ڈکٹروں نے خود دیکھ لیا کہ ہمارا صحت کا نظام کرم خوردہ اور زمین بوس ہو چکا۔ انہیں اس نظام کے نقائص کا بھی بخونی علم ہو چکاا ور ان کے ذہن میں وہ ممکنہ تدابیر بھی ہوں گی جن کی مدد سے ہم اس نظام کی چولیں درست کر سکیں۔ میرے دل میں ڈاکٹروں کے لئے نیک جذبات اور انتہائی احترام ہے۔ انہیں مسیحا ایسے ہی نہیں کہا جاتا۔ مارچ کے وسط میں مجھے ڈیفنس کے ایک نجی ہسپتال میں جانا پڑا۔ تب لاک ڈائون ابھی نہ تھا مگر کرونا کاشور بہت تھا۔ میںنے دیکھا کہ ہر ڈاکٹر خوف زدہ ہے۔ کسی کے منہ پہ ماسک نہ تھا، کسی کو دستانے تک میسر نہ تھے اور حفاظتی لباس کا تو شاید تب تصور ہی نہ تھا۔ ان ڈاکٹروں کی ایک ہی کوشش تھی کہ مریض کو جلدی چلتا کریں۔تب میںنے کرونا پر نہیں مگر ہسپتالوں کے فرنٹ مورچوں میں لڑنے والوں اور کرونا کے خلاف پالیسی ساز سرکاری ملازمین کے لئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے رسک فیکٹر کے پیش نظر ان کی تنخواہیں دگنی کی جائیں،بعد میں جب کئی ڈاکٹر موت کے منہ میں چلے گئے تو میںنے ایک اور مطالبہ کیا کہ دنیا کے تمام ممالک فرنٹ لائن سولجرز کی دلیری پر بڑے میڈل اور مراعات دیتے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے شہید اور بیمار ڈاکٹروں کے لیے میڈل اور مراعات کا اعلان کرنا چاہئے۔
پاکستان بنا تو میو ہسپتال کے چیسٹ وارڈ کے پہلے سر براہ ڈاکٹر عبدا لعزیز تھے ۔ریٹائر منٹ کے بعد انہوںنے گھر میں کلینک چلایا ، وہاں زیادہ تر ٹی بی کے مریض آتے تھے یا دمے وغیرہ کے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہر کسی کا علاج کیا۔ مگر جب وہ خود بڑھاپے کی وجہ سے چیسٹ کے عارضے میں مبتلا ہو ئے تو لواحقین انہیں شیخ زائد ہسپتال لے گئے۔ وہاں ہر ڈاکٹر ان کا شاگرد تھا یا کسی شاگرد کا شاگرد۔ ڈاکٹر عزیز پرائیویٹ علاج کرو ارہے تھے مگر وہی شاگرد جو ان سے پڑھ لکھ کر یہاں متعین ہوئے تھے۔ بھاری فیسیں بھی بٹورتے رہے اور ان کے بار بار بلانے پر ان کو دیکھنے بھی نہیں آتے تھے۔ ایک لحاظ سے انہوںنے سمجھ لیا تھا کہ اب اس مریض کو چلے ہی جانا ہے۔ اس کے لئے کیا سر کھپائی کریں۔
کوئی ایک ہفتہ قبل میو ہسپتال میں موٹر وے پر حادثے کے کئی زخمی لائے گئے ان میں ڈاکٹر آصف محمود جاہ بھی تھے مگر پیشے کے لحاظ سے سی ایس پی افسر۔ اور اعلیٰ عہدے پر فائز اس مریض کا کلاس فیلو ڈاکٹر خالدمسعود گوندل کے ای یونیورسٹی کا وی سی ہے ، وہ خود آپریشن تھیٹر میں سرجری کے دوران موجود رہا۔ انہوںنے انسانیت کا تقاضا نبھایا ۔یہ بڑے نا زک لمحات تھے۔ مریض کی بیٹی بھی ینگ ڈاکٹر ہے۔ پہلے مریض کی ٹانگ کی ہڈی جوڑی گئی۔ پھر پتہ چلا کہ انٹرنل بلیڈنگ سے پیٹ خون سے بھرا ہوا ہے۔ اس پر پیٹ کھول کر خون نکالا گیاا ور ٹوٹی شریانوں کی بڑی احتیاط سے سلائی کی گئی۔
