معاشی بحران کا حل:غیر ضروری برآمدات میں کمی
پاکستانی قوم کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ انتہائی سنجیدہ سے سنجیدہ بات کا مذاق بنا لیا جاتا ہے اور بھر اس کو لے کر سوشل میڈیا پر خوب ٹھٹھے مارے جاتے ہیں،خاص طور پر ہماری نوجوان نسل کسی بات کو سنجیدہ لینے کے لیے تیار ہی نہیں ہے اگر انہیںکوئی نصیحت کی بات کی جائے تو اس پر مذاق اور طنز کے ایسے نشتر چلائے جاتے ہیں کہ نصیحت کر نے والا سوبار توبہ کر تا ہے کہ ایسی غلطی پھر کبھی نہ ہو گی ،یہ وہ رویے ہیں اگر انہیں نہ بدلا گیا تو ہماری مشکلات کم ہو نے کے بجائے بڑھتی رہیں گی اور دوسروں پر انحصار کم کر کے اپنے پائوں پر کھڑا ہو نے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ وہو سکے گا،ہمارا ملک اس وقت شدید اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے، صرف پاکستان نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کو اس وقت شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے حکومت اس بحران پر قابو پانے کے لیے اپنے تئیں کوشش کر رہی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ ہم معاشی طور پر اس وقت تک مضبوط اور خود مختار نہیں ہوں گے جب تک ہم اپنے آپ پر انحصار نہیں کریں گے دوسرے ممالک سے غیر ضروری درآمدات کو بند یا پھر کم سے کم نہیں کیا جائے گا ،گزشتہ دنوں وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کے ایک بیان کاسوشل میڈیا پر مذاق اڑایا جاتا رہا لیکن میرے خیال میں وزیر موصوف کی یہ اپیل ہمارے لیے ایسی نصیحت تھی کہ جسے اگر اپنا لیا جائے تو ہم کافی حد تک معاشی بحرانوں پر قابو پا سکتے ہیں ۔ بیان دیا گیاکہ'' چائے کی دو دو پیالیاں پینے والے ایک پیالی کم کر دیں کیونکہ جو چائے ہم درآمد کرتے ہیں، وہ ادھار لے کر درآمد کرتے ہیں۔''کسی کی اچھی رائے کوصرف اس لیے مسترد کر دینا کہ وہ شخص آپ کو پسند نہیں کسی طور دانشمندی نہیں ہے ۔پاکستان اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ چائے درآمد کر نے والا ملک بن چکا ہے سوشل میڈیا پر احسن اقبال کے بیان کو کچھ لوگ عوام کی تکلیفوں پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں تو کچھ کا خیال ہے کہ یہ غریب لوگوں کے ناشتے کا سامان ہے جسے چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے ، صارفین اسے مزاحیہ انداز میں بھی لے رہے ہیں،اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سالانہ ہر پاکستانی ایک کلو چائے استعمال کرتا ہے اور پاکستان کا شمار دنیا کے پہلے دس ممالک میں ہوتا ہے جو زیادہ چائے استعمال کرتے ہیں۔مالی سال 2021-22میں سرکاری بجٹ دستاویزات کے مطابق پاکستان میں تقریبا 84ارب روپے کی چائے استعمال ہوئی ہے۔ گذشتہ سال کے مقابلے میں یہ حجم تیرہ ارب روپے زیادہ تھا۔ 2020میں دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان نے سب سے زیادہ چائے درآمد کی۔ 2020میں پاکستان نے 646ملین ڈالر کی چائے درآمد کی اور دنیا میں چائے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بن گیا۔ اسی سال چائے پاکستان میں 13ویں سب سے زیادہ درآمد کی جانے والی مصنوعات تھی۔ پاکستان بنیادی طور پر کینیا سے 495ملین ڈالر، ویتنام سے 68.3ملین ڈالر، روانڈا سے 28.1ملین ڈالر، یوگنڈا سے 14.6ملین ڈالر اور چین سے 9.78ملین ڈالر کی چائے درآمد کرتا ہے۔ ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا کہ جولائی تا فروری (2021-22)کے دوران چائے کی درآمدات 423.466ملین ڈالر ریکارڈ کی گئیں جبکہ گذشتہ برس جولائی تا فروری (2020-21)کے دوران 379.314ملین ڈالر کی چائے درآمد کی گئی تھی۔ اس عرصے میں چائے کی درآمدات میں 3.62فیصد کا اضافہ ہوا اور یہ تعداد گذشتہ سال کے171,469میٹرک ٹن سے بڑھ کر رواں مالی سال کے دوران 177,671میٹرک ٹن تک پہنچ گئی۔فروری 2022کے مہینے میں چائے کی درآمدات میں گذشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 59.56فیصد اضافہ ہوا۔ فروری 2022کے دوران چائے کی درآمدات 68.886ملین ڈالر ریکارڈ کی گئیں جبکہ فروری 2021میں 43.172ملین ڈالر کی چائے درآمد کی گئی تھی۔ جنوری 2022میں 53.975ملین ڈالر کی درآمدات کے مقابلے فروری 2022میں چائے کی درآمدات میں 27.63فیصد اضافہ ہوا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال تقریبا دو کھرب روپے کی چائے قانونی طور پر درآمد کی جاتی ہے اورلگ بھگ ایک کھرب روپے کی چائے پاکستان میں غیر قانونی طور پر لائی جا رہی ہے۔موجودہ عالمی اقتصادی کساد بازاری کے تناظر میں امریکہ سمیت دنیا پھر کے ممالک اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کر رہے ہیں اور کسی طرح اس بحران سے عہدہ برآہ ہو نے
کے لیے نئی پالیسیاں ترتیب دے رہے ہیں ،بچت پالیسیوں کو اپنا یا جا رہا ہے،درآمدات میں کمی لائی جا رہی ہے اور غیرملکی مصنوعات پر انحصار کو کم سے کم کیا جا رہا ہے ،ایسے میں پاکستانی قوم کی بھی ذمہ داری ہے کہ ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مشکل فیصلوں میں حکومت کا ساتھ دے اور ایسی مصنوعات کا کم سے کم استعما ل کرے جو ہم بیرون ملک سے درآمدکرتے ہیں اس سے نہ صرف ملک کا قیمتی زرمبادلہ بچے گا بلکہ ہماری کرنسی بھی مضبوط ہو گی جس سے ملک پر قرضوں کا بوجھ کم کر نے میں مددملے گی ۔جب پاکستان کا درآمدی بل کم نہیں ہوتا اس وقت تک نہ تو غیر ملکی قرضے کم ہوں گے اور نہ ہی آئی ایم ایف سے چھڑوائی جا سکتی ہے۔