بھارتی جارحانہ عزائم کا تسلسل۔ پاکستان کے آدھے سفارتی عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم۔ پاکستان کا بھی ایسا ہی جوابی اقدام
بھارت کی مودی سرکار نے ایک بار پھر روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئی دہلی میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن کے پچاس فیصد عملے کو بھارت چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ اس سلسلہ میں بھارت نے سفارتی آداب بھی فراموش کر دیئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اسلام آباد میں دو بھارتی اہلکاروں کی حراست کے بعد طیش میں آکر اٹھایا گیا۔ ان بھارتی اہلکاروں کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ تیز رفتار کے ساتھ گاڑی چلاتے ہوئے ایک راہگیر پاکستانی شہری کو کچل کر فرار ہورہے تھے جبکہ دوران حراست انکے قبضہ سے جعلی کرنسی بھی برآمد ہوئی۔ پولیس نے ان دونوں بھارتی اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج کرکے مزید کارروائی شروع کی تاہم بعدازاں سفارتی استثنیٰ کی وجہ سے انہیں رہا کرکے بھارت بھجوا دیا گیا۔ پاکستان کے اس نرم رویے اور سفارتی استثنیٰ کی پاسداری کے باوجود بھارت نے پاکستانی ہائی کمیشن کے پچاس فیصلہ عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا جس پر پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے پچاس فیصد سفارتی عملے کو سات روز کے اندر اندر پاکستان چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ اس سلسلہ میں دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں بھارت کی وزارت امور خارجہ کا بیان بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ یہ بھارت کا محض ایک بہانہ ہے تاکہ وہ اسکی آڑ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے عملہ میں پچاس فیصد کمی کرے۔ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کے سفارتی عملے نے ہمیشہ عالمی قوانین اور سفارتی آداب کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیئے ہیں۔ پاکستان اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے عملے کو ڈرانے دھمکانے کے بھونڈے الزامات بھی مسترد کرتا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے باور کرایا کہ بھارتی حکومت کی پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم بھارتی ہائی کمیشن کے اہلکاروں کی غیرقانونی سرگرمیوں پر پردہ نہیں ڈال سکتی۔ بھارت کی تازہ کارروائی درحقیقت بھارت کے زیرقبضہ کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی اور قابض بھارتی افواج کی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں سے توجہ ہٹانے کی مایوسی پر مبنی ایک اور کوشش ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ بھارت کی جنونی مودی سرکار اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر آج پاکستان ہی نہیں چین کی خودمختاری میں بھی اپنے شرارتی ذہن کے تحت دخل درمعقولات کررہی ہے اور اس طرح وہ پورے خطے اور تمام اقوام عالم کا امن و سلامتی دائو پر لگا رہی ہے۔ پاکستان اس حوالے سے عالمی برادری کو مسلسل آگاہ کرتا رہا ہے کہ بی جے پی کی مودی سرکار کے غیرذمہ دارانہ اقدامات سے خطے کے امن و سلامتی کیلئے خطرات بڑھ رہے ہیں اس لئے عالمی قیادتوں اور اداروں کو بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھنے کیلئے مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ بے شک پاکستان امن کا داعی ہے اور خطے میں قیام امن کیلئے متعلقہ علاقائی اور عالمی فورمز پر کردار بھی ادا کرتا ہے مگر اسکی امن کی خواہش کو اسکی کمزوری سے بہرصورت تعبیر نہیں کرنا چاہیے۔ مودی سرکار تو اپنی اندھی طاقت کے زعم میں بدمست ہاتھی کی طرح سب کچھ تہس نہس کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ اگر بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اسی طرح برقرار رہے اور وہ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی منصوبہ بندی میں مگن رہا تو پاکستان اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے بھارت کو 27 فروری سے بھی تگڑا جواب دینے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ عالمی قیادتوں اور اداروں کو یقیناً اس کا بخوبی ادراک ہوگا کہ دو ایٹمی ممالک میں باقاعدہ جنگ کی نوبت آئی تو پورے کرۂ ارض پر اسکے کتنے مضر اثرات مرتب ہونگے۔ اسکے باوجود اقوام عالم کی جانب سے بھارتی عزائم کو بھانپ کر بھی مسلسل مصلحت کیشی سے کام لیا جارہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے علاوہ کنٹرول لائن پر مسلسل جاری رکھی گئی اسکی اشتعال انگیزی پر بھی محض زبانی جمع خرچ والی مذمتوں اور رسمی قراردادوں کی منظوری کے سوا کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا جس سے بھارتی حوصلے مزید بلند ہوئے اور اس نے خود کو علاقے کا تھانیدار سمجھتے ہوئے خطے کے چھوٹے ممالک نیپال‘ بھوٹان اور بنگلہ دیش کے علاوہ چین کے ساتھ بھی چھیڑچھاڑ کا سلسلہ شروع کر دیا اور لداخ سے ملحقہ چین کے علاقہ پر کشمیر کی طرح تسلط جمانے کے اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کیلئے لداخ میں چین کی سرحد کے قریب فوجی نقل و حمل بڑھا دی چنانچہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے بھارتی سورمائوں کی لداخ کے اندر جا کر وہ ٹھکائی کی کہ انہیں عملاً چھٹی کا دودھ یاد آگیا۔ مودی سرکار کے ہوش پھر بھی ٹھکانے نہ آئے اور بھارتی فوجوں نے چینی فوج کو اشتعال دلانے کا سلسلہ جاری رکھا جس پر چین کی فوج نے پھر بھارتی فوج کا وہ حشر کیا کہ مودی سرکار اب خفت میں دنیا کو اسکی داستان سنانے کی بھی پوزیشن میں نہیں رہی۔
یہ حقیقت ہے کہ جب لاتوں کے بھوت باتوں سے نہ مانیں تو انکے ساتھ وہی سلوک کیا جانا چاہیے جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ چین نے بلاشبہ بھارت کے معاملہ میں یہی پالیسی اختیار کی جس پر پھنکارے مارتے بھارت کو اب سانپ سونگھ چکا ہے۔ ہمارے ساتھ توبھارت نے قیام پاکستان کے وقت سے ہی چھیڑچھاڑ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس نے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ اسے سانحۂ سقوط ڈھاکہ سے بھی دوچار کیا ہے اور اب وہ باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی مسلسل درپے ہے اور اس کیلئے کوئی نہ کوئی جواز نکالنے کی کوششوں میں ہمہ وقت مگن رہتا ہے۔ پلوامہ حملہ اور بھارت میں ہونیوالی دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا ملبہ بلاتحقیق پاکستان پر ڈالنا اسی بھارتی سازش کی کڑی ہے۔ ہم بے شک امن کے خواہاں ہیں مگر بھارتی جنونیت کا وہی علاج کارگر ہے جو چین نے کیا ہے۔ بھارت گزشتہ دو ماہ سے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کے ساتھ ساتھ ہائی کمشنر اور انکے اہل خانہ کو بھی ہراساں کرنے میں مصروف ہے۔ دو سفارتی ارکان کو اغواء کرکے انہیں بھارت چھوڑنے کا بھی حکم دے چکا ہے جبکہ مودی سرکار کی رعونت پر مبنی اسی سوچ کے تابع اسلام آباد میں تعینات بھارتی سفارتی اہلکار بھی خود کو بدمست ہاتھی ہی سمجھتے ہیں۔ یقیناً اسی برتری والی سوچ کے تحت دو بھارتی اہلکاروں نے پاکستانی شہری کو اپنی گاڑی سے کچلتے ہوئے بھی کوئی خوف محسوس نہ کیا۔ پھر بھی پاکستان نے جنیوا کنونشن کی پاسداری کرتے ہوئے ان بھارتی اہلکاروں کو رہا کرکے بھارت واپس بھجوا دیا جبکہ پاکستان کی اس نیکی کا جواب بھی بھارت کی جانب سے گیدڑ بھبکیوں اور پاکستانی ہائی کمیشن کے پچاس فیصد سٹاف کو بھارت چھوڑنے کے حکم کی صورت میں ملا۔ یہ بدمست ہاتھی یقیناً اسی سلوک کا مستحق ہے جو چین نے اسکے ساتھ روا رکھا ہے۔ ہمیں بے شک علاقائی اور عالمی امن عزیز ہے مگر بھارت شرارتوں سے باز ہی نہیں آرہا تو اس کا ہاتھ مروڑ کر اسے سبق سکھانا ضروری ہوجاتا ہے۔ ہمیں بھارت کے معاملہ میں اب ’’جیسے کو تیسا‘‘ والی پالیسی پر کاربند ہونا ہوگا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024