رﺅف طاہر
زوال اور ایسا زوال ۔۔۔۔انحطاط اور ایسا انحطاط؟
اہلِ پاکستان کی قسمت میں یہ بھی لکھا تھا ؟ انہیں یہ دن بھی دیکھنا تھے ؟
راجہ پرویز اشرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیرِ اعظم ہو گئے ۔ڈکٹیٹر مشرف ”روشن خیال اعتدال پسندی“ کے علاوہ ”گراس روٹ لیول ڈیمو کریسی“ کی بات بھی بہت کرتا تھا۔ اس کی سیاسی ضرورت کے تحت مسلم لیگ (ق) وجود میں آئی تو لاہور کے میاں اظہر اس کے بانی صدر قرار پائے ۔ تب کہنے والے نے کہا، ڈیمو کریسی واقعی گراس روٹ لیول تک پہنچ گئی ہے۔ اس سے نچلی کوئی سطح ہو تو بتاو¿؟ ہمیں یہ بات راجہ صاحب کے وزیرِ اعظم بننے پر یاد آئی لیکن ایوانِ صدر سے قربت کے حامل کالم نگار کے بقول ایک اور نام باقی ہے، وہی جعلی ڈگری والے مظفر گڑھ کے جنابِ جمشید دستی ۔تو ابھی ڈھلوان کاسفر مکمل نہیں ہوا ، زوال کا آخری زینہ باقی ہے۔
عام انتخابات اب ایک بازو کے فاصلے پر ہیں ۔تین ، چار سال تک عوام کا خون چوسنے والے حکمران بھی الیکشن کے سال میں ایسا بجٹ لانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں عوام کو کچھ سکھ کا سانس ملے ۔2012-13 کے بجٹ میں ایسا کوئی اہتمام نظر نہیں آتا ۔جنابِ زرداری گیلانی صاحب کی رخصتی کو پیپلز پارٹی کے لئے نعمت غیر مترقبہ بنا سکتے تھے۔گیلانی صاحب کی جگہ وہ اپنی حکومت کو نسبتاً صاف ستھرا چہرہ دے دیتے ۔
گزشتہ سوا چار سال پاکستان کی تاریخ کے بدترین سال تھے ۔بری حکمرانی ، اقربا پروری ، بدعنوانی کے میگا سکینڈل، مہنگائی ، بیروزگاری ، بد امنی، ریلوے ، پی آئی اے اور سٹیل ملز سمیت بیشتر قومی اداروں کی تباہی ، عدلیہ کی حکم عدولی ، پارلیمنٹ کی بے توقیری ، معیشت کی بربادی ، عالمی سطح پر تنہائی ، امریکی ڈرونز کے ہاتھوں پاکستان کی قومی خودمختاری کی پامالی ، الغرض ناکامیوں اور نامرادیوں کی طویل فہرست ہے جو ان چار برسوں میں ہمارے مقدر میں لکھی گئی تھی۔ اگرچہ اس سب کچھ کے ذمہ دار تنہا یوسف رضا گیلانی نہیں تھے، جنابِ زرداری کو بھی اس میں بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔بعض ستم ظریف تو اصل ذمہ دار بھی انہی کو قرار دیتے ہیں۔توہینِ عدالت کے معاملے میں ، جس جرم میں گیلانی صاحب نا اہل قرار پائے ، فساد کی جڑ ایوانِ صدر کے علاوہ کہاں تھی ؟ لیکن حکومت کا چہرہ تو گیلانی صاحب ہی تھے جن کے حکومتی رفقا پر ہی کرپشن کے الزامات نہیں تھے بلکہ وہ خود بھی ان الزامات میں شرابور تھے ۔ان کے اہلِ خانہ اور دیگر عزیز و اقارب سے بھی کرپشن کی کتنی ہی کہانیاں آئے روز منسوب ہوتیں ۔تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوتے ہوئے وہ اس میں سے بیشتر بوجھ اپنے ساتھ ہی لے جاتے لیکن زرداری صاحب نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایابلکہ یوں لگتا ہے کہ انہوں نے اسے جمہوریت کے نام پر پاکستان کے 18کروڑ عوام سے انتقام لینے کا ایک اور موقع جانا۔