لاہور میں دھماکہ:دہشت گردی کے محرکات تک پہنچنے کی ضرورت
لاہور میں جوہر ٹاؤن کے علاقے میں کالعدم جماعت کے امیر حافظ محمد سعید کی رہائش گاہ کے قریب خوفناک دھماکے میں 6سالہ بچے سمیت 3افراد جاں بحق جبکہ خاتون اور پولیس اہلکاروں سمیت 24افراد زخمی ہو گئے۔ ان میں سے متعدد کی حالت نازک ہے۔ دہشت گردوں نے دھماکہ خیز مواد نصب کر کے گاڑی پولیس بیرئیر کے قریب کھڑی کی اور موبائل ڈیوائس کے ذریعے دھماکہ کیا گیا۔ دہشت گردوں نے منصوبہ بندی کے تحت گاڑی میں دھماکہ خیز مواد نصب کر کے آگے جانے کی کوشش کی۔ مگر گاڑی آگے نہ لے جاسکے۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ ایک دم دھواں اٹھا، گاڑی کے پرخچے اڑ گئے اور آگ لگ گئی۔ قریبی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔ دھماکے کی آواز میلوں دور تک سنائی دی گئی۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق غیر ملکی ساختہ 15 سے 20 کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا۔ دھماکے کی جگہ 3فٹ گہرا، 8 فٹ چوڑا گڑھا پڑ گیا اور 100مربع فٹ سے زائد رہائشی علاقہ شدید متاثر ہوا ہے۔ حملہ آور یہاں جائے وقوعہ پر کیسے پہنچے اس کیلئے انکوائری شروع کردی گئی ہے۔ دہشت گردوں نے کارروائی کیلئے گاڑی اور موٹر سائیکل استعمال کی۔ گاڑی حافظ آباد کے رہائشی نے دو سال قبل گوجرانوالہ میں ایک شخص کو اوپن لیٹر پر فروخت کی تھی۔
ابتدائی طور پر پولیس حکام کی طرف سے کہا گیا کہ دھماکہ گھر کے اندر ہوا ہے۔ سلنڈر پھٹنے کی بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں تاہم کچھ ہی دیر میں صورتحال واضح ہو گئی جس سے ظاہر ہوا کہ دھماکہ دہشتگردی تھی۔ یہ چونکہ حافظ محمد سعید کی رہائش گاہ کے قریب ہوا اس لیے اس دہشتگردی میں ان کو نشانہ بنایا جانا مقصود ہو سکتا ہے۔ لاہور میں دہشتگردی کے بھیانک واقعات ہو چکے ہیں مگر عرصہ سے لاہور پرامن تھا۔ گزشتہ 16 سال میں صوبائی دارالحکومت میں 27 بار دہشتگردی ہوئی جس میں ماڈل ٹائون ، گڑھی شاہو ، مون مارکیٹ ،گلشنِ پارک ، ایف آئی اے اور آئی ایس آئی کے دفاتر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان واقعات میں 664 افراد جاں بحق ہوئے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی۔ اس مقصد کے لیے قربانی دینے والوں میں لاہور بھی شامل ہے۔ پاک فورسز نے دہشتگردوں کی واقعتاً کمر توڑ دی۔ وہ زخم خوردہ ہیں اور بلوں میں گھسے ہوئے ہیں۔ ملک میںامن کی مکمل بحالی آخری دہشتگرد کو اس کے انجام تک پہنچا کر ہی ممکن ہو گی۔ ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پر بم دھماکے اور خودکش حملے ہوتے تھے۔ اب خال خال ہی ہوتے ہیں۔ ایسے ایک بھی واقع نوبت نہیں آنے دی جانی چاہیے۔ اس معاملے میں ایجنسیوں کے مزید متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ پولیس کے الرٹ ہونے کے باعث لاہور بڑے سانحہ سے محفوظ رہا۔ مذکورہ چیک پوسٹ دہشگرد کراس کر جاتے تو صورتحال مزید خوفناک اور بھیانک ہو سکتی تھی۔
بجا کہ شہروں میں چپے چپے پر سکیورٹی اہلکار تعینات نہیں کئے جا سکتے مگر مشتبہ افراد پر کڑی نظر تو رکھی جا سکتی ہے۔ گاڑی میں بارودی مواد کہیں تو نصب کیا گیا تھا۔ یہ بارود بھی کہیں سے تو آیا ہو گا۔ ایجنسیوں کی طرف سے الرٹ اور ریڈ الرٹ جاری ہوتے ہیں۔ ان کے اجرا کے ساتھ ہی ایجنسیوں کا ہاتھ دہشتگردوں کے گریبان تک پہنچ جانا چاہیے۔ آج ایک بار پھر ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ قرب و جوار پر کڑی نظر رکھنا ہو گی۔ مشکوک سرگرمیوں کی صورت میں متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا جائے۔
پاکستان دہشتگردی کی دلدل سے نکل رہا ہے جس پر دشمن پریشان ہیں۔ بالفرض مذکورہ حملے میں اگر کسی شخصیت یا تنصیب کو نشانہ بنانا مقصود نہیں تھا تو بھی یہ ایک آسان ہدف تھا۔ دہشتگردوں کے لیے ایسے بے شمار اہداف ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کے ابتدائی دنوں میں ایسے ہی واقعات سامنے آتے تھے۔ کہیں بس پر حملہ کرایا گیا کہیں ایک جگہ موجود چند لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا۔ ایسے واقعات کا مقصد دشمن کی طرف سے پاکستان کو غیر محفوظ ملک باور کرانا ہوتا تھا۔ آج پھر حالات اُسی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے مضمون میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو ہم نے ہوائی اڈے دئیے تو پاکستان میں دہشتگردی بڑھے گی۔ پاکستان کو امریکہ کی جنگ کا حصہ بننے سے شدید نقصان ہوا، 70 ہزار افراد اس جنگ کا ایندھن بنے اور 150 ارب ڈالر کا انفراسٹرکچر تباہ ہوا۔ اس جنگ میں پاکستان کو دفاعی نکتہ نظر سے بھی ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ کامرہ اور مہران ائیر بیسز پر حملے ہوئے۔ پاکستان کے جدید ترین جاسوس طیارے تباہ کر دئیے گئے۔ وزیراعظم نے امریکہ کو اڈے دینے کی صورت میں جن خدشات کا ذکر کیا وہ ابھی سے سر اٹھانے لگے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی کہا ہے کہ افغان پالیسی درست نہ ہوئی تو دہشتگردی بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان مزید دہشتگردی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ امریکہ کو اڈے نہ دینے کے معاملے ہیں قوم یکجہت ہے۔ لاہور میں کل کی دہشتگردی کے محرکات تک پہنچنا لازم ہے۔ ایسے حملے سہولت کاری کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ دہشتگردوں کے سہولت کاروں کے خلاف کڑے اقدامات کی ضرورت ہے۔