الیکشن18: آصف زرداری سے نیلم جبار تک!
وڈیروں، نوابوں، مخدوموں، خانوں اور چوہدریوں کے لئے یہ سیاست شاہراہ حیات ہوگی، ہو سکتا ہے آب حیات ہی ہو، لیکن کسی عام آدمی یا بالخصوص کسی کارکن ، اور پھر خاتون کارکن کے لئے یہ سیاست کسی پرخار پگڈنڈی یا پرپیچ راہ سے کم نہیں!۔۔۔۔ عمریں بیت جاتی ہیں ، کئی نسلیں خرچ ہوجاتی ہیں لیکن بے شمار سیاستدانوں کو منزل نہیں ملتی، کارکنوں کے نعرے ٹوٹی امیدوں کے ساتھ گم شدہ راستوں کی ہواو¿ں میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ اوپر سے یہ سیاسی دوستیاں بھی اس قدر دلفریب و دلآویز ہوتی ہیں کہ، گرگٹ کے رنگ بھی شرما جائیں۔ بعض اوقات منزل ان کے قدم چوم لیتی ہے جو شریک سفر بھی نہیں ہوتے، نہ اختر شماریاں ان کا مقدر ہوتی ہیں اور نہ مسافت کی گھنگھور گھٹائیں و گھپ اندھیرے! مزے کی بات یہ کہ، سیاست میں یہ بھی نہیں ہوتا کہ:
رات بیتی تو گنے آبلے اور پھر سوچا
کون تھا باعث آغاز سفر شام کے بعد
آج الیکشن 18 کی ٹکٹوں کے رولے نگر نگر ہیں۔ کوئی ن لیگ کا ساتھی ن لیگ سے نالاں، کہیں تحریک انصاف والے اپنی پارٹی سے ناراض اور پیپلزپارٹی میں اپنی ٹکٹ ناراضیاں عروج پر ہیں۔ کہیں قصہ نثار علی خان، کہیں تذکرہ بےوفائی فہمیدہ مرزا اور کہیں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے مابین ٹکٹوں کی تقسیم کی سرد جنگ کی بازگشت۔ لیکن ہم نے منتخب کیا آج کی سیاست میں سے وہ موضوع جس میں قیادت کی چشم بینا ہے اور کارکنیت کا پہاڑ سا بلند و بالا حوصلہ:
ہاں، وہ ایک سادہ مزاج خاتون کہ ، نہ جاگیردارانہ پس منظر ، نہ صنعتکارانہ و سرمایہ دارانہ رویہ اور حصہ، ایک محنتی و غیر سیاسی وکیل کی صاحبزادی شیخوپورہ کی گھرگرہستی سے نکلتی ہے اور ٹوبہ ٹیک سنگھ شہر کے سسرالی آنگن میں پہنچ کر سیاسی ڈگر پر چلنے کیلئے مجبور ہوجاتی ہے۔ ضلعی ناظم کا الیکشن مشرف آمریت کے خلاف خم ٹھونک کر لڑتی ہیں اور ق لیگ محض مقتدرہ قوتوں کی مدد سے ایک جواں سال خاتون سے بچ پاتی ہے۔ پھر ایسی طرح ڈلی کہ، روایتی سیاست کے حامل ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے کئی خواتین حلقے کی سیاست میں نیلم جبار کے نقش قدم پر چلیں اور اسمبلیوں تک پہنچیں، روایت میں وہ دم خم آیا کہ، ٹوبہ کی موجودہ ضلعی چیئرپرسن خاتون ہیں۔ خیر، نیلم جبار نے الیکشن 2002 کا صوبائی الیکشن لڑا تو انہی قوتوں نے بڑی مشکل سے نیلم جبار سے فتح چھینی۔ آخر الیکشن 2008 میں ٹوبہ سٹی کی صوبائی نشست پر وہ ناقابل تسخیر ٹھہریں۔ پھر ن لیگ کے ساتھ جب تین سال مخلوط حکومت چلی تو آصف علی زرداری نے انہیں وزارتی قلم دان سونپنے میں اس لئے معاونت کی ، کہ یہ پنجاب سے وہ واحد پی پی پی ایم پی اے خاتون تھیںجو الیکشن میں فتح سے ہمکنار ہو کر پنجاب اسمبلی پہنچیں۔ یہ وہی کوچہ و بازار تھے جہاں سے قاضی غیاث الدین جانباز نے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم پر طویل جدوجہد کی مگر کامیاب نہ ہوسکے، اور آخر کار پیپلزپارٹی سے کنارہ کشی کرلی ، غالبا آج کل ان کا خاندان پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ الیکشن 2013 میں نیلم چوہدری نے سیاست کو خیرباد کہہ دیا اور ان کے شوہر عامر جبار چوہدری نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تاہم کامیاب نہ ہوسکے، 2015 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد اس سفر کا آغاز ہوتا ہے جو انتہائی کٹھن تھا۔ سرتاج کے بغیر سفید پوشی کا تاج، نام کے ساتھ سابق وزیر کا سابقہ و لاحقہ، روایتی سیاست، شریکا برادری کے دست مبارک میں آئینے، عدت کے ایام، تین بیٹیاں اور ناتواں کاندھے ، یہی نہیں سلسلہ امتحانات ہے کہ نہ کہیں رکتا ہے نہ تھمتا ہے۔ نیلم جبار شوہر کے جہان فانی سے کوچ کرجانے کے بعد کینسر کے مرض کے خلاف جنگ لڑنا شروع کردیتی ہیں، اور اپنی ول پاور سے فاتح قرار پاتی ہیں ( اسے کہتے ہیں جینے کی جرا¿ت )۔ یہ جنگ ابھی جاری ہوتی ہے کہ، پیپلزپارٹی انہیں ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی صدارت سونپ دیتی ہے۔ اس حصول کیلئے ٹوبہ سے لوگوں کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں مگر قدرت کو ان کا ایک اور امتحان مطلوب تھا۔ جب پارٹی نے یہ ذمہ داری سونپی تو اپنے بھی خفا ان سے، اور بےگانے بھی ناخوش۔ ان دنوں عامر جبار کی جو برسی آئی، تو اپنے کہیں دور تک نظر نہ آئے، آہ!
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
چند مخلصین اور پارٹی کا دست شفقت بہرحال سائبان بنا۔ نیلم جبار نے بھی ٹھان لی کہ محنت کا کوئی نعم البدل نہیں، نتیجہ یہ نکلا کہ، آج وہ دور ہوجانے والے بھی پھر دم بھرتے ہیں، اسے کہتے ہیں ہمت اور مدد خدا! سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے اس ٹوبہ ٹیک سنگھ کی آئرن لیڈی کے حوالے سے چند ایک بار بات ہوئی تو انہوں نے ہمیشہ اس کی کھل کر تعریف کی، پی پی قیادت چوہدری منظور، سابق وفاقی وزیر رانا فاروق سعید، قمر زمان کائرہ سے بھی گر کوئی بات ہوئی تو انہوں نے بھی نیلم جبار کی پارٹی خدمات اور استقامت کو سراہا۔ ورنہ ان سات وزرا ءمیں سے ایک آدھ ہی پیپلزپارٹی کے ساتھ ہے ، کوئی تحریک انصاف کو پیارا ہوگیا تو کوئی (ن) لیگ کو۔ نیلم جبار کو بھی آفرز ہوئیں مگر لگتا ہے اس کی جفا اور وفا کی کوئی روحانی نسبت محترمہ بےنظیر بھٹو سے ہے۔ ان کی پارٹی خدمات کا ادراک جب سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ہوا تو پھر انہوں نے بھی فوری جبار ہاو¿س کا دورہ کیا (دیر آید درست آید) جہاں سے کبھی پیپلزپارٹی کا جھنڈا مشکل ترین وقتوں میں بھی نہ اترا۔
اتفاق سے اسی قومی اسمبلی حلقے سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر مملکت جنید انوار چوہدری سے بھی میرے دوستانہ مراسم ہیں وہ اس حلقہ سے دو دفعہ ایم این اے منتخب ہوئے، ان سے قبل ان کے بزرگ کے پاس یہ سیاسی دستار رہی۔ جنید انوار ایک باوقار اور پرخلوص شخصیت کے حامل ہیں۔ ہاں، وہ یاد آیا، 23 نومبر 2015 کے نوائے وقت کالم " ٹوبہ ٹیک سنگھ، سابق وزیر نیلم جبار اور امین فہیم " میں میں نے ٹوبہ کے سیاسی خانوادوں کا ذکر کیا تو گادھی خاندان کا ذکر خیر سپرد قلم کرنا بھول گیا۔ سابق صوبائی وزیر کرنل (ر) ایوب گادھی کا فون آیا۔ بلاشبہ کرنل ایوب بھی ایک عمدہ شخصیت ہیں جن سے صوبائی حلقہ اسی طرح پیار کرتا ہے جیسے قومی حلقہ جنید انوار سے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ، ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی نیلم جبار صاحبہ اور ن لیگی جنید انوار این اے 112 میں مدمقابل بھی ہیں، اور میرا دونوں خانوادوں سے تعلق ہے۔ واضح رہے کہ، این اے 112 سے بھی نیلم جبار ٹکٹ ہولڈر ہے۔