عوام سے ہی نہیں ، عدلیہ سے بھی۔ عین اس موقع پر جب خلقِ خدا لوڈ شیڈنگ کے بدترین عذاب سے دو چار ہے انہوں نے ”راجہ رینٹل “کو وزیرِ اعظم بنا دیا۔۔۔۔اسے کہتے ہیں ”ہور چوپو“۔وزیرِ پانی و بجلی کے طور پر جن کی ناکامی اور نااہلی لوڈشیڈنگ کے موجودہ عذاب کا سب سے بڑا سبب تھی اور پھر رینٹل پاور پراجیکٹس میں اربوں کی کرپشن جس پر سپریم کورٹ نے جن ہستیوں کے خلاف تحقیقات اور سخت کاروائی کا حکم دیا ،ان میں جناب راجہ پرویز اشرف بھی تھے۔بلکہ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ سپریم کورٹ نے ان سب کا نام ECL پر ڈالنے کا حکم بھی جاری کیا تھاتو کیا ہمارے نو منتخب وزریرِ اعظم غیر ملکی دوروں کے لئے سپریم کورٹ سے خصوصی اجازت لیں گے یا جنابِ اعتزاز احسن جیسے شہ دماغ اس حوالے سے وزیرِ اعظم کے لئے بھی کوئی آئینی استثنیٰ ڈھونڈ نکالیں گے ؟
زرداری صاحب کے علاوہ یہ ان کے اتحادیوں کے لئے بھی اپنے تین، چار سالہ سیاسی گناہوں کے کفارے کا ایک اچھا موقع تھا ۔ نواز شریف نے اکتوبر کے پہلے ہفتے دانشورانِ لاہور سے ملاقات میں اِن ہاﺅس تبدیلی کے لئے حکومتی اتحادیوں کو پیش کش کی تھی کہ وہ اپنا امیدوار لائیں ، مسلم لیگ (ن) اسے سپورٹ کرے گی ۔نواز شریف کی طرف سے چار نکات (سوئس حکام کو خط لکھنے اور عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کی ضمانت ، اتفاق رائے کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر اور نگران وزیرِ اعظم کا تقرراور اکتوبر میں انتخابات )کے ساتھ یہ پیشکش اب بھی موجود تھی لیکن اتحادیوں کے لئے بھی شاید توبہ کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔
کیا سپریم کورٹ نئے وزیرِاعظم کو بھی وہی حکم دے گی جس کی خلاف ورزی پر جنابِ گیلانی نااہل قرار پائے اور گوجر خان کے راجہ صاحب بھی ملتان کے مخدوم کی پیروی کرتے ہوئے انہی کے انجام سے دو چار ہوں گے اور پاکستانی قوم کے مقدر میں راجہ اشرف کے بعد جمشید دستی کی وزارتِ عظمٰی لکھ دی جائے گی ؟ ایک خیال یہ بھی ہے کہ جنابِ زرداری سپریم کورٹ سے نمٹنے کے لئے نئی حکمتِ عملی پر غور کر رہے ہیں ۔سپریم کورٹ کی حکم عدولی کر کے نا اہل قرار پانے کی بجائے وزارتِ عظمٰی سے استعفے کی حکمت ِ عملی اور اس کے بعد پھر وزیرِ اعظم کا نیا انتخاب اور یوں نئے عام انتخابات تک چور سپاہی یا آنکھ مچولی کا کھیل لیکن کیا بدترین داخلی اور خارجی بحران سے دو چار پاکستان اس کھیل کا متحمل ہو سکتا ہے؟سلامتی کا راستہ ایک ہی ہے، پاکستان کے لئے بھی اور پیپلز پارٹی سمیت ملک کی سیاسی قوتوں کے لئے بھی ۔۔۔۔۔حقیقی معنوں میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات۔
