عام انتخابات کا جلد اعلان نہ کیا گیا تو ملک سیاسی افراتفری کا شکار ہو جائے گا: مجید نظامی
کراچی (خبرنگار) پاکستان سے متعلق قائداعظمؒ کے وژن کو عملی جامہ پہنائے بغیر موجودہ بحرانوں سے نجات ممکن نہیں۔ جلد عام انتخابات کا اعلان نہ کیا گیا تو ملک سیاسی افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔ جو عناصر مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر امن کی آشا کے نام پر بھارت سے دوستی کا پرچار کر رہے ہیں‘ وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ جو ملک آپ کے وجود کے در پے ہو‘ اس سے دوستی کیسے ہوسکتی ہے؟ ان خیالات کا اظہار تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن‘ ممتاز صحافی اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین مجید نظامی نے الحدید فاﺅنڈیشن کراچی کے زیر اہتمام میدان صحافت میں ان کے 70سال اور بطور مدیر نوائے وقت 50سال پورے ہونے پر اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب کے موقع پر اپنے پیغام میں کیا۔ مجید نظامی نے تقریب کے منتظمین سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ میں بذات خود تقریب میں شرکت کرنا چاہتا تھا مگر بوجوہ نہ آسکا۔ کراچی شہر قائد کہلاتا ہے اور روزنامہ نوائے وقت دیگر شہروں کی مانند اس شہر سے بھی باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے اس کا دفتر مزار قائدؒ کے بالکل سامنے واقع ہے۔ اس سے اخبار کی اپنے قائد سے قربت کا اندازہ لگائیے۔ ایک وقت تھا کہ کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا لیکن ہمارے دشمنوں کی سازشوں کے باعث آج یہاں ٹارگٹ کلنگ عروج پر ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شہر کے باسیوں کو اپنی پناہ میں رکھے۔ ہمارا دشمن یہ سازش کر رہا ہے‘ ہمیں اپنے اتحاد کے ذریعے اسے ناکام بنانا ہے۔ گزشتہ روز نو منتخب وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ مگر صدر آصف علی زرداری کہہ چکے ہیں کہ نیا وزیراعظم بھی سوئس حکام کو خط نہیں لکھے گا اور شہید بی بی کی قبر کا ٹرائل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُنہوں نے سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلیت کو جمہوریت کی خاطر احتجاجاً قبول کیا ہے اور وہ اس فیصلے پر پارلیمنٹ میں بحث کرائیں گے۔ صدر کی ان باتوں سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ حکمران جماعت اعلیٰ عدلیہ سے مسلسل سینگ پھنسائے رکھے گی‘ چاہے اس کے نتیجے میں جمہوری نظام ہی کیوں نہ داﺅ پر لگ جائے۔ دانش مندی کا تقاضا ہے کہ نو منتخب وزیراعظم راجہ پرویز اشرف عدلیہ سے ٹکراﺅ مول لینے کی بجائے صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ دیں اور صدر اس مشورے کی روشنی میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیں کیونکہ ان دنوں ملک مسائل کے جس گرداب میں گھرا ہوا ہے اس سے بحفاظت نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ازسرنو عوام سے رجوع کیا جائے۔ صدر آصف زرداری کو چاہئے کہ موجودہ سیاسی نظام کو لاحق خطرات سے بچانے کی خاطر قومی اسمبلی فی الفور تحلیل کردیں تاکہ ملک میں پیدا ہونے والا سیاسی طوفان ٹل جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو سیاسی افراتفری میں مزید اضافہ اور اسمبلیوں کی اپنی آئینی میعاد پوری کرنے کا امکان معدوم ہو جائے گا۔ اس وقت ملکی سیاست میں مفاہمت کے نام پر منافقت کا دور دورہ ہے مصلحتوں اور مفادات پر مبنی سیاست زوروں پر ہے۔ قائداعظمؒ کے آزاد پاکستان کے بارے میں جو تصورات تھے‘ ان پر عمل پیرا ہو کر ہم تمام اندرونی و بیرون مسائل سے عہدہ برا ہو سکتے ہیں۔ بابائے قوم ایسے معاشرے کے قیام کے خواہش مند تھے جہاں ہر کسی کو اس کی دہلیز پر انصاف حاصل ہو۔ جہاں غریب سے غریب تر افراد کو بھی ترقی کے مساوی مواقع حاصل ہوں اور جہاں کوئی امیر اپنی دولت کے بل بوتے پر لوگوں کا استحصال نہ کر سکے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم پاکستان کو قائداعظمؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے نظریات و تصورات کے مطابق جدید اسلامی جمہوری فلاحی مملکت بنانے کی منزل سے ابھی تک بہت دور ہیں۔ پاکستان کو اپنی آزادی کے پہلے دن سے ہی ایک ایسے متعصب ہمسائے بھارت سے پالا پڑا ہے جس نے اس کے وجود کو آج تک دل سے تسلیم نہیں کیا۔ وہ اس کے وجود کو نقصان پہنچانے کے لئے مسلسل سازشیں کر رہا ہے۔ جب سے پاکستان ایٹمی طاقت بنا ہے‘ بھارت کے لیے پاکستان کو عسکری لحاظ سے تسخیر کرنا ناممکن ہو گیا ہے اب وہ کشمیر میں پاکستانی دریاﺅں پر 60سے زائد ڈیم تعمیر کرکے ہمارے ملک کو بتدریج ریگستان بنانے کے مذموم منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ ہماری حکومت نے بھارتی چیرہ دستیوں کو نہ روکا تو آئندہ دس پندرہ برسوں میں ہمیں زراعت کے لئے تو دور کی بات‘ پینے کو بھی پانی میسر نہ ہو گا۔ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر پیاسے مر جانے سے بہتر ہے کہ ایک ہی مرتبہ اپنے اس ازلی دشمن سے دو دو ہاتھ کرلیے جائیں۔ قائداعظمؒ نے اسی لئے کشمیر کو پاکستان کو شہ رگ قرار دیا تھا کیونکہ ہمارے سارے دریا کشمیر سے ہو کر ہی پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ قائداعظمؒ کو نوجوانوں سے بڑی توقعات تھیں نوجوان ہی تحریک پاکستان کا ہر اوّل دستہ ثابت ہوئے تھے۔ آج بھی اگر ہم اپنے مستقبل کو محفوظ اور روشن بنانے کے خواہشمند ہیں تو ہمیں اپنی نئی نسل کی بہتر تعلیم و تربیت پر توجہ دینی ہو گی اور اسے پاکستان کی عظمت اور اہمیت سے روشناس کرنا ہو گا۔ ہمیں اسے بتانا ہو گا کہ کسی نے ہمیں یہ ملک طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کیا تھا بلکہ اسے حاصل کرنے کی خاطر ان کے بزرگوں نے ایک عظیم جدوجہد کی تھی اور جان و مال کی بیش بہا قربانیاں پیش کی تھیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ وہ دن دور نہیں جب اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان دین اسلام کی نشاة ثانیہ کا مرکز اور پوری امت مسلمہ کے لیے تقویت کا باعث ثابت ہو گا۔
کراچی (سٹاف رپورٹر) نظریہ پاکستان ٹرسٹ سندھ شاخ کے چیئرمین میاں عبدالمجید نے نوائے وقت گروپ کے ایڈیٹر انچیف اور تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما مجید نظامی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحافت، جمہوریت، اسلام اور پاکستان کےلئے مجید نظامی کی خدمات ناقابل فراموش اور سرمایہ ہیں، مجید نظامی نے حمید نظامی کے مشن کو آگے بڑھایا۔ جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کیا اور اس دوران صدارت سمیت اعلیٰ عہدوں کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ وہ اتوار کو الحدید فاﺅنڈیشن کے زیر اہتمام میدان صحافت میں مجید نظامی کی 70سالہ اور بطور مدیر نوائے وقت 50سالہ خدمات کے اعتراف میں ہونے والی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر نوائے وقت کراچی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر سعید خاور نے سامعین کو مجید نظامی کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ تقریب سے ڈاکٹر محمد شکیل اوج‘ سید ضیاءعباس‘ ڈاکٹر ایس ایم ضمیر‘ شیخ بخش الٰہی‘ صدیق شیخ نے خطاب کیا جبکہ ڈاکٹر نصراللہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ نظامت کے فرائض محمد فہیم خان نے انجام دیئے آخر میں محمد افضل نقشبندی نے دعا کرائی تقریب میں صحافیوں‘ دانشوروں اور عمائدین نے بڑی تعداد میں شرکت کی جن میں نوائے وقت کے سابق ریذیڈنٹ ڈائریکٹر بشیر احمد جھمرہ اور انویسٹمنٹ مارکیٹنگ کے ایڈیٹر ایس بی حسن شامل تھے۔ میاں عبدالمجید نے کہا کہ مجید نظامی کو علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ سے بہت انسیت ہے۔ مجید نظامی کی زندگی پر نظر ڈالتے ہوئے انہوں نے آگاہ کیا کہ وہ 62ءمیں لندن سے بڑے بھائی حمید نظامی کے طلب کرنے پر پاکستان آئے۔ حمید نظامی مرحوم نے طبیعت خراب ہونے کے بعد ان کو بلایا اور جب مجید نظامی پہنچے تو حمید نظامی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ حمید نظامی مرحوم کے بعد ان کے مشن کو مجید نظامی نے آگے بڑھایا۔ مجید نظامی نے ایوب خان‘ ضیاءالحق اور پرویز مشرف کے سامنے کلمہ حق کہا اور نوازشریف کو کمرہ میں بٹھا کر انتظار کرایا۔ بھارت کے سیکرٹری خارجہ پارتھا ساتھی نے کہا تھا پاکستان اور بھارت کی دوستی میں صرف مجید نظامی رکاوٹ ہیں۔ ڈین فیکلٹی آف اسلامک سٹڈیز جامعہ کراچی اور سیرت چیئر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شکیل اوج نے کہا کہ مجید نظامی نے اپنی زندگی پاکستان کےلئے وقف کردی اور زندگی بھر اس نظریہ کی حفاظت کی جوکہ پاکستان کی بنیاد تھا انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کی حفاظت کی ضرورت ہے جس کےلئے قوم کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان کو مجید نظامی جیسی شخصیت کی ضرورت ہے۔ نیشنل پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ضیاءعباس نے کہا کہ پاکستان کے 6ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ مجید نظامی کو جاتا ہے۔ نوائے وقت نے عدلیہ کی بالادستی کےلئے بہت جدوجہد کی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کا کریڈٹ بھی مجید نظامی کو جاتا ہے۔ عوامی تحریک سندھ کے صدر ڈاکٹر ایس ایم ضمیر نے کہا مجید نظامی تحریک کا نام ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس انڈسٹری کی سماجی کمیٹی کے چیئرمین صدیق شیخ نے کہا کہ پاکستان نظریہ کے تحت قائم ہوا اور قائم رہے گا۔ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن شیخ بخش الٰہی نے کہا کہ پاکستان میں موروثی سیاست کو پروان چڑھایا جارہا ہے اور جمہوری اصولوں کو پامال کیا جارہا ہے۔ نوائے وقت‘ حمید نظامی اور مجید نظامی نے پاکستان اور اسلام کی جس قدر خدمت کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ الحدید فاﺅنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر نصر اللہ نے کہا چند سالوں سے ایک سازش کے تحت عوام کے ذہنوں سے نظریہ پاکستان کو نکال کر مادہ پرستی کا زہر بھرا جا رہا ہے۔
