بھئی اس میں کون سی خبریت اور کون سا سکوپ ہے۔ برطانوی اخبارات نے یقیناً ازراہ تفنن یہ شہہ سرخیاں جمائی ہوں گی کہ ”راجہ رنٹل“ مملکتِ خداداد پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ یہ سکوپ تو جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دینے والے ہمارے صدر مملکت نے خود اپنی پارٹی کی ”برگر فیملی“ کے اجلاس خصوصی میں اپنے خشمگیں چہرے کو زہرِ خند میں ڈبوتے ہوئے نکالا تھا۔ ”یہ سیاست میں میرے ساتھ بدمعاشی کرتے ہیں۔ کیا انہیں میری سیاست کا علم نہیں۔ دیکھو۔ یہ ہے میری سیاست‘ بدمعاشی کرنے والوں کو دوٹوک جواب دینے کیلئے میں نے ”راجہ رنٹل“ کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا ہے“ یہ ایسے کو تیسے والا ڈائیلاگ ادا ہونے کے بعد ایک بھرپور اور جاندار قہقہے کا بھی متقاضی ہے۔ یقیناً اس ڈائیلاگ کے بعد اجلاس میں صدر ذی وقار کی طبیعت قہقہہ بار ہو کر ہی ہشاش بشاش ہوئی ہو گی مگر میڈیا نے احتیاطاً صدر گرامی کی طبیعت کی اس کیفیت کو سامنے لانے سے گریز کیا کہ ادھر تو کسی ”بدمعاشی“ کا جواب پیمرا اور پریس آرڈیننس کے ”ٹوکہ ضوابط“ لا کر دینے کی کوششیں چل رہی ہیں۔ ”راجہ رنٹل“ بہترین انتقام والی جمہوریت کے معیار پر یقیناً پورے اترے ہوں گے۔ اس لئے صدر مملکت نے جمہوریت کے وضع کردہ اپنے فلسفے کو لاگو کرنے کا یہی موقع غنیمت جانا کیونکہ جمہوریت کے ذریعے اپنی پارٹی اور اتحاد کے اندر موجود اپنے حریفوں سے انتقام لینے کا یہی موقع نااہلیت کی سزا پانے والے وزیراعظم گیلانی مرشد اور چودھریوںکے چودھری، وڈّے نِکّے چودھری بھی ہاتھ سے جانے نہ دینے کا عزم باندھے بیٹھے تھے۔
گیلانی مرشد بے شک اپنے صدر ذی وقار کی خاطر پانچ سال کیلئے انتخابی سیاست سے محرومی کی سزا پا کر رنجور نہیں ہوں گے مگر کیا وہ مخدوم شہاب الدین کا گھُٹنا بھی اپنی گردن پر رکھوا لیتے؟ انہوں نے وزیر صحت کی حیثیت سے مرشد گیلانی کے ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات صاحبزادے کو ممنوعہ ایفیڈرین کا کوٹہ الاٹ کیا اور اس کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا جو بیچ چوراہے میں ایسا پھُوٹا کہ مرشد گیلانی کے ملتانی قلعے کے بنکروں کے اندر بھی ہتھکڑیوں کی چھنکار پہنچ گئی۔ یہ جمہوریت کا انتقام ہے تو اس انتقام والی جمہوریت سے وابستہ ہر ”پولیٹیکل اینیمل“ کو انتقام لینے کا حق حاصل ہے۔ گیلانی مرشد نے اٹل اعلان کر دیا تھا کہ وہ جس پر ہاتھ رکھیں گے‘ وہی توہین عدالت کی سزا وار وزارت عظمیٰ کی نشست پر براجمان ہونے کی جسارت کر پائے گا۔ انتقام والی جمہوریت کے فلسفے کے موجد نے تو اس فلسفے کے زور پر مرشد گیلانی سے بھی انتقام لینے کی ٹھان لی تھی اور ان کے اٹل اعلان کو باطل ثابت کرنے کیلئے انہوں نے ترپ کے پتّے کے انداز میں وزیراعظم کیلئے مخدوم شہاب الدین کا نام پوٹلی سے نکال کر مرشد گیلانی کے آگے پھینک دیا۔ وہ تو بھلا ہو راجہ رنٹل پر آنکھ رکھنے والوں کا کہ انہوں نے ایفیڈرین کیس میں عین موقع پر مخدوم شہاب الدین کے وارنٹ گرفتاری کا اہتمام کرا کے جمہوریت کے انتقام کے فلسفے میں مرشد گیلانی کو سرخرو کر دیا ورنہ وہ صدر گرامی کے ہونہار بروا بلاول کی منت سماجت کرتے ہی رہ جاتے اور مخدوم شہاب کی صورت میں آئی بلا ان سے نہ ٹل پاتی۔
