چھترول۔ ہم وزیر اعلیٰ سے گزارش کرینگے کہ یہ ڈاکو درحقیقت ڈاکو نہیں‘ بیروزگار فاقہ زدہ ڈگری یافتہ نوجوانوں کا ردعمل ہے۔ وہ جو بھی دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں‘ انہیں اندر ہی نہیں جانے دیا جاتا۔ اگر یہ ڈاکو ہوتے تو مال لوٹ کر چلتے بنتے مگر یہ تو باپ کے سامنے بیٹے کو بھی قتل کر دیتے ہیں حالانکہ اس نے کوئی مزاحمت بھی نہیں کی ہوتی۔ دہشت گردی کی بھی یہی وجہ ہے۔
اس وقت سر جوڑ کر غور کرنے کی ضرورت ہے‘ پنجاب میں ڈاکہ زنی اور راہزنی عام ہو چکی ہے‘ اسے روکنے کیلئے پولیس کی تنظیم نو کے بجائے تطہیر ہونی چاہئے۔ آپکی فعالیت اور آنیوں جانیوں کا کیا فائدہ کہ شہری لٹ رہے ہیں اور پولیس آنکھیں بند کرکے بھتے وصول کر رہی ہے۔ جن لوگوں نے دروازوں پر ایک کنڈا لگا رکھا تھا‘ انہوں نے اب دو دو کنڈے لگا لئے ہیں۔ اس وقت شہباز راج کی جگہ ڈاکو راج نافذ ہے‘ اپنی رٹ آف گورنمنٹ برقرار رکھیں جناب!
٭…٭…٭…٭
خبر ہے کہ بھارت دنیا کی تلخ ترین مرچ کو جنگ میں بطور ہتھیار استعمال کریگا۔
گویا بھارت نہ ہوا‘ پاکستان کے نواح میں ایک تھانہ ہے‘ جو دشمنوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بجائے اب تلخ ترین مرچیں ڈالے گا۔ کیونکہ اسکے میزائل شرلیاں ہیں‘ جو کبھی چلتی ہیں اور کبھی پھس ہو جاتی ہیں۔ پاکستان جب بھارتیوں کو مرچیں آنکھوں میں ڈالنے کا موقع ہی نہیں دیگا اور ایک ہی مرچ داغ دیگا تو یہ بھارتی مرچیں ہماری ہانڈی پکانے کے کام آئیں گی۔ کسی زمانے میں انگریز انڈیا پر قبضہ کرنے کیلئے کالی مرچ کے بہانے داخل ہوئے تھے‘ ہم بھی کسی وقت بھارت میں اس تلخ ترین بہترین مرچوں کے حوالے سے داخل ہونگے‘ بھارت پکار اٹھے گا…؎ اف اف مرچی‘ ہائے ہائے مرچی۔
بنیا آخر بنیا ہوتا ہے‘ پرچون کی دکان سے باہر نہیں نکل سکتا‘ دیکھیں مرچ کے بعد نمک کا ذکر کب آتا ہے؟ اس کو معلوم نہیں کہ جب نعرۂ تکبیر لگتا ہے تو سب مرچیں ہوا ہو جاتی ہیں‘ جن مجاہدوں کو موت کی جگہ جنت نظر آتی ہو‘ ان کا مقابلہ تو بھارت کے دو نمبر ایٹم بم بھی نہیں کر سکتے‘ تلخ ترین مرچ بیچاری کیا کریگی؟ تلخ ترین مرچیں تیار کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کو یہ ڈر ہے کہ پاکستانی انکے ملک میں داخل ہو کر جنگ لڑنے کی جرأت رکھتے ہیں‘ اسلئے ہم ہولی کے رنگوں کی طرح ان پر مرچوں کی بارش کر دینگے‘ اسے یہ معلوم نہیں کہ جن کی آنکھوں میں توحید اور جہاد کا سرمہ لگا ہوا ہو‘ ان کا لبھورام کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
٭…٭…٭…٭
میاں نواز شریف نے سندھی سیکھنا شروع کر دی۔
میاں صاحب سیاست ہی سیکھتے رہتے تو بہتر تھا‘ مگر انہوں نے شاید یہ سوچا ہو گا کہ اگر زرداری صاحب پنجابی سیکھ سکتے ہیں‘ تو وہ بھی ایک بڑی پارٹی کے لیڈر ہیں‘ کیوں نہ سندھی سیکھ کر پیپلز پارٹی کو یہ بھی کرکے دکھا دیں۔ علاقائی زبانیں سیکھنی چاہئیں‘ یہ سیاست دانوں کو زیادہ فائدہ دے سکتی ہیں۔ چاہے ایسا کرنے سے قوم کو کوئی فائدہ ہو نہ ہو‘ ویسے بھی ہماری قیادتیں ابھی تک سیکھنے سے فارغ نہیں ہوئیں۔ اگر وہ فارغ ہیں تو عوام کی خدمت کرنے‘ انکے مسائل حل کرنے سے فارغ ہیں۔
