ایف اے ٹی ایف اور پاکستان
ایف اے ٹی ایف اے کی گرے لسٹ سے نکلنے کا عندیہ پاکستان کو مل چکا ہے اب اکتوبر میں ایک وفد پاکستان کا دورہ کرے گا اور اکتوبر میں حتمی جائزہ لینے کے بعد پاکستان کو ممکنہ طور پر گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔دیکھا جائے تو اس لسٹ سے پاکستان کے نکلنے کی بنیادی وجوہات سیاسی و جغرافیائی ہی ہیں۔تکنیکی اور دیگر وجوہات بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں لیکن ان کی حیثیت ثانوی ہے۔ اصل کردار پاکستان کی اس وقت سیاسی و جغرافیائی پوزیشن کا ہی ہے جس نے پاکستان کو اس لسٹ سے نکلوانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ہم تھوڑا ماضی قریب میں جائیں تو کابل سے جب امریکہ اور نیٹو کی فورسز انتہائی عجلت میں وہاں سے نکلیں تو دنیا میں امریکہ اور نیٹو کا تاثر منفی گیا کہ بیس سالوں میں اربوں ڈالرز افغانستان میں پھونکنے اور اپنے فوجی مروانے کے باوجود امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو افغانستان سے بے نیل و مرام ہو کر واپس جانا پڑا۔ ابھی مغرب اس ہزیمت سے سنبھلا ہی نہیں تھا کہ روس نے یوکرین پر حملہ کر کے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کیلئے دنیا میں مزید جگ ہنسائی کا سامان پیدا کر دیا۔ اب اس تناظر میں پاکستان کا کردار مزید واضح ہوتا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو اس حملے میں روس کا ساتھ دینا چاہئے تھا اور مغربی دنیا کی مخالفت کرنی چاہئے تھی۔ ایسا کہنے والے یہ ذہن میں رکھیں کہ جو آج ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ سے نکلنے کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں تو یہ سو فیصد یقینی تھا کہ اگر پاکستان نے روس کا ساتھ دیا ہوتا تو پاکستان آج ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی بجائے بلیک لسٹ میں شامل ہوتا۔ ایف اے ٹی ایف کی تکنیکی وجوہات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے پابندیاں، آئی ایم ایف کا معاہدہ نہ ہونا، عالمی امداد کی بندش، عالمی قرضے یہ سب مغربی استعمار کے ہتھیار ہیں تا کہ دنیا میں اپنے ہمنوا مماک کو قابو میں کیا جا سکے اور وہ اس کے بلاک کا حصہ ہی رہیں۔ یوکرین کے بعد پاکستان نے جو پوزیشن اختیار کی وہ بالکل ہمارے قومی مفاد میں تھی۔پاکستان کو درحقیقت خظے کے سیاسی و جغرافیائی حالات کی وجہ سے امریکہ اور چین دونوں کی ضرورت ہے۔ روس یوکرین جنگ میں یوں سمجھا جائے کہ روس نے امریکی قیادت میں مغربی دنیا کو للکارا ہے کہ اس کے ہمسائے میں نیٹو کی موجودگی وہ کبھی برداشت نہیں کرے گا۔ اب ایسے حالات میں جب یورپ کے دروازے پر روس نے جنگ چھیڑ رکھی ہے، چینی پانیوں میں امریکہ اور چین کے درمیان بالا دستی کی جنگ جاری ہے، ایران امریکہ کا مشرق وسطی میں سب سے بڑا مخالف ہے اور ترکی اگرچہ نیٹو کا ممبر ہے لیکن وہ اپنی سیاسی و معاشی پوزیشن کی وجہ سے مغربی دباؤ سے یکسر آزاد ہے۔ اسی وجہ سے ترکی نے فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کر دی ہے۔ دوسری جانب بھارت بھی دونوں سائیڈ پر کھیل رہا ہے اور اس نے مغربی دباؤ کے باوجود روس سے کاروباری شراکت داری کو بڑھایا ہے اور اب بھارت روس سے تیل درآمد کرنے والا بڑا ملک بن چکا ہے۔ یعنی بھارت نے بھی مغربی پوزیشن کو دنیا میں بے نقاب کر دیا ہے۔
