دہشت گردوں کے افغانستان سے رابطے
شمالی وزیرستان کے علاقے لدھا کے قریب آپریشن ردالفساد کے تحت کارروائی کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز نے 6 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 2 اہلکار بھی شہید ہو گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گرد افغانستان میں ان لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھے جو انہیں استعمال کر رہے تھے۔
کالعدم تحریک طالبان نے پاکستان کے امیر مولوی فضل اللہ کی ڈرون حملے میں ہلاکت اور افغان حکمرانوں کے پاکستان کی عسکری قیادت سے رابطوں اور دہشت گردوں کے سرحد پار سے حملوں کی روک تھام کی یقین دہانی کے بعد توقع تھی کہ شدت پسندوں کے افغانستان سے رابطے منقطع ہو جائیں گے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ اگر تو افغان حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے مخلص ہے تو پھر اسے اپنی نیک نیتی کا ثبوت دینا ہو گا۔ گزشتہ روز دہشت گردوں کے افغانستان سے رابطوں کا اس طرح پتہ چلا کہ فورسز نے لدھا آپریشن آئی ڈی پی کے بھیس میں دہشت گردوں کی خفیہ اطلاع پر کارروائی کی۔ پاکستان نے گزشتہ 40 سال سے 34، 35 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھا رکھا ہے مگر افسوس کہ ان کے کیمپوں میں ہی ایسے بچھو بھی پل رہے ہیں۔ افغان مہاجرین کی دیکھ بھال پر مامور اداروں کو بھی افغان مہاجرین کے مشتبہ عناصر پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ افغان مہاجرین کی بھاری اکثریت میزبان ملک کے قوانین کا احترام کرتی ہے۔ لیکن دہشت گردی کے چند واقعات کا کھرا افغان مہاجرین کے بعض کیمپوں تک پہنچا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے مسئلے پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے، دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بلاامتیاز عبرتناک سزا دی جاتی ہے، لہٰذا اگر افغان مہاجرین کیمپوں میں بھی سہولت کاروں کا سراغ ملے تو ان سے کوئی رو رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ ماضی میں ایسے واقعات کو مخالف افغان لابی نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے اچھالا، کہ مہاجرین پر تشدد کیا جاتا ہے، انہیں بلاوجہ گرفتار کر لیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ ناقابل برداشت ہے کہ افغان مہاجرین ہر قسم کی سہولتوں اور مراعات سے بھی مستفید ہوتے رہیں اور انہیں پاکستان کے امن اور سلامتی کے دشمنوں کو پالنے کی بھی کھلی چھٹی دے دی جائے اور ان کی گرفت نہ ہو! محض اس بنا پر کہ دشمن لابی کو پاکستان کو بدنام کرنے کا موقعہ ملے گا۔