پچھلے ایک سال سے چوہدری نثار علی خان الیکٹرانک میڈیا کے ’’بے خبر‘‘ افلاطونوں‘‘ اور گوئبلز‘‘ کے ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں جن کی صحافت ’’جمعہ جمعہ‘‘ آٹھ دن پر مشتمل ہے وہ بھی چوہدری نثار علی خان کی سیاست پر ’’طبع آزمائی‘‘ کرتے رہتے ہیں اور دور کی کوڑی لاتے ہیں اور کچھ کو تو مسلم لیگ (ن) میں ’’نثار مخالف‘‘ گروپ نے چوہدری نثار علی خان کے بارے میں ’’بے پر‘‘ کی خبریں اڑانے پر لگا رکھا ہے اور وہ پوری مستعدی سے چوہدری نثار علی خان کی کردار کشی میں مصروف ہیں۔ چوہدری نثار علی خان بھی ’’خود ساختہ‘‘ خبروں اور ان سے منسوب نواز مخالف بے بنیادبیانات کی تردید کرکر کے تھک گئے ہیں بالآخر انہیں ان بیانات کی تردید کرنے کے لئے ایک پریس کانفرنس کرنا پڑی چوہدری نثار علی خان نے اڈیالہ روڈ راولپنڈی میں ’’بند کمرے‘‘ میں حلقہ انتخاب کے بلدیاتی نمائندوں سے ملاقات کی تو یار دوستوں نے چوہدری نثار علی خان کے منہ میں دو ایسے جملے ڈال دئیے جنہوں نے مسلم لیگی حلقوں میں آگ لگا دی۔ چوہدری نثار علی خان سے ایک جملہ منسوب کیا گیا کہ ’’اگر میں نے منہ کھولا تو شریف خاندان منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا‘‘۔ دوسرا یہ کہ ’’پاکستان تحریک انصاف میں 10 خرابیاں ہیں تومسلم لیگ (ن) میں 100ہیں۔‘‘ دراصل یہ بیانات ان لوگوں کے ایما پر الیکٹرانک میڈیا پر چلائے گئے جو چوہدری نثار علی خان اور میاں نواز شریف کے درمیان فاصلے بڑھانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں چو ہدری نثار علی خان جو اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں بہت کم لوگوں سے ملتے ہیں لیکن اپنے حلقے کے ہر ’’کھڑپینچ‘‘ کو ذاتی طور پر جانتے ہیں سیاسی لحاظ سے ان کی مضبوطی نے ہی ان کو مسلسل 8 بار قومی اسمبلی کا رکن منتخب کرایا ہے اورپاکستان کے واحد ناقابل شکست پارلیمنٹیرین بن گئے ۔ چوہدری نثار علی خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ interword ہیں انہوں نے اپنے ’’تنہائی پسند‘‘ ہونے کا بھی اعتراف کیا ہے لیکن جن لوگوں سے انہوں نے رابطہ رکھنا ہوتا ہے وہ سب ان سے رابطے میں ہوتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان عام سیاست دانوں کی طرح ہر وقت پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر رہنے کی بیماری میں بھی مبتلا نہیں لیکن جب وہ پریس کے سامنے ہوتے ہیں تو ان کے گرد اخبارنویسوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں۔ مجھے اس بات کا اعزاز حاصل ہے 34 سالہ رفاقت کے باعث میرا ان سے سب سے زیادہ رابطہ ہے یہی وجہ ہے پورے ملک سے اخبار نویس چوہدری نثار علی خان کے سیاسی عزائم سے آگاہی حاصل کرنے کے بارے میں مجھ سے رابطے میں رہتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مولانا احمدالرحمن کے’’حجرے‘‘ میں چوہدری نثار علی خان سے طویل ملاقات ہوئی۔ سرکاری تعطیلات کی وجہ سے مسجد میں گنتی کے نمازی تھے نماز جمعہ کے بعد چوہدری نثار علی خان نے بیگم کلثوم نواز کی صحت یابی کے لئے خصوصی دعا کروائی ’’حجرے‘‘ میں ہونے والی محدود محفل میں امریکہ میں مقیم صحافی نوید انور چوہدری، برادر اصغر طارق ،محمو دسمیر اورطاہر خلیل بھی موجود تھے چوہدری نثار علی خان نے اپنا دل کھول کر ہم سب کے سامنے رکھ دیا میں نے چوہدری نثار علی خان کو34 سال میں اس حد تک دل گرفتہ نہیں پایا ان کی کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ’’میرا میاں نواز شریف سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں سیاسی اختلاف کا برملا اظہار کیا تو ’’راندہ ء درگاہ‘‘ بنا دیا گیا‘‘۔ نواز شریف اور شہباز شریف کی قیادت کو قبول کیا لیکن مریم نواز کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے سے انکا ر کیا میرا یہ اختلاف ’’ناقابل معافی‘‘ جرم بن گیا انہوں نے میاں شریف سے اپنے جذباتی تعلق کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر وہ آج زندہ ہوتے تو شریف خاندان میں سے کسی کو انہیں پارٹی میں’’کارنر‘‘ کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ انہوں نے دو واقعات سنائے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ میاں شریف چوہدری نثار علی خان سے کس حد تک محبت کرتے تھے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ایک معاملہ خوش اسلوبی سے حل کرا دیا تو میاں شریف اپنے اہل خانہ کے ہمراہ فیض آباد میں میری رہائش گاہ پر آگئے تو میں نے ان سے کہا کہ ’’آپ نے یہ زحمت کیوں کی مجھے حکم دیتے میں خود حاضر ہو جاتا لیکن میاں شریف نے کہا کہ ’’ چوہدری صاحب ! آپ نے جو کچھ کیا اس پر میں خود آکر ہی شکریہ ادا کرسکتا تھا‘‘ انہوں نے دوسرا واقعہ یہ سنایا کہ جب وہ نواز شریف کی جلاوطنی کے ایام میں سرور پیلس جدہ گئے تو جوں ہی میں نے میاں شریف جو وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا تو انہوں نے اس وقت تک مجھے قریب نہیں آنے دیا جب تک وہ اپنے مدد گاروں کی مدد سے وہیل چیئر پر کھڑے نہ ہو گئے اور پھر پرجوش انداز میں مجھے گلے سے لگالیا انہوں نے جس طرح مجھے اپنے گلے سے لگایا اس کی حدت میں آج بھی محسوس کرتاہوں مجھے ان کی محبت آج بھی یاد ہے۔ کاش ! آج میاں شریف زندہ ہوتے تو میرے ساتھ شریف خاندان نے جو سلوک کیا کسی کی جرات نہیں ہوتی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ’’آخر نواز شریف سے آپ کا اختلاف کیا ہے‘‘ تو انہوں نے کہا کہ ’’میں نے کبھی ان کی ذات کے حوالے سے بات نہیں کی میرا ان سے نکتہ نظر کا اختلاف ہے میں نے پارٹی قیادت کو’’فوج اور عدلیہ‘‘ سے تصادم نہ کرنے کا مشورہ دیا جو نواز شریف کے فائدہ میں تھا میرا یہ نکتہ نظر ’’جرم‘‘ بن گیا‘‘۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے چوہدری نثار علی خان سے میری جتنی پرانی رفاقت ہے اسی قدر میں ان کی پالیسیوں اور طرز سیاست کا ’’ناقد‘‘ ہوں چوہدری نثار علی خان کا میاں نواز شریف سے 33 سال میں ’’ڈیول ایڈووکیٹ‘‘ کا کردار رہا ہے تو میں بھی چوہدری نثار علی خان کو میاں نواز شریف سے دور کی ہونے راہ میں حائل رہا جب کہ کچھ صورت حال سے لاعلم لوگ مجھے چوہدری نثار علی خان اور میاں نواز شریف کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ میں نے ایک بار چوہدری نثار علی خان کو یہاں تک کہہ دیاکہ ’’آپ نواز شریف کے بغیر کچھ بھی نہیں‘‘ تو انہوں اس بات کا برا منایااور مجھ سے سخت ناراض بھی ہو گئے وہ نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان تعلقات پر قلم اٹھانے پر بھی ناراض ہوتے کیونکہ نواز شریف کے قریب لوگ یہ تاثر دیتے کہ یہ سب کچھ چوہدری نثار علی خان کے ایما پر لکھا جا رہا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بر عکس تھی ۔ چوہدری نثار علی خان نے مجھے کہا کہ ’’جب آپ میرے حلقے میں قدم رکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ وادی سواں، ٹیکسلا اور واہ کے عوام مجھ سے کس حد تک اظہار محبت کرتے ہیں‘‘، سو میں نے ان کی انتخابی مہم کے آغاز میں چکری میں لوگوں کی محبت کی ایک جھلک دیکھ لی۔ انہوں نے چکری میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ جب 1993ء میں کوئی شخص یا ہوٹل مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کا اجلاس منعقد کرنے کے لئے جگہ دینے کو تیار نہیں تھا تو یہ حاجی نواز کھوکھر ہی تھے جن کی رہائش گاہ پر مسلم لیگ ن کا قیام عمل میں لایا گیا ، ہم 15،20 مسلم لیگی اکابرین نے مل کر نواز شریف کو پارٹی کا صدر بنایا نواز شریف ہی اس عہدے کے لئے اکیلے اہل نہیں تھے آج مسلم لیگ(ن) کی تاسیس کے وقت موجودہ پارٹی لیڈروں میں میرے علاوہ کون مسلم لیگ (ن) میں ہے؟ لیکن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں یہ شہ سرخی جمائی گئی ’’ نواز شریف پارٹی قیادت کے اہل نہیں تھے‘‘۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ میڈیا کا ایک حصہ اپنے ایجنڈے کے تحت چوہدری نثار علی خان کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں مصروف ہے اسی طرح چوہدری نثار علی خان نے جب کہا کہ’’ وہ نواز شریف سے اپنے سیاسی اختلاف اور مریم نواز کے کردار کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرنا چاہتے ہیں لیکن بیگم کلثوم نواز کی علات کے باعث اس ایشو کو موخر کر رہے ہیں‘‘ تو کسی نے جلسہ سے ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ لگایا تو انہوں نے نعرے باز کو منفی نعرہ لگانے سے سختی سے روک دیا ۔ اگرچہ چوہدری نثار علی نے دریائے سواں کے دونوں کناروں پر آباد لوگوں کو ’’شملہ‘‘اچا رکھنے اور سیاسی مخالفین کی سیاست کو دریائے سواں میں غرق کرنے کی بات کی ہے تاہم انہوں نے قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 59 اور 63 اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پی پی 10 اور 12 سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑنے کا اعلان اسلام آباد میں میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کیا اور کہا ہے کہ میرے رویے میں کوئی لچک ہے اور نہ ہی کوئی کمزوری ۔ میں اقتدار کی خاطر سیاست کرتا تو لاہور جا کر معافی مانگ لیتا اور تھوکا ہوا چاٹ لیتا لیکن میں نے میاں نواز شریف سے ایشوز پر اختلاف کیا ہے جو کسی بھی جمہوری پارٹی میں ہوتا ہے مسلم لیگ (ن) نے این اے 59 اور 63 کا جو سروے کرایا ہے، اس کے مطابق این اے 59 میں مسلم لیگ ن کے 98 فیصد ووٹرز نے مجھے ووٹ دینے کا عندیہ دیا ہے جبکہ این اے 63 میں مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی سے دو فیصد آگے ہے۔ مخا لف امیدوار کے مقابلے انہیں 13 فیصد کی سبقت حاصل ہے ۔ کل کی بات ہے چوہدری نثار علی خان چک بیلی خان میں جلسہ خطاب کر رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پنجاب کے قومی اسمبلی کے 141میں سے 116حلقوں میں پارٹی ٹکٹ جاری ہونے کی خبر آئی تو مسلم لیگ (ن) نے این اے 59 اور 63 پر چوہدری نثار علی خان کے مقابلے میں کسی امیدوار کو پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا راقم السطور نے چوہدری نثار علی خان سے ٹیلی فون پر پارٹی ٹکٹوں کے اجرا کے بارے میں بات کی تو اس وقت تو وہ صورت حال سے پوری طرح آگاہ نہیں تھے مسلم لیگ(ن) کی طرف سے تاحال چوہدری نثار علی خان کے حلقوں میں پارٹی ٹکٹ جاری نہ کرکے ایک اچھا پیغام دیا ہے ممکن ہے چوہدری نثار علی خان آزاد امیدوار کی حیثیت سے ہی انتخاب لڑیں لیکن اس وقت پارٹی ٹکٹ ان کی’’دہلیز‘‘ پر ہے۔
٭٭٭٭٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024