مقبوضہ کشمیر سے متعلق سینیٹ کی متفقہ قرارداد
سینیٹ میں بھارت کے غیرقانونی قبضے والے کشمیر کی خصوصی حیثیت میں تبدیلی فوری واپس لینے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لئے متفقہ قرارداد منظور ہوئی جس میں بھارت سے کشمیر پر ناجائز تسلط کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ بھارت کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حق خودارادیت دے اور کشمیر کی آئینی حیثیت کو 5 اگست 2019ء سے پہلے کی حالت پر بحال کرے۔ بھارت زیر حراست تمام سیاسی قیدی فوری رہا کرے اور مقبوضہ کشمیر میں اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کی کوششیں فوری ترک کرے۔ ظلم و جبر کے خلاف کشمیریوں کی باہمت جدوجہد اور قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ سینٹ کا اجلاس چیئرمین سینٹ محمد صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا جس میں قائد ایوان سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ پاکستان بھارت سے اس وقت تک کوئی بات نہیں کرے گا جب تک وہ کشمیر کی 5 اگست سے پہلے والی حیثیت بحال نہیں کرتا۔ سینیٹر رضاربانی کا کہنا تھا کہ جب تک امریکا بھارت کو خطے کا پولیس مین بنانے کی کوشش کرتا رہے گا اس وقت تک اس خطے میں دفاع کے لیے جوہری ہتھیاروں کی ضرورت محسوس کی جاتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام ختم نہیں کیا جا سکتا۔
بھارت نے گزشتہ 690 روز سے مقبوضہ وادی میں کرفیو لگا کر مظلوم کشمیریوں کے بنیادی حقوق بھی سلب کررکھے ہیں اس سلسلے میں بین الاقوامی برادری کا عملی طور پر کچھ نہ کرنا اور کرفیو ہٹانے کے لیے بھارت پر دباؤ نہ ڈالنا عالمی بے حسی اور بے ضمیری کا ثبوت ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ اس حوالے سے اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور اسلامی تعاون تنظیم سمیت مختلف بین الاقوامی اور عالمی پلیٹ فارموں پر لابنگ کے ذریعے بین الاقوامی برادری کو احساس دلائے کہ جب تک بھارت جموں و کشمیر پر اپنا غیر قانونی قبضہ ختم کر کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں دیتا تب تک خطے میں امن و امان قائم نہیں ہوسکتا۔