ہمارے ہاں لیڈر اپنے حوالے سے لوگوں کو دیکھتے ہیں‘ مہنگائی کی انکو کوئی فکر نہیں‘ لوڈشیڈنگ کی ان کو کوئی پرواہ نہیں‘ کیونکہ ان کو بجلی ملتی رہتی ہے‘ اسی لئے وہ اس درد کو جان ہی نہیں سکتے۔ جو عام غریب آدمی کو لاحق ہے۔ وہ اسی میں خوش ہیں کہ تنقید ہی سہی‘ انکی فوٹو اور خبر تو روز آجاتی ہے‘ لوگ امید پر زندہ ہیں‘ وہ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب کی حکومت آئیگی تو سب ٹھیک ہو جائیگا۔ حالانکہ میاں نواز شریف تین دفعہ پہلے آچکے ہیں‘ مگر عوام ماضی پرست تو ہیں‘ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ البتہ بقول اقبال اس فلسفے کو سینے سے لگا کر زندگی گزار رہے ہیں کہ…؎
آئینِ نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا‘
پرانی چیزوں میں نئی چیزیں ڈھونڈنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ ہمارے بڑے لیڈر چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہیں‘ وہ بھی جن کا تعلق انکی ذات سے ہو‘ قومی مفاد سے نہیں …؎
اکبر ہنوز ان سے ہے امید وارد لطف
بدلی ہوئی نگاہ کو پہچانتا نہیں
٭…٭…٭…٭
لندن میں ایک کال سینٹر میں کام کرنیوالے نے بغیر اجازت ایک بسکٹ لے لیا۔ اس پر مقدمہ قائم کیا گیا‘ عدالت نے نہ صرف اسے سزا سنا دی‘ بلکہ اسے ڈیڑھ سو پونڈ عدالتی اخراجات بھی ادا کرنے پڑے۔
پنجابی میں کہتے ہیں ’’ککھ دی وی چوری تے لکھ دی وی چوری‘‘۔ لندن کے کال سنٹر والوں نے اس مثل کو سچ کر دکھیا۔ ہمارے ہاں لیڈران کرام کھربوں چوری کرکے لے گئے‘ مگر کہتے رہے کہ ’’چور کوئی ہور‘‘ ان شریف چوروں کو پکڑنے والے بھی اپنا حصہ لے کر خاموش رہے‘ اب بڑے عرصے کے بعد عدلیہ نے کوئی آٹھ ہزار چور پکڑ تو لئے ہیں مگر ابھی تک وہ پکڑ میں نہیں آئے۔ لندن کے بسکٹ چور نے تو فقط ایک بسکٹ چرایا تو وہاں کے لوگوں نے اسے معاف نہیں کیا‘ہمارے ہاں کے چور پوری بیکری چٹ کر گئے‘ مگر انہیں کبھی کسی نے پوچھا تک نہیں۔
اگر برطانیہ میں ایک بسکٹ چرانے کی اتنی بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے تو پاکستان کے بیکری چوروں کی سزا کہاں جا پہنچتی ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان قومی بسکٹ چوروں کو سزا کون دلوائے۔ بسکٹ چور خود سزا دینے والے ہوں تو بھلا کون ان چوروں پر ہاتھ ڈالے۔ چوروں کی فہرستیں شائع ہو چکی ہیں‘ مگر عملدرآمد ندارد۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کی نذر ایک شعر ہے…؎
خدا کی راہ میں پہلے بسر کرتے تھے سختی سے
محل میں بیٹھ کر اب عشقِ قومی میں تڑپتے ہیں