یہ بھی بتاتا چلوں ، جب شعور نہیں تھا میں تب سے سیاست فہمی کی ناکام کوشش میں ہوں ، جب سے واجبی شعور نے آ دستک دی تب کی صحافت سے، اس کھوج میں ہوں کہ، فلور کراسنگ اور وفاداریوں کے تغیر کی انفیکشن قائدانہ وائرس کے سبب ہوتی ہے یا سیاستدانوں کی حرص و ہوس کا بیکٹیریل اٹیک باعث علالت ہے؟ یا پھر نظریاتی آئیوڈین کی کمی ہے۔ نظریہ حق پر نظریہ ضرورت غالب آجاتا ہے؟ جہاں کہیں قیادت کی بالغ نظر اور کارکن کی استقامت کو دیکھتا ہوں تو چند لمحے رک ضرور جاتا ہوں کہ کہیں تو ہے ابھی وفا اور ایفا کی ایک جھلک۔ میرے قلب و ذہن میں خوش فہمی و غلط فہمی کا ایک آمیزہ ہے کہ میں جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے کارکنان کے درد سے کسی حد تک آشنا ہوں۔ یہ درد کبھی درد نہ تھا توانائی تھا! قیادتوں نے یہ چارجڈ انرجی کھو دی ہے۔ میری دوربینی و خوردبینی تحقیق یہ کہتی ہے مسلم لیگ و تحریک انصاف کو تو کوئی اسٹیبلشمنٹ کبھی نہ لکھی تخلیق یا دریافت کرسکتی ہے لیکن پیپلزپارٹی یا جماعت اسلامی کو کسی قسم کی مقتدر قوتیں دریافت کرسکتی ہیں نہ ایجاد !!! یہ دونوں پارٹیاں کبھی اپنی اپنی جگہ پر کارکن کی آنکھوں میں فروزاں امید کی شمعیں تھیں جو بجھ گئیں آخر۔ جو نہ بجھتیں تو اچھا تھا، قومی سیاست میں ایک توازن رہتا اور سسٹم میں ایکوسسٹم بھی۔ تاریخ پاکستان میں جن 4 شخصیات کے عوام پر اہم اثرات مرتب ہوئے ان میں قائداعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، مولانا مودودی اور ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ پانچویں کا ہنوز انتظار ہے! الیکشن 2018 دما دم مست قلندر والا الیکشن نہیں رہا بلکہ منافقت کی سائنس اور اضطراب کا الجبرا بن گیا ہے۔ نہ کہیں دھاندلی کا عنصر ہے نہ کہیں شفافیت نمایاں:
یہ کیسی دھند میں ہم تم سفر آغاز کر بیٹھے
تمہیں آنکھیں نہیں ملتیں ہمیں چہرہ نہیں ملتا
گو پنجاب میں پیپلزپارٹی کے ہاتھوں میں ماضی والا دم ہے نہ وہ آنکھوں میں جنبش، پھر بھی بلاول کو اوکھے سوکھے نام کے ساتھ لگائے "بھٹو" کے لاحقے کی لاج تو رکھنی ہوگی،یانہ لگاتے یہ لاحقہ۔جس طرح بے شمار جاگیرداروں اور وڈیروں کو پنجاب میں فراموش کرکے قومی اسمبلی کی خواتین کی مخصوص نشستوں کی فہرست میں نیلم جبار کی استقامت، جدوجہد، قربانی اور کارکنیت کو مدنظر رکھا گیا ، حنا ربانی کھر کے بعد دوسرے نمبر پر جگہ دی گئی ہے حقیقت میں یہ ، نظریاتی کارکن، عوام، عزم اور سچائی کو جگہ دی گئی۔ اور تسلیم کی گئی اس کی قدر جو پرخار پگڈنڈیوں اور پرپیچ ناہموار راستوں سے گزر کر پارٹی کے ہر ٹارگٹ تک پہنچی۔ آصف علی زرداری سے لوگوں کے لاکھ اختلافات اپنی جگہ مگر ان کے ویژن کو مخالف بھی مانتا ہے، جیت ہار رب کعبہ کے پاس ہے تاہم زرداری صاحب کا یہ فیصلہ اور راجہ پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ، نیر بخاری، چوہدری منظور، رانا فاروق سعید اور فرحت اللہ بابر کی بیک زبان سفارش جیالا ازم کو تقویت بخشنے کی قابل ستائش سعی ہے۔ کیا ن لیگ اور تحریک انصاف کے ہاں بھی خواتین کی مخصوص نشستوں کی ایسی کارکنانہ جھلک ہے؟؟ ورنہ ہنگامہ ہے کیوں برپا؟ مخالف سے بھی سیکھا تو جاسکتا ہے نا۔۔!! ٭٭