کراچی (سٹاف رپورٹر) نظریہ پاکستان ٹرسٹ سندھ شاخ کے چیئرمین میاں عبدالمجید نے نوائے وقت گروپ کے ایڈیٹر انچیف اور تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما مجید نظامی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحافت، جمہوریت، اسلام اور پاکستان کےلئے مجید نظامی کی خدمات ناقابل فراموش اور سرمایہ ہیں، مجید نظامی نے حمید نظامی کے مشن کو آگے بڑھایا۔ جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کیا اور اس دوران صدارت سمیت اعلیٰ عہدوں کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ وہ اتوار کو الحدید فاﺅنڈیشن کے زیر اہتمام میدان صحافت میں مجید نظامی کی 70سالہ اور بطور مدیر نوائے وقت 50سالہ خدمات کے اعتراف میں ہونے والی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر نوائے وقت کراچی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر سعید خاور نے سامعین کو مجید نظامی کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ تقریب سے ڈاکٹر محمد شکیل اوج‘ سید ضیاءعباس‘ ڈاکٹر ایس ایم ضمیر‘ شیخ بخش الٰہی‘ صدیق شیخ نے خطاب کیا جبکہ ڈاکٹر نصراللہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ نظامت کے فرائض محمد فہیم خان نے انجام دیئے آخر میں محمد افضل نقشبندی نے دعا کرائی تقریب میں صحافیوں‘ دانشوروں اور عمائدین نے بڑی تعداد میں شرکت کی جن میں نوائے وقت کے سابق ریذیڈنٹ ڈائریکٹر بشیر احمد جھمرہ اور انویسٹمنٹ مارکیٹنگ کے ایڈیٹر ایس بی حسن شامل تھے۔ میاں عبدالمجید نے کہا کہ مجید نظامی کو علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ سے بہت انسیت ہے۔ مجید نظامی کی زندگی پر نظر ڈالتے ہوئے انہوں نے آگاہ کیا کہ وہ 62ءمیں لندن سے بڑے بھائی حمید نظامی کے طلب کرنے پر پاکستان آئے۔ حمید نظامی مرحوم نے طبیعت خراب ہونے کے بعد ان کو بلایا اور جب مجید نظامی پہنچے تو حمید نظامی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ حمید نظامی مرحوم کے بعد ان کے مشن کو مجید نظامی نے آگے بڑھایا۔ مجید نظامی نے ایوب خان‘ ضیاءالحق اور پرویز مشرف کے سامنے کلمہ حق کہا اور نوازشریف کو کمرہ میں بٹھا کر انتظار کرایا۔ بھارت کے سیکرٹری خارجہ پارتھا ساتھی نے کہا تھا پاکستان اور بھارت کی دوستی میں صرف مجید نظامی رکاوٹ ہیں۔ ڈین فیکلٹی آف اسلامک سٹڈیز جامعہ کراچی اور سیرت چیئر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شکیل اوج نے کہا کہ مجید نظامی نے اپنی زندگی پاکستان کےلئے وقف کردی اور زندگی بھر اس نظریہ کی حفاظت کی جوکہ پاکستان کی بنیاد تھا انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کی حفاظت کی ضرورت ہے جس کےلئے قوم کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان کو مجید نظامی جیسی شخصیت کی ضرورت ہے۔ نیشنل پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ضیاءعباس نے کہا کہ پاکستان کے 6ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ مجید نظامی کو جاتا ہے۔ نوائے وقت نے عدلیہ کی بالادستی کےلئے بہت جدوجہد کی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کا کریڈٹ بھی مجید نظامی کو جاتا ہے۔ عوامی تحریک سندھ کے صدر ڈاکٹر ایس ایم ضمیر نے کہا مجید نظامی تحریک کا نام ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس انڈسٹری کی سماجی کمیٹی کے چیئرمین صدیق شیخ نے کہا کہ پاکستان نظریہ کے تحت قائم ہوا اور قائم رہے گا۔ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن شیخ بخش الٰہی نے کہا کہ پاکستان میں موروثی سیاست کو پروان چڑھایا جارہا ہے اور جمہوری اصولوں کو پامال کیا جارہا ہے۔ نوائے وقت‘ حمید نظامی اور مجید نظامی نے پاکستان اور اسلام کی جس قدر خدمت کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ الحدید فاﺅنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر نصر اللہ نے کہا چند سالوں سے ایک سازش کے تحت عوام کے ذہنوں سے نظریہ پاکستان کو نکال کر مادہ پرستی کا زہر بھرا جا رہا ہے۔