اس وقت پورا پنجاب جہاں دوسرے گوناگوں مسائل کی زد میں آیا ہوا ہے‘ اس پر مستزاد یہ کہ اس صوبے کو اب پنجاب کی جگہ ڈاکو نگری کہنے کو جی کرتا ہے۔ غضب خدا کا پولیس کے دو ہی کام رہ گئے ہیں‘ ایک حکمرانوں کی حفاظت دوسرے چھترول۔ ہم وزیر اعلیٰ سے گزارش کرینگے کہ یہ ڈاکو درحقیقت ڈاکو نہیں‘ بیروزگار فاقہ زدہ ڈگری یافتہ نوجوانوں کا ردعمل ہے۔ وہ جو بھی دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں‘ انہیں اندر ہی نہیں جانے دیا جاتا۔ اگر یہ ڈاکو ہوتے تو مال لوٹ کر چلتے بنتے مگر یہ تو باپ کے سامنے بیٹے کو بھی قتل کر دیتے ہیں حالانکہ اس نے کوئی مزاحمت بھی نہیں کی ہوتی۔ دہشت گردی کی بھی یہی وجہ ہے۔
اس وقت سر جوڑ کر غور کرنے کی ضرورت ہے‘ پنجاب میں ڈاکہ زنی اور راہزنی عام ہو چکی ہے‘ اسے روکنے کیلئے پولیس کی تنظیم نو کے بجائے تطہیر ہونی چاہئے۔ آپکی فعالیت اور آنیوں جانیوں کا کیا فائدہ کہ شہری لٹ رہے ہیں اور پولیس آنکھیں بند کرکے بھتے وصول کر رہی ہے۔ جن لوگوں نے دروازوں پر ایک کنڈا لگا رکھا تھا‘ انہوں نے اب دو دو کنڈے لگا لئے ہیں۔ اس وقت شہباز راج کی جگہ ڈاکو راج نافذ ہے‘ اپنی رٹ آف گورنمنٹ برقرار رکھیں جناب!
٭…٭…٭…٭
خبر ہے کہ بھارت دنیا کی تلخ ترین مرچ کو جنگ میں بطور ہتھیار استعمال کریگا۔
گویا بھارت نہ ہوا‘ پاکستان کے نواح میں ایک تھانہ ہے‘ جو دشمنوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بجائے اب تلخ ترین مرچیں ڈالے گا۔ کیونکہ اسکے میزائل شرلیاں ہیں‘ جو کبھی چلتی ہیں اور کبھی پھس ہو جاتی ہیں۔ پاکستان جب بھارتیوں کو مرچیں آنکھوں میں ڈالنے کا موقع ہی نہیں دیگا اور ایک ہی مرچ داغ دیگا تو یہ بھارتی مرچیں ہماری ہانڈی پکانے کے کام آئیں گی۔ کسی زمانے میں انگریز انڈیا پر قبضہ کرنے کیلئے کالی مرچ کے بہانے داخل ہوئے تھے‘ ہم بھی کسی وقت بھارت میں اس تلخ ترین بہترین مرچوں کے حوالے سے داخل ہونگے‘ بھارت پکار اٹھے گا…؎ اف اف مرچی‘ ہائے ہائے مرچی۔
بنیا آخر بنیا ہوتا ہے‘ پرچون کی دکان سے باہر نہیں نکل سکتا‘ دیکھیں مرچ کے بعد نمک کا ذکر کب آتا ہے؟ اس کو معلوم نہیں کہ جب نعرۂ تکبیر لگتا ہے تو سب مرچیں ہوا ہو جاتی ہیں‘ جن مجاہدوں کو موت کی جگہ جنت نظر آتی ہو‘ ان کا مقابلہ تو بھارت کے دو نمبر ایٹم بم بھی نہیں کر سکتے‘ تلخ ترین مرچ بیچاری کیا کریگی؟ تلخ ترین مرچیں تیار کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کو یہ ڈر ہے کہ پاکستانی انکے ملک میں داخل ہو کر جنگ لڑنے کی جرأت رکھتے ہیں‘ اسلئے ہم ہولی کے رنگوں کی طرح ان پر مرچوں کی بارش کر دینگے‘ اسے یہ معلوم نہیں کہ جن کی آنکھوں میں توحید اور جہاد کا سرمہ لگا ہوا ہو‘ ان کا لبھورام کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
٭…٭…٭…٭
میاں نواز شریف نے سندھی سیکھنا شروع کر دی۔
