چوہدری نثار خان کا بڑا پن اور جنرل الیکشن !
بعض ”من پسند “خبریں دیکھنے والے روزانہ اس اُمید سے ہوتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان آج مسلم لیگ ن کو الوداع کہہ دیں گے اور جلد ہی تحریک انصاف یا کسی اور جماعت میں موجود ہوں گے۔ مگر آفرین ہے چوہدری نثار علی خان پر کہ انہوں نے سخت ترین اختلاف رائے کے باوجود اپنی خاندانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے پارٹی کے ساتھ نہ صرف وابستگی رکھی بلکہ اصولوں پر مبنی سیاست کی اور جہاں جہاں موقع ملا وہاں وہاں انہوں نے منافقت کرنے کے بجائے دو ٹوک اختلافات کا ہر موقع پر اظہار کیا۔ اور اب موجودہ صورتحال کے مطابق نہ تو چوہدری نثار نے ن لیگ کو ٹکٹ جاری کیا اور نہ ہی چوہدری نثار علی خان نے اس حوالے سے درخواست دی۔ البتہ ن لیگ نے چودھری نثارکے مقابلے میں امیدوار کھڑے نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔چوہدری نثارکے لیے پارٹی دروازے کھلے رکھنے کی تجویزشہبازشریف اور سینئر پارٹی رہنماو¿ں نے دی۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہر طرف ان باتوں کو لے کر چرچے ہو رہے ہیں یا کیے جا رہے ہیں کہ چوہدری نثار آخر ن لیگ کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ میرے خیال میں چوہدری نثار کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کو چھوڑ سکیں، اور ویسے بھی جس کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے اُسے وہی کرنا چاہیے جو اُس کے مناسب لگتا ہے۔ میری اس حوالے سے کچھ عرصہ قبل چوہدری نثار سے ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوںنے برملا اس بات کا اظہار کیا تھا کہ میرے لیے یہ بات بہت مشکل ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ انہوں نے زندگی کے 32سال گزاردیے ہوں اوراب تین دہائیوں بعد اُن کے مخالف کیمپ میں کیسے جا بیٹھوں ؟ کہ ہم ایک دوسرے کو ہم گالیاں دیتے رہیں،یہ سیاست نہیں ہوتی، سیاست یہ ہوتی ہے کہ آپ اختلاف رائے رکھیں اور جس پارٹی میں بھی آپ ہوں اُس کی بہتری کے لیے اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں۔
چوہدری نثار کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ کئی برسوں کی ن لیگ کے ساتھ وابستگی میں میرا نواز شریف کے ساتھ کوئی ورکنگ Relationshipنہیں رہا، لیکن میں اپنی خاندانی روایات کو آگے بڑھانا اور نبھانا چاہتا ہوں اور مسلم لیگ ن میں ہی رہ کر اختلاف رائے رکھنا چاہتا ہوں، اور اپنے ضمیر کے مطابق کام بھی کرنا چاہتا ہوں، اور یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اگر آپ لوگوں سے ناراض ہوگئے یا لوگ آپ سے ناراض ہوگئے تو آپ اس جماعت سے اپنا سفر علیحدہ کرلیں۔ بہتر تو یہی ہوتا ہے کہ اگر اگلے بھی آپ کو برداشت کرلیں تو آپ اپنے اختلاف رائے کے ساتھ بھی رہ سکتے ہیں۔
چوہدری نثار علی خان کی ان باتوں سے میرے خیال میں مخالفین اور بلاوجہ پراپیگنڈہ کرنے والوں کو جواب مل گیا ہوگا۔ کہ وہ لوٹا کریسی کو فروغ دینے کے کبھی حق میں نہیں رہے اور پاکستان کی سیاست میںبھی اس کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔اور ہاں یہ بات شاید لوگ بھول رہے ہیں کہ چوہدری نثار کے اس بڑے پن کے جواب میں مسلم لیگ ن کا ایک بڑا گروپ اُن کے ساتھ جو کررہا ہے اُس کے باوجود چوہدری نثار کا وہاں کھڑے رہنا اُن کے حوصلے کو داد دینے کے مترادف ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ یہ سارا کچھ آنے والے وقت میں بھی برداشت کر پائیں گے اور کیا مسلم لیگ ن بھی چوہدری نثار علی خان کے سخت موقف کو اسی طرح برداشت کرتی رہے گی؟کیوں کہ پی ایم ایل این کی تاریخ کو اُٹھا کر اگر دیکھا جائے تو بہت سے رہنماءجن میں غوث علی شاہ ، چوہدری بردران، میاں اظہر ، سردار ذوالفقار علی کھوسہ، میر ظفر اللہ جمالی، میاں طارق محمود جیسے لیگی رہنماءجو ن لیگ چھوڑ کر چلے گئے یہ وہ لوگ ہیں جن کی ن لیگ کے ساتھ وابستگی کے حوالے سے کبھی شک نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن یہ لوگ آج ن لیگ کو برا کہتے ہیں اور ن لیگ والے ان لوگوں کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ن لیگ نے لوگوں کے لیے آگے راستہ نہیں چھوڑا تو وہ مجبوراَاُن سے علیحدہ ہوگئے۔ لیکن چوہدری نثار علی خان کے معاملے میں ن لیگ اس معاملے کو اُس طرح پر لے گئی ہے جہاں سے اُن کے لیے دروازے بند کردیے ہیں۔ لیکن چوہدری نثار علی خان کا یہ بڑا پن ہے کہ انہوں نے آپ کے لیے اپنی کھڑکی کھلی رکھی ہوئی ہے ۔ اورشہباز شریف شاید کھڑکی کھلی رکھنے کا جواب تو نہیں دے پائے کہ اُنہیں ٹکٹ دے دیں لیکن انہوںنے چوہدری نثار کے حلقوں میں اپنا اُمیدوار کھڑا نہ کرکے اُس کھڑکی کی ہوا کو محسوس کرنے کا فیصلہ ضرور کیا ہے۔ اور اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔اور رہی بات مسلم لیگ ن کی ٹکٹوں کی پنجاب میں تقسیم کی تو ن لیگ نے جن ٹکٹوں کا فیصلہ کیا ہے وہ عمومی طور پر جو Availableاُمیدوار اُن کے پاس موجود ہیں اُن کی روشنی میں انہوں نے جو لوگ کھڑے کیے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں مسلم لیگ ن نے اپنے مضبوط اُمیدواروں کو کھڑا کیا ہے۔کیوں کہ مسلم لیگ ن کا پنجاب میں آج بھی ووٹ بنک موجود ہے۔ البتہ یہ ووٹ بنک مضبوط تو نہیں رہا مگر محفوظ ضرور ہے۔ اور توقع ہے کہ شاید مسلم لیگ ن شہباز شریف کی قیادت میں اپنی پارٹی کی اصلاح کرے اور پچھلے دور میں ہوئی غلطیوں پر قابو پائے اور جنرل الیکشن کی تیاری کرے ۔
اگر جنرل الیکشن کی اگر بات کی جائے ،جس کی آج سے انتخابی مہم کا آغاز ہو رہا ہے تو میری ذاتی رائے کے مطابق الیکشن 25جولائی کو نہیں ہورہے۔اور مجھے اس میں سیاسی جماعتوں کا اتحاد اور اتفاق بھی محسوس ہو رہا ہے۔ وجوہات کچھ بھی ہوں مگر سیاسی جماعتیں یہ انکار کرتی رہیں گے کہ الیکشن وقت پر ہونے چاہیئںمگر ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ حیرانگی اس بات پر ہے کہ سیاسی نعرے اور جمہوری نعرے کے طور پر یہ جماعتیں بظاہرآوازیں بلند کر تی رہیں گے کہ انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں مگر پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت جولائی میں الیکشن کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ میں یہ بات اس لیے بھی وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ جس سیاسی شخصیت کے ساتھ بھی آپ ذاتی طور پر مل بیٹھیں، گپ شپ لگائیں ، سیاسی معاملات میں گفت و شنید کریں تویہ لوگ جولائی میں انتخابات کے خلاف ہی گفتگو کرتے ہیں ۔اس کی وجہ رائے شماری، حلقہ بندیاں ، موسم اور بہت سی وجوہات ہیں۔ اسی تناظر میں یہ اس بات کا ہی نتیجہ نظر آتا ہے کہ آج الیکشن میں 30دن رہ گئے ہیں اورابھی تک نہ کسی سیاسی جماعت نے اپنے مکمل اُمیدواروں کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی مکمل انتخابی مہم کا اعلان کر سکی جبکہ کسی کی مکمل تیاری بھی نظر نہیں آرہی ۔رہی بات الیکشن کمیشن کی تو وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر اپنے نئے نئے احکامات جا ری کر رہا ہے اور آج کی تاریخ تک اپنی سمت کا مکمل تعین نہیں کر سکا۔
جنرل الیکشن کے حوالے سے اگر نگران حکومت کی بات کی جائے تو مرکزی و تمام صوبائی نگران حکومتیں اس طرح گمشدہ اقتدار میں ہیں کہ جیسے موجود ہی نہیں ہیںاوریہ اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں بھی مکمل ناکام رہی ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں پاکستان میں اگر واقعی سیاسی جماعت جمہوریت کا احیاءچاہتی ہیں تو انہیں آئندہ انتخابات ایک دوسرے کی موجودگی میں لڑنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اور کئیر ٹیکر حکومتوں کا نظام قطعی طور پر ختم ہوجانا چاہیے اس سلسلے میں ہمارے ازلی دشمن بھارت کے سسٹم کو دیکھ لیں کہ حکومت کا دور ختم ہوتے ہیں تمام اختیارات الیکشن کمیشن کو چلے جاتے ہیں اور مضبوط الیکشن کمیشن ہونے کی وجہ سے وہاںدھاندلی کا کوئی مسئلہ بھی کھڑا نہیں ہوتا۔ یہاں بھی ایسا ہی نظام بنانا چاہیے کہ انتخابات کے وقت تمام نظام الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے اور الیکشن کمیشن اس قدر مضبوط ہو کہ دھاندلی کرنا تو دور کی بات اُس پر ایسا الزام بھی نہ لگ سکے۔ الیکشن کمیشن کاکام ہونا چاہیے کہ وہ فیئر حکومت عوام کے سپرد کرے تاکہ شفاف قیادت پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کرے اور پاکستان معاشی، سیاسی، اخلاقی اور ہر لحاظ سے آگے بڑھتا چلا جائے اور مایوسی کا دور دورہ بالکل ختم ہوجائے ۔ ٭٭