زوال اور ایسا زوال ۔۔۔۔انحطاط اور ایسا انحطاط؟
اہلِ پاکستان کی قسمت میں یہ بھی لکھا تھا ؟ انہیں یہ دن بھی دیکھنا تھے ؟
راجہ پرویز اشرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیرِ اعظم ہو گئے ۔ڈکٹیٹر مشرف ”روشن خیال اعتدال پسندی“ کے علاوہ ”گراس روٹ لیول ڈیمو کریسی“ کی بات بھی بہت کرتا تھا۔ اس کی سیاسی ضرورت کے تحت مسلم لیگ (ق) وجود میں آئی تو لاہور کے میاں اظہر اس کے بانی صدر قرار پائے ۔ تب کہنے والے نے کہا، ڈیمو کریسی واقعی گراس روٹ لیول تک پہنچ گئی ہے۔ اس سے نچلی کوئی سطح ہو تو بتاو¿؟ ہمیں یہ بات راجہ صاحب کے وزیرِ اعظم بننے پر یاد آئی لیکن ایوانِ صدر سے قربت کے حامل کالم نگار کے بقول ایک اور نام باقی ہے، وہی جعلی ڈگری والے مظفر گڑھ کے جنابِ جمشید دستی ۔تو ابھی ڈھلوان کاسفر مکمل نہیں ہوا ، زوال کا آخری زینہ باقی ہے۔
عام انتخابات اب ایک بازو کے فاصلے پر ہیں ۔تین ، چار سال تک عوام کا خون چوسنے والے حکمران بھی الیکشن کے سال میں ایسا بجٹ لانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں عوام کو کچھ سکھ کا سانس ملے ۔2012-13 کے بجٹ میں ایسا کوئی اہتمام نظر نہیں آتا ۔جنابِ زرداری گیلانی صاحب کی رخصتی کو پیپلز پارٹی کے لئے نعمت غیر مترقبہ بنا سکتے تھے۔گیلانی صاحب کی جگہ وہ اپنی حکومت کو نسبتاً صاف ستھرا چہرہ دے دیتے ۔
گزشتہ سوا چار سال پاکستان کی تاریخ کے بدترین سال تھے ۔بری حکمرانی ، اقربا پروری ، بدعنوانی کے میگا سکینڈل، مہنگائی ، بیروزگاری ، بد امنی، ریلوے ، پی آئی اے اور سٹیل ملز سمیت بیشتر قومی اداروں کی تباہی ، عدلیہ کی حکم عدولی ، پارلیمنٹ کی بے توقیری ، معیشت کی بربادی ، عالمی سطح پر تنہائی ، امریکی ڈرونز کے ہاتھوں پاکستان کی قومی خودمختاری کی پامالی ، الغرض ناکامیوں اور نامرادیوں کی طویل فہرست ہے جو ان چار برسوں میں ہمارے مقدر میں لکھی گئی تھی۔ اگرچہ اس سب کچھ کے ذمہ دار تنہا یوسف رضا گیلانی نہیں تھے، جنابِ زرداری کو بھی اس میں بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔بعض ستم ظریف تو اصل ذمہ دار بھی انہی کو قرار دیتے ہیں۔توہینِ عدالت کے معاملے میں ، جس جرم میں گیلانی صاحب نا اہل قرار پائے ، فساد کی جڑ ایوانِ صدر کے علاوہ کہاں تھی ؟ لیکن حکومت کا چہرہ تو گیلانی صاحب ہی تھے جن کے حکومتی رفقا پر ہی کرپشن کے الزامات نہیں تھے بلکہ وہ خود بھی ان الزامات میں شرابور تھے ۔ان کے اہلِ خانہ اور دیگر عزیز و اقارب سے بھی کرپشن کی کتنی ہی کہانیاں آئے روز منسوب ہوتیں ۔تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوتے ہوئے وہ اس میں سے بیشتر بوجھ اپنے ساتھ ہی لے جاتے لیکن زرداری صاحب نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایابلکہ یوں لگتا ہے کہ انہوں نے اسے جمہوریت کے نام پر پاکستان کے 18کروڑ عوام سے انتقام لینے کا ایک اور موقع جانا۔