میاں صاحب سیاست ہی سیکھتے رہتے تو بہتر تھا‘ مگر انہوں نے شاید یہ سوچا ہو گا کہ اگر زرداری صاحب پنجابی سیکھ سکتے ہیں‘ تو وہ بھی ایک بڑی پارٹی کے لیڈر ہیں‘ کیوں نہ سندھی سیکھ کر پیپلز پارٹی کو یہ بھی کرکے دکھا دیں۔ علاقائی زبانیں سیکھنی چاہئیں‘ یہ سیاست دانوں کو زیادہ فائدہ دے سکتی ہیں۔ چاہے ایسا کرنے سے قوم کو کوئی فائدہ ہو نہ ہو‘ ویسے بھی ہماری قیادتیں ابھی تک سیکھنے سے فارغ نہیں ہوئیں۔ اگر وہ فارغ ہیں تو عوام کی خدمت کرنے‘ انکے مسائل حل کرنے سے فارغ ہیں۔
ہمارے ہاں لیڈر اپنے حوالے سے لوگوں کو دیکھتے ہیں‘ مہنگائی کی انکو کوئی فکر نہیں‘ لوڈشیڈنگ کی ان کو کوئی پرواہ نہیں‘ کیونکہ ان کو بجلی ملتی رہتی ہے‘ اسی لئے وہ اس درد کو جان ہی نہیں سکتے۔ جو عام غریب آدمی کو لاحق ہے۔ وہ اسی میں خوش ہیں کہ تنقید ہی سہی‘ انکی فوٹو اور خبر تو روز آجاتی ہے‘ لوگ امید پر زندہ ہیں‘ وہ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب کی حکومت آئیگی تو سب ٹھیک ہو جائیگا۔ حالانکہ میاں نواز شریف تین دفعہ پہلے آچکے ہیں‘ مگر عوام ماضی پرست تو ہیں‘ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ البتہ بقول اقبال اس فلسفے کو سینے سے لگا کر زندگی گزار رہے ہیں کہ…؎
آئینِ نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا‘
پرانی چیزوں میں نئی چیزیں ڈھونڈنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ ہمارے بڑے لیڈر چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہیں‘ وہ بھی جن کا تعلق انکی ذات سے ہو‘ قومی مفاد سے نہیں …؎
اکبر ہنوز ان سے ہے امید وارد لطف
بدلی ہوئی نگاہ کو پہچانتا نہیں
٭…٭…٭…٭
لندن میں ایک کال سینٹر میں کام کرنیوالے نے بغیر اجازت ایک بسکٹ لے لیا۔ اس پر مقدمہ قائم کیا گیا‘ عدالت نے نہ صرف اسے سزا سنا دی‘ بلکہ اسے ڈیڑھ سو پونڈ عدالتی اخراجات بھی ادا کرنے پڑے۔
پنجابی میں کہتے ہیں ’’ککھ دی وی چوری تے لکھ دی وی چوری‘‘۔ لندن کے کال سنٹر والوں نے اس مثل کو سچ کر دکھیا۔ ہمارے ہاں لیڈران کرام کھربوں چوری کرکے لے گئے‘ مگر کہتے رہے کہ ’’چور کوئی ہور‘‘ ان شریف چوروں کو پکڑنے والے بھی اپنا حصہ لے کر خاموش رہے‘ اب بڑے عرصے کے بعد عدلیہ نے کوئی آٹھ ہزار چور پکڑ تو لئے ہیں مگر ابھی تک وہ پکڑ میں نہیں آئے۔ لندن کے بسکٹ چور نے تو فقط ایک بسکٹ چرایا تو وہاں کے لوگوں نے اسے معاف نہیں کیا‘ہمارے ہاں کے چور پوری بیکری چٹ کر گئے‘ مگر انہیں کبھی کسی نے پوچھا تک نہیں۔
اگر برطانیہ میں ایک بسکٹ چرانے کی اتنی بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے تو پاکستان کے بیکری چوروں کی سزا کہاں جا پہنچتی ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان قومی بسکٹ چوروں کو سزا کون دلوائے۔ بسکٹ چور خود سزا دینے والے ہوں تو بھلا کون ان چوروں پر ہاتھ ڈالے۔ چوروں کی فہرستیں شائع ہو چکی ہیں‘ مگر عملدرآمد ندارد۔