یہ تو اللہ کا فضل ہے کہ مریض کے لئے لاکھوں نہیں کروڑوں ہاتھ دعائوں کے لئے اللہ کے حضور بلند رہے اور تین روز بعد ہی وینٹی لیٹر اتر گیا۔ ان کے لئے دعائیں اب بھی جاری ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جب مریض اللہ کے کرم سے گھر آئے گا تو ایک لمحے کے لئے ضرور سوچے گا کہ اسے ڈاکٹری کا پیشہ ہی اختیار کرنا چا ہئے تھا جو محنت اس نے دن رات دوسرے محکمے کے لئے کی، اور وزیر اعظم عمران خاںنے سب کے سامنے انکی تعریف کی، اس محنت سے وہ ہسپتالوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی صلاحیت سے مالامال تھا۔
اسلام آباد سے پمز کے ایک اعلیٰ انتظامی ڈاکٹر نے ایک ویڈیو وائرل کی کہ اس کی بیٹی شدید کرب میںمبتلا تھی مگر ہسپتال کے تمام وارڈ تالہ بند تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی بیٹی کی جان بچانے کے لئے ہسپتال کے سینیئر ڈاکٹروں سے بار بار اپیل کی مگر کہیںسے کوئی جواب نہ آیا تین لیڈی ڈاکٹروں نے اپنی ذمے داری پر گائنی وارڈ کھلوایاا ور زچہ بچہ کی زندگی بچائی۔
کراچی کے ایک معالج کے آخری لمحات کی آڈیو اور وڈیو وائرل ہوئی کہ جب ان کا کرونا کے مرض کی وجہ سے سانس اکھڑا تو کراچی کے ہسپتالوں کے باہر ایمبولینس ماری ماری پھرتی رہی، کسی ہسپتال کے دروازے کھولنے کی زحمت نہیں کی گئی۔
ڈاکٹر بھی انسان ہیں۔مصیبت یہ ہے کہ ان سے غلطی ہو جائے تو وہ ا چھالی جاتی ہے اور لاکھوں لوگ صحت یاب ہو جاتے ہیں ،ان کاکوئی نام ہی نہیں لیتا۔ اس لحاظ سے میری سوچ منفی نہیں ہے مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ جہاں ڈاکٹر صاحبان اپنے حقوق کے لئے ہڑتالیں کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں۔ او پی ڈی بند کرتے ہیں وہاں وہ خدا را یہ بھی سوچیں کہ کسی وقت انہیں یا ان کے کسی عزیز کو بھی یہاں علاج کے لئے آنا پڑ سکتا ہے ا سلئے وہ ہسپتال کے نظام کی اصلاح کی بھی کوئی فکر کریں۔یہ دیکھیں کہ کیا ہسپتال میں جو ادویات سپلائی کی جارہی ہیں وہ دو نمبری تو نہیں۔ آپریشن تھیئٹر صاف ستھرے اور جراثیم سے پاک ہیں اور مریضوں کو انسان سمجھا جاتا ہے ۔ ہسپتالوں کے وارڈ لواحقین کی وجہ سے طویلے کامنظر تو پیش نہیں کر رہے۔ ضیا شاہد لندن کے ایک ہسپتال میں کئی ماہ زیر علاج رہے۔ ان کی بیگم کو صرف پانچ منٹ کے لئے شام کو ان سے ملنے کی اجازت تھی اور وہ بھی ایک مخصوص لباس میں۔ ہمارے ہاں تو بعض وی وی آئی پی اپنے کمرے کو ڈیرہ بنا لیتے ہیں۔
میری گزارش صرف اتنی ہے کہ ڈاکٹر صاحبان نظام صحت ایسا مثالی بنائیں کہ جیسا علاج وہ اپنے لئے چاہتے ہیں ویسا ہر خاص و عام کو میسر آئے۔اس معاشرے کے ساتھ یہ بہت بڑی نیکی ہو گی۔
٭…٭…٭
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024