اور پھر وَڈّے نِکّے چودھریوں کا انتقام بذریعہ جمہوریت تو بہت کامیاب ٹھہرا ہے۔ انہیں گجرات اور اس کے پڑوس جہلم سے لایا گیا کوئی وزیراعظم خود پر مسلط کرانا بھلا کیسے قبول ہو سکتا تھا۔ انہوں نے کچی گولیاں تھوڑی کھیلی ہوئی ہیں۔ ان کے پاس تو پہلے ہی انتقام بذریعہ جمہوریت کی ٹریننگ میں امتیازی نمبروں سے پاس ہونے کا ”مشرفی سرٹیفیکیٹ“ موجود تھا سو ان کی ایک ہی ٹھبّی میں چودھری خودمختار اور کائرہ کا قمر روشنی دیئے بغیر ہی ڈوب گیا اور راجہ رنٹل سے اپنی اس مشّاقی کی خوب داد سمیٹی۔ یہ ہے جمہوریت کا انتقام اور اب بُری سے بُری جمہوریت کے آمریت کی کسی اچھائی سے بھی اچھا ہونے کی فیوض و برکات والا فلسفہ بھی ملاحظہ فرمایئے۔ شیخ وقاص اکرم جھنگ سے مسلم لیگ (ق) کے منہ پھٹ رکن قومی اسمبلی ہیں۔ اہلِ قاف کے اقتداری اتحادی سیاست کا حصہ بننے کے بعد ان کا منہ پھٹ ہونا تو ضرب المثال بن گیا تھا۔ وہ وزارت لے کر بھی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور مرشد گیلانی کی حکومت کے خاتمہ کے بعد تو وہ کچھ زیادہ ہی ”زبان دراز“ نظر آئے۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اعلان کر رہے تھے کہ اب ہم نے جماعتی سطح پر طے کر لیا ہے کہ لوڈشیڈنگ پر ہم حکومت کا قطعاً ساتھ نہیں دیں گے۔ اب حکومت سازی کیلئے بھی ہمارا پیپلز پارٹی کے ساتھ تعاون مشروط ہو گا۔ وہ نئی حکومت کی تشکیل سے پہلے لوڈشیڈنگ ختم کرے گی تو ہم اس کے نامزد وزیراعظم کو ووٹ دیں گے ورنہ ٹھینگا ہے ٹھینگا۔ سوئے اتفاق‘ لوڈشیڈنگ کے ذمہ دار راجہ رنٹل ہی پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیراعظم نامزد ہو گئے۔ شیخ وقاص اکرم کو تو اپنے قول کے مطابق پوری مسلم لیگ (ق) کو حکومتی اتحادی کشتی سے باہر کھینچ لانا چاہئے تھا مگر انہیں پارٹی قیادت نے پٹی پڑھا دی۔ ”جمہوریت ہے‘ جو بری سے بری ہو تو بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے“ شیخ وقاص اکرم اس فلسفے کے معترف ہوئے اور راجہ رنٹل کے گلے لگ کر بری سے بری جمہوریت کے فروغ کے تانے بانے بُننے لگے اور حضور والا! مخدوم فیصل صالح حیات کا کردار تو اس بری سے بری جمہوریت میں لاثانی رہا ہے۔ وہ وفاقی وزیر تھے اور اپنے ساتھی وزیر راجہ رنٹل کے رنٹل پاور پلانٹس والے گھپلے کو بے نقاب کرنے کیلئے سیدھے سپریم کورٹ جا پہنچے تھے۔ اس معاملے میں شاید وہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے سزاوار نہیں ہو سکتے ہوں گے۔ انہوں نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں راجہ رنٹل کو چیلنج بھی کیا اور جب جمہوریت کے انتقام کی برکت سے یہی راجہ رنٹل وزیراعظم کیلئے نامزد ہو گئے تو مخدوم فیصل کی بڑھکیں دیدنی تھیں۔ ”میں اسے ووٹ دوں گا نہ اس کی کابینہ میں شامل ہوں گا“۔ یقیناً اخلاقیات کا بھی یہی تقاضہ تھا کہ وہ خود بھی اپنے اس اعلان پر قائم رہتے اور اپنی پارٹی قیادت کو بھی قائل کر کے حکومتی اتحاد سے باہر لے آتے۔ مگر حضور والا‘ آمریت سے تو بہرصورت بری سے بری جمہوریت بھی بہتر ہوتی ہے۔ پولنگ کے موقع پر وڈے چودھری انہیں کان سے پکڑ کر راجہ رنٹل کے بیلٹ بکس تک لے آئے سو جمہوریت کا انتقام بھی پورا ہو گیا اور بری سے بری جمہوریت کے آمریت سے بہتر ہونے کا ثبوت بھی فراہم ہو گیا۔
