سازش در سازش
پاکستان میں سازشی تھیوریوں کو ہمیشہ اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ پاکستان کے عوام اندر کی باتوں چڑیا کہانی اور پر اسرار باتوں میں بڑی دلچسپی لیتے ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی سازشی تھیوری نے مقبولیت کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں- شہرت کی ریٹنگ اور ڈالروں کی چمک کی وجہ سے بہت سے کردار سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں- ان میں سے کئی را کے ایجنٹ کے طور پر بھی کردار ادا کر رہے ہوں گے-عوام میں زیادہ سے زیادہ مقبولیت حاصل کرنے اور فالورز میں اضافہ کرنے کے لیے وی لاگ پر من گھڑت اور بے بنیاد باتیں بھی سنائی جاتی ہیں جنہیں لوگ بڑی دلچسپی سے سنتے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
فسانے محبت کے یوں تو سچ ہیں پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے
یو ٹیوبرز کے لہجوں سے پتہ چل جاتا ہے کہ ان کے عزائم کیا ہیں۔پاکستان میں چونکہ نیشنلزم اور حب الوطنی کی رمق بہت کم ہے اس لیے سوشل میڈیا پر پاکستان کی سلامتی کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا-پاکستان کی سلامتی کے ادارے کے بارے میں نفرت کا لاوا پھٹ چکا ہے جس کی شدت سوشل میڈیا پر دیکھی جاسکتی ہے۔پاکستان سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ صورت حال انتہائی اذیت ناک ہے-عمران خان اب تو قدرے محتاط ہو گئے ہیں مگر عدم اعتماد کے بعد انہوں نے امریکی مداخلت کو سازشی رنگ دے کر پاکستان کے عوام میں غصہ اور اشتعال پیدا کر دیا۔جو لوگ امریکی تاریخ سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ امریکہ غریب مقروض اور پسماندہ ملکوں کے خلاف سازش نہیں کیا کرتا بلکہ ڈکٹیٹ اور خبر دار کرتا ہے-عمران خان کا فرض ہے کہ وہ پاکستانی قوم کو اعتماد میں لیں اور بتائیں کہ انہوں نے سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے اور مناسب وقت پر اسمبلی توڑنے کا اختیار کیوں استعمال نہ کیا۔ اگر سیاسی بصیرت کا ثبوت دے پاتے تو امپورٹڈ حکومت کیسے بن سکتی تھی-اس موقف سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ آرمی چیف پر تنقید سے سرحدوں کی حفاظت کرنے والے فوجی جوانوں کے مورال پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔سلامتی اور دفاع کے ادارے کے وقار کو بحال رکھنا ضروری ہے۔ عمران خان کی سازشی تھیوری کی باز گشت جاری تھی کہ ایک اور سازشی تھیوری منظر عام پر آگئی ہے۔ اتحادی حکومت کے لیڈروں نے الزام لگایا ہے کہ وزیراعظم عمران منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ اپنی پسند کا آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نامزد کرکے اپوزیشن کے لیڈروں کو گرفتار کر لیا جائے اور اگلے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرکے اور پارلیمانی نظام کو تبدیل کرکے ملک میں صدارتی نظام نافذ کر دیا جائے اور عمران اگلے دس سال تک اقتدار میں رہیں۔ جمہوری سیاست کے ماہر ترین کھلاڑی آصف زرداری کو اس سازش کا علم ہو گیا اور انہوں نے میاں نواز شریف سے رابطہ کرکے ان کو قائل کر لیا کہ عمران خان کے عزائم کو ناکام بنانے کا واحد راستہ ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا ہے۔ پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں امریکہ اور ناراض اسٹیبلشمنٹ آصف زرداری کی تجویز پر ایک پیج پر آگئے۔ عمرا ن خان نے ایک تقریب میں اللہ کو گواہ بنا کر اس سازشی تھیوری کی تردید کی ہے-تیسری سازش کا اسکرپٹ بھی تیار کیا جا چکا ہے جس کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کو سیاست سے آؤٹ کرنا اور تحریک انصاف کو سیاسی طور پر تقسیم اور کمزور کرنا ہے۔اس سازش کے مطابق ہر حربہ استعمال کیا جائے گا کہ عمران خان اگلے انتخابات میں پچاس ساٹھ سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل نہ کر سکیں۔ اتحادی حکومتی جماعتیں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گی اور مل کر انتخابات میں حصہ لیں گی تاکہ انکے ووٹ تقسیم نہ ہو سکیں اور تحریک انصاف کے امیدوار فائدہ نہ اٹھا سکیں۔غیر متوقع رجیم چینج کی وجہ سے پاکستانی قوم چونکہ غصے اور اشتعال میں ہے لہٰذا آئندہ انتخابات کے لئے حکومتی منصوبے کے مطابق کم از کم 6 ماہ مزید انتظار کیا جائے گا تاکہ پاکستان کے عوام غصہ کی کیفیت سے باہر نکل آئیں اور اتحادی جماعتوں کے لیے انتخابی ماحول سازگار بن جائے۔عمران خان حکمران اتحادی جماعتوں کی اس سازش کا مقابلہ کیسے کریں گے اس کے بارے میں اعتماد اور یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔عمران خان کے حق میں عوامی لہر ہی اس سازش کا مقابلہ کرسکتی ۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی طاقت کو منظم کریںاور اسے فعال اور متحرک رکھیں۔ اس کے لیے لازمی بنیادی شرط یہ ہے کہ عمران خان پاکستان کی تمام یونین کونسلوں میں انتخابات کرائیں تاکہ ان کی تحریک انصاف جو ہجوم کی شکل میں موجود ہے ایک منظم سیاسی قوت بن جائے اور نہ صرف انتخابات میں سرگرم کردار ادا کرسکے بلکہ سازشوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔جب تک امانت و دیانت صداقت انصاف اخلاقیات اور احتساب کے اصولوں کے مطابق پاکستان میں نیا نظام نافذنہیں کیا جاتا پاکستان سازشی تھیوریوں کی آماج گاہ ہی بنا رہے گا۔پاکستان جاگو تحریک کے مرکزی سینئر نائب صدر محترم ظفر صراف پاکستان کی عملی سیاست میں سرگرم اور پرجوش کردار ادا کرتے رہے ہیں ان کی پاکستان کی تاریخ اور سیاست پر گہری نظر ہے وہ ایک محب وطن عوام دوست اور درد مند شخصیت ہیں۔ پچاس سال کے سیاسی تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں ان کی رائے ہے کہ پاکستان کے مسائل کا ایک ہی علاج ہے کہ یہاں پانچ سال کے لیے ٹیکنوکریٹ حکومت بنائی جائے۔ ان پانچ سالوں کے دوران سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی جائے ۔ حکومت کڑا اور شفاف احتساب کرے۔ وہ تمام ضروری اصلاحات کی جائیں جو موجودہ نظام کو جمود سے نکالنے کے لیے لازم ہو چکی ہیں۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق پاکستان کے سیاسی اور معاشی نظام کی تشکیل نو کی جائے۔ سرمایہ دارانہ جاگیردارانہ کرپٹ نظام کو سمندر میں پھینک دیا جائے۔انکے خیال میں نئے انتخابات پاکستان کے مسائل کا حل پیش نہیں کر سکتے کیوں کہ ان کے بعد بھی موجودہ صورتحال جوں کی توں رہے گی۔ یہی کھلاڑی ہوں گے اور یہی تماشا ہو گا۔ محترم ظفر صراف صاحب کی تجویز پر پاکستان کے پڑھے لکھے دردمند دانشوروں صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