بھارت میں اسلاموفوبیا عالمی برادری ٹھوس کارروائی کرے
بھارت میں جب سے نریندر مودی وزیراعظم بنے ہیں ہندو انتہا پسندوں کی بالعموم تمام اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں بھی بے بس یا ہندو انتہا پسندوں کی پشت پناہ دکھائی دیتی ہیں اس لیے وہ لوگ کسی خوف و حذر کے بغیر کھل کر خود سے مختلف مذہبی نظریات رکھنے والوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔ عالمی ادارے اور بین الاقوامی برادری اس صورتحال سے اچھی طرح واقف ہیں اور گاہے گاہے اس حوالے سے مذمتی بیانات بھی سننے اور پڑھنے کو مل جاتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے ہندو انتہا پسندوں کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔ اب امریکی کانگریس میں بھارت میں بڑھتے اسلاموفوبیا کے واقعات، انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں پر ایک مذمتی قرارداد جمع کرائی گئی ہے۔ ڈیموکریٹک رکن کانگریس الہان عمر کی جانب سے پیش کی گئی اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارت کو مذہبی آزادی پر خصوصی تشویش والے ملک کا درجہ دیا جائے۔ قرارداد میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، دلتوں، آدیواسیوں اور دیگر مذہبی و ثقافتی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور ان کے سفیر برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی تھی، اور اس سے پہلے امریکا کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی ایک رپورٹ میں بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بلیک لسٹ کرنے کی سفارش بھی کی گئی تھی۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ بہت اہمیت کی حامل ہے لیکن ان کی بنیاد پر بھارت کے رویے میں تبدیلی اسی وقت آئے گی جب اسے یہ پتا ہوگا کہ اگر اس نے ہندو انتہا پسندوں کی اقلیتوں کے خلاف کارروائیاں نہ رکوائیں تو اسے بین الاقوامی سطح پر مسائل پر سامنا کرنا پڑے گا۔ جب تک عالمی ادارے اور بین الاقوامی برادری اس سلسلے میں یک جہت ہو کر بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کرتی تب تک بھارت میں اقلیتوں پر مظالم کا سلسلہ رکنے کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دیتے۔