سچے کھرے بزرگ قانون دان و سیاست دان عابد حسن منٹو گذشتہ روز شادی کی ایک تقریب میں فی الواقع زہرِ خند کے ساتھ اہلِ جمہور کو مطعون کر رہے تھے۔ ”آپ اس جمہوریت کو تعویذ بنا کر اپنے گلے میں ڈالے رکھیں گے تو آپ کو راجہ رنٹل وزیراعظم ہی دستیاب ہوں گے۔ اب آپ اس جمہوریت کی جگالی کرتے ہوئے کھایا پیا ہضم کے گلے پھاڑ کر نعرے ماریں۔ یہی تو اس جمہوریت کی فیوض و برکات ہیں کہ یہ بری سے بری ہو تو بھی اچھی سے اچھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے“ عابد حسن منٹو اور ان کی سوچ کے حامل دوسرے ”پولیٹیکل اینیمل“ بھی کیا کریں کہ انہیں آمریت سے بہرصورت گھِن آتی ہے۔ ہمیں جمہوریت عزیز ہے تو پھر اس کے انتقام سے بچنا چہ معنی دارد؟ سو
”پہلے اب راجہ جی جناب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے“
گیلانی مرشد بے شک اپنے صدر ذی وقار کی خاطر پانچ سال کیلئے انتخابی سیاست سے محرومی کی سزا پا کر رنجور نہیں ہوں گے مگر کیا وہ مخدوم شہاب الدین کا گھُٹنا بھی اپنی گردن پر رکھوا لیتے؟ انہوں نے وزیر صحت کی حیثیت سے مرشد گیلانی کے ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات صاحبزادے کو ممنوعہ ایفیڈرین کا کوٹہ الاٹ کیا اور اس کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا جو بیچ چوراہے میں ایسا پھُوٹا کہ مرشد گیلانی کے ملتانی قلعے کے بنکروں کے اندر بھی ہتھکڑیوں کی چھنکار پہنچ گئی۔ یہ جمہوریت کا انتقام ہے تو اس انتقام والی جمہوریت سے وابستہ ہر ”پولیٹیکل اینیمل“ کو انتقام لینے کا حق حاصل ہے۔ گیلانی مرشد نے اٹل اعلان کر دیا تھا کہ وہ جس پر ہاتھ رکھیں گے‘ وہی توہین عدالت کی سزا وار وزارت عظمیٰ کی نشست پر براجمان ہونے کی جسارت کر پائے گا۔ انتقام والی جمہوریت کے فلسفے کے موجد نے تو اس فلسفے کے زور پر مرشد گیلانی سے بھی انتقام لینے کی ٹھان لی تھی اور ان کے اٹل اعلان کو باطل ثابت کرنے کیلئے انہوں نے ترپ کے پتّے کے انداز میں وزیراعظم کیلئے مخدوم شہاب الدین کا نام پوٹلی سے نکال کر مرشد گیلانی کے آگے پھینک دیا۔ وہ تو بھلا ہو راجہ رنٹل پر آنکھ رکھنے والوں کا کہ انہوں نے ایفیڈرین کیس میں عین موقع پر مخدوم شہاب الدین کے وارنٹ گرفتاری کا اہتمام کرا کے جمہوریت کے انتقام کے فلسفے میں مرشد گیلانی کو سرخرو کر دیا ورنہ وہ صدر گرامی کے ہونہار بروا بلاول کی منت سماجت کرتے ہی رہ جاتے اور مخدوم شہاب کی صورت میں آئی بلا ان سے نہ ٹل پاتی۔
اور پھر وَڈّے نِکّے چودھریوں کا انتقام بذریعہ جمہوریت تو بہت کامیاب ٹھہرا ہے۔ انہیں گجرات اور اس کے پڑوس جہلم سے لایا گیا کوئی وزیراعظم خود پر مسلط کرانا بھلا کیسے قبول ہو سکتا تھا۔ انہوں نے کچی گولیاں تھوڑی کھیلی ہوئی ہیں۔ ان کے پاس تو پہلے ہی انتقام بذریعہ جمہوریت کی ٹریننگ میں امتیازی نمبروں سے پاس ہونے کا ”مشرفی سرٹیفیکیٹ“ موجود تھا سو ان کی ایک ہی ٹھبّی میں چودھری خودمختار اور کائرہ کا قمر روشنی دیئے بغیر ہی ڈوب گیا اور راجہ رنٹل سے اپنی اس مشّاقی کی خوب داد سمیٹی۔ یہ ہے جمہوریت کا انتقام اور اب بُری سے بُری جمہوریت کے آمریت کی کسی اچھائی سے بھی اچھا ہونے کی فیوض و برکات والا فلسفہ بھی ملاحظہ فرمایئے۔ شیخ وقاص اکرم جھنگ سے مسلم لیگ (ق) کے منہ پھٹ رکن قومی اسمبلی ہیں۔ اہلِ قاف کے اقتداری اتحادی سیاست کا حصہ بننے کے بعد ان کا منہ پھٹ ہونا تو ضرب المثال بن گیا تھا۔ وہ وزارت لے کر بھی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور مرشد گیلانی کی حکومت کے خاتمہ کے بعد تو وہ کچھ زیادہ ہی ”زبان دراز“ نظر آئے۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اعلان کر رہے تھے کہ اب ہم نے جماعتی سطح پر طے کر لیا ہے کہ لوڈشیڈنگ پر ہم حکومت کا قطعاً ساتھ نہیں دیں گے۔ اب حکومت سازی کیلئے بھی ہمارا پیپلز پارٹی کے ساتھ تعاون مشروط ہو گا۔ وہ نئی حکومت کی تشکیل سے پہلے لوڈشیڈنگ ختم کرے گی تو ہم اس کے نامزد وزیراعظم کو ووٹ دیں گے ورنہ ٹھینگا ہے ٹھینگا۔ سوئے اتفاق‘ لوڈشیڈنگ کے ذمہ دار راجہ رنٹل ہی پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیراعظم نامزد ہو گئے۔ شیخ وقاص اکرم کو تو اپنے قول کے مطابق پوری مسلم لیگ (ق) کو حکومتی اتحادی کشتی سے باہر کھینچ لانا چاہئے تھا مگر انہیں پارٹی قیادت نے پٹی پڑھا دی۔ ”جمہوریت ہے‘ جو بری سے بری ہو تو بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے“ شیخ وقاص اکرم اس فلسفے کے معترف ہوئے اور راجہ رنٹل کے گلے لگ کر بری سے بری جمہوریت کے فروغ کے تانے بانے بُننے لگے اور حضور والا! مخدوم فیصل صالح حیات کا کردار تو اس بری سے بری جمہوریت میں لاثانی رہا ہے۔ وہ وفاقی وزیر تھے اور اپنے ساتھی وزیر راجہ رنٹل کے رنٹل پاور پلانٹس والے گھپلے کو بے نقاب کرنے کیلئے سیدھے سپریم کورٹ جا پہنچے تھے۔ اس معاملے میں شاید وہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے سزاوار نہیں ہو سکتے ہوں گے۔ انہوں نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں راجہ رنٹل کو چیلنج بھی کیا اور جب جمہوریت کے انتقام کی برکت سے یہی راجہ رنٹل وزیراعظم کیلئے نامزد ہو گئے تو مخدوم فیصل کی بڑھکیں دیدنی تھیں۔ ”میں اسے ووٹ دوں گا نہ اس کی کابینہ میں شامل ہوں گا“۔ یقیناً اخلاقیات کا بھی یہی تقاضہ تھا کہ وہ خود بھی اپنے اس اعلان پر قائم رہتے اور اپنی پارٹی قیادت کو بھی قائل کر کے حکومتی اتحاد سے باہر لے آتے۔ مگر حضور والا‘ آمریت سے تو بہرصورت بری سے بری جمہوریت بھی بہتر ہوتی ہے۔ پولنگ کے موقع پر وڈے چودھری انہیں کان سے پکڑ کر راجہ رنٹل کے بیلٹ بکس تک لے آئے سو جمہوریت کا انتقام بھی پورا ہو گیا اور بری سے بری جمہوریت کے آمریت سے بہتر ہونے کا ثبوت بھی فراہم ہو گیا۔
سچے کھرے بزرگ قانون دان و سیاست دان عابد حسن منٹو گذشتہ روز شادی کی ایک تقریب میں فی الواقع زہرِ خند کے ساتھ اہلِ جمہور کو مطعون کر رہے تھے۔ ”آپ اس جمہوریت کو تعویذ بنا کر اپنے گلے میں ڈالے رکھیں گے تو آپ کو راجہ رنٹل وزیراعظم ہی دستیاب ہوں گے۔ اب آپ اس جمہوریت کی جگالی کرتے ہوئے کھایا پیا ہضم کے گلے پھاڑ کر نعرے ماریں۔ یہی تو اس جمہوریت کی فیوض و برکات ہیں کہ یہ بری سے بری ہو تو بھی اچھی سے اچھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے“ عابد حسن منٹو اور ان کی سوچ کے حامل دوسرے ”پولیٹیکل اینیمل“ بھی کیا کریں کہ انہیں آمریت سے بہرصورت گھِن آتی ہے۔ ہمیں جمہوریت عزیز ہے تو پھر اس کے انتقام سے بچنا چہ معنی دارد؟ سو
”پہلے اب راجہ جی جناب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے“