ابو کی الارم کلاک۔۔۔
مجھے اچھا نہیں لگتا تھا جب ابو سکول جانے کے لئے سات بجے ہی اٹھا دیتے تھے ۔۔۔۔امتحان کے لئے الارم لگانے کی تاکید کرتے تھے ۔۔کالج کی آخری کلاس تک وقت کی پابندی کا احساس دلاتے تھے ۔۔۔۔آج میں نہ جانے کس کام سے ابو کے کمرے کی جانب چلا گیا تھا۔۔۔وہاں کسی بیل کی آواز آ رہی تھی۔۔میں اندر چلا گیا۔۔وہ ابو کا فون تھا۔۔۔اور اس میں الارم بج رہا تھا۔۔میں حیران ہوا۔۔ابو بھی الارم لگاتے ہیں؟ بند کرنے کی غرض سے اٹھایا تو اپنا نام دیکھ کر چونک گیا۔۔ابو نے میرے نام کے کتنے ہی reminder لگائے ہوئے تھے ۔۔کتنی تاریخیں محفوظ کی ہوئی تھیں۔۔جس دن مجھے پروفیسر سے انعام ملا تھا۔۔جس دن میں نے اپنی پسند کا گٹار لیا تھا۔۔۔۔۔میرے فارم کی آخری تاریخ کا reminder , میری اکیڈمی کے سیشن کی تفصیلات ۔۔ میری سالگرہ ۔۔میرے بیرون ملک جانے کے ممکنہ دن ۔اس دن مجھے احساس ہوا ۔۔والدین جس دن ہمیں سات بجے اٹھنے کا کہتے ہیں۔۔وہ خود پانچ بجے سے جاگ رہے ہوتے ہیں۔۔جس دن ہمیں دس قدم چلنے کا کہتے ہیں۔۔خود سو قدم کی مسافت طے کر کے آئے ہوتے ہیں۔۔ہمیں کبھی ان کا سفر ۔۔ان کی محنت نظر نہیں آتی۔۔ہمیں لگتا ہے کہ ہم سیڑھی چڑھ رہے ہیں لیکن وہ ہمیں لفٹ کی طرح اوپر اٹھا دیتے ہیں۔۔
میں نے ابو کی الارم کلاک کو دیکھا۔۔اس میں روزانہ پانچ بجے کا الارم سیٹ ہے ۔۔مجھے معلوم ہے کہ میرا رات کو آدھا کھلا بیگ۔۔ بکھرے کاغذ ۔۔کھلا قلم مجھے روزانہ صبح اپنی جگہ پر قرینے سے ملیں گے ۔۔اور مجھے کبھی احساس بھی نہیں ہو گا کہ میری بروقت کامیابی میں والدین کی اس بے وقت مشقت کا کتنا دخل ہے ۔۔کہ انہوں نے میرا بے پروائی سے رات کو کھلا چھوڑ دیا قلم صبح ہونے تک کبھی خشک ہونے نہیں دیا۔۔۔