ایسے حالات میں امریکہ اور نیٹو ممالک کو اس خطے میں ایک اتحادی کی ضرورت ہے۔ یوں کہہ لیں کہ پاکستان کو گھیرنا مغرب کے مفاد میں تو اس وقت بالکل بھی نہیں ہے۔ مغرب نے پاکستان کو اپنے ساتھ رکھنے کیلئے ایف اے ٹی ایف، آئی ایم ایف معاہدہ اور اس طرح کے دیگر کارڈز کھیلے تو پاکستان کی حالیہ دوستانہ سفارت کاری نے بھی معاملے کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عالمی سطح پر جب معاملات طے کئے جاتے ہیں سفارت کاری کی جاتی ہے تو پاکستان کا یکسر انکار کرنا یا یوں کہہ لیں کہ not Absolutely کہنا پاکستان کے مفاد میں بالکل نہیں تھا کیوں کہ جب سفارت کاری کے معاملات آتے ہیں تو وہ افہام و تفہیم سے حل کئے جاتے ہیں۔ جب کوئی سفارت کار کسی دوسرے ملک کوNO کہتا ہے تو پھر وہ سفارت کار ہی نہیں ہوتا اس لئے سفارت کاری میں نو کی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ گنجائش کا نام ہی سفارت کاری ہے۔ اب آتے ہیں پاکستان کو اس گرے لسٹ سے نکالنے میں حکومتی کردار کی طرف۔ جہاں یہ کردار اہم ہے وہاں پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی اپنا کردار بخوبی سے نبھایا ہے۔ عسکری قیادت نے اس لسٹ سے پاکستان کو نکالنے کیلئے باقاعدہ جی ایچ کیو میں ایک ڈیسک قائم کیا جس نے مختلف وزارتوں کے درمیان کو آرڈینیشن بنائی اور پاکستان کو جن 27 اقدامات کرنے کا کہا گیا اس پر کام شروع کرایا تاکہ پاکستان اس لسٹ سے نکل کر عالمی سطح پر جس تنہائی کا شکار ہے اس سے باہر آسکے۔ اکثر لوگ اس لسٹ میں ہونے کے فائدے اور نقصانات سے آگاہ نہیں تھے لیکن جو لوگ باہر کے ممالک میں موجود ہیں وہ جانتے ہیں کہ جن کے پیارے اس وقت بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ دس ہزار ڈالر سے زائد کی بینکنگ ٹرانزکشن کرنے سے قاصر تھے کیونکہ اس لسٹ میں ہونے کی وجہ سے پاکستان پر کڑی نگاہ رکھی جا رہی تھی کہ کہیں پاکستان سے کوئی ایسی رقم تو نہیں جا رہی جو باہر کسی انتہا پسندی میں استعمال ہو رہی ہو۔ پھر اس لسٹ میں شامل ہونے کی وجہ سے پاکستان پر غیر اعلانیہ ویزہ کی پابندیاں عائد کی گئیں جس کی وجہ سے پاکستانی کاروباری حضرات کو پریشانی کا سامنا رہا۔اس میں بھارت کے کردار کو بھی نہیں بھلایا جا سکتا جس نے پاکستان کو اس لسٹ میں رکھوانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن پاک فوج، حکومت اور ہمارے اداروں نے مل کر بھارت کی اس سازش کو ناکام بنایا۔جب اکتوبر میں ایف اے ٹی ایف کا وفد پاکستان کا دورہ کرے گا اور ممکنہ طور پر پاکستان کو اس لسٹ سے نکالے جانے کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا تو پھر بشمول سول حکومت و ملٹری اسٹیبلشمنٹ سب لوگ داد کے مستحق ہوں گے جنہوں نے پاکستان کو عالمی تنہائی سے نکالنے میں اپنا کردارقومی فرض سمجھ کر ادا کیا ہے۔