عوام سے ہی نہیں ، عدلیہ سے بھی۔ عین اس موقع پر جب خلقِ خدا لوڈ شیڈنگ کے بدترین عذاب سے دو چار ہے انہوں نے ”راجہ رینٹل “کو وزیرِ اعظم بنا دیا۔۔۔۔اسے کہتے ہیں ”ہور چوپو“۔وزیرِ پانی و بجلی کے طور پر جن کی ناکامی اور نااہلی لوڈشیڈنگ کے موجودہ عذاب کا سب سے بڑا سبب تھی اور پھر رینٹل پاور پراجیکٹس میں اربوں کی کرپشن جس پر سپریم کورٹ نے جن ہستیوں کے خلاف تحقیقات اور سخت کاروائی کا حکم دیا ،ان میں جناب راجہ پرویز اشرف بھی تھے۔بلکہ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ سپریم کورٹ نے ان سب کا نام ECL پر ڈالنے کا حکم بھی جاری کیا تھاتو کیا ہمارے نو منتخب وزریرِ اعظم غیر ملکی دوروں کے لئے سپریم کورٹ سے خصوصی اجازت لیں گے یا جنابِ اعتزاز احسن جیسے شہ دماغ اس حوالے سے وزیرِ اعظم کے لئے بھی کوئی آئینی استثنیٰ ڈھونڈ نکالیں گے ؟
زرداری صاحب کے علاوہ یہ ان کے اتحادیوں کے لئے بھی اپنے تین، چار سالہ سیاسی گناہوں کے کفارے کا ایک اچھا موقع تھا ۔ نواز شریف نے اکتوبر کے پہلے ہفتے دانشورانِ لاہور سے ملاقات میں اِن ہاﺅس تبدیلی کے لئے حکومتی اتحادیوں کو پیش کش کی تھی کہ وہ اپنا امیدوار لائیں ، مسلم لیگ (ن) اسے سپورٹ کرے گی ۔نواز شریف کی طرف سے چار نکات (سوئس حکام کو خط لکھنے اور عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کی ضمانت ، اتفاق رائے کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر اور نگران وزیرِ اعظم کا تقرراور اکتوبر میں انتخابات )کے ساتھ یہ پیشکش اب بھی موجود تھی لیکن اتحادیوں کے لئے بھی شاید توبہ کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔
کیا سپریم کورٹ نئے وزیرِاعظم کو بھی وہی حکم دے گی جس کی خلاف ورزی پر جنابِ گیلانی نااہل قرار پائے اور گوجر خان کے راجہ صاحب بھی ملتان کے مخدوم کی پیروی کرتے ہوئے انہی کے انجام سے دو چار ہوں گے اور پاکستانی قوم کے مقدر میں راجہ اشرف کے بعد جمشید دستی کی وزارتِ عظمٰی لکھ دی جائے گی ؟ ایک خیال یہ بھی ہے کہ جنابِ زرداری سپریم کورٹ سے نمٹنے کے لئے نئی حکمتِ عملی پر غور کر رہے ہیں ۔سپریم کورٹ کی حکم عدولی کر کے نا اہل قرار پانے کی بجائے وزارتِ عظمٰی سے استعفے کی حکمت ِ عملی اور اس کے بعد پھر وزیرِ اعظم کا نیا انتخاب اور یوں نئے عام انتخابات تک چور سپاہی یا آنکھ مچولی کا کھیل لیکن کیا بدترین داخلی اور خارجی بحران سے دو چار پاکستان اس کھیل کا متحمل ہو سکتا ہے؟سلامتی کا راستہ ایک ہی ہے، پاکستان کے لئے بھی اور پیپلز پارٹی سمیت ملک کی سیاسی قوتوں کے لئے بھی ۔۔۔۔۔حقیقی معنوں میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات۔