ڈاکٹر راشدہ قریشی
جس قدر ”نہیں“ کہنا دشوار ہے، اسی قدر ”نہیں“ سننا ناگوار ہے۔ ہاں میں ہاں ملا کر ہوتی چلنے والوں کو اپنے سربراہوں، عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ چلنے میں آسانی ہوتی ہے۔ بش نے بھی 9/11 کے بعد افغانستان پر چڑھائی کے وقت لاجسٹک سہولت کے حصول کیلئے اور اتحادی بننے کی ڈیکلریشن لینے کے لئے مشرف سے کہا تھا کہ Say, Yes or No ، اس وقت ہماری راہنما قیادت کے لئے شاید ہاں \\\"Yes\\\"کہنا نسبتاً زیادہ سہل تھا۔ تاہم وقت نے بتا دیا کہ اس وقت Yesکہنے کا بوجھ جو ہم آج تک اٹھائے ہوئے ہیں زیادہ شدید ثابت ہوا۔ مسئلہ کشمیر کے حل تک امن کی آشا کرنا یا پھر تجارتی امنگ رکھنا کیا مشکل ہے تاہم کسی امن و تجارت کے عمل کو مسئلہ کشمیر کے حل تک Noکہنا بڑی دلیری اور ہمت کی بات ہے اگرچہ یہ راستہ پرخار ہی سہی اور ہماری راہنما قیادت خود کو کسی پرخار راستے پہ کیونکر ڈالے کہ جس سے مسئلہ کشمیر کے حل کے راستے بننے کی امنگ و آشا پیدا ہونی ہو۔ میاں عبدالرشید بھی ”نہیں“ کہنے کی اہمیت بیان کرتے فرماتے ہیں کہ کلمہ طیبہ میں ”لا“ مقدم ہے اور ”اِلا“ بعد میں آتا ہے۔ باطل کی نفی کرکے سچے معبود کو یکتا بنایا جاتا ہے اور اسی طرح سچے معبود کی پہچان ہوتی ہے یعنی....سچائی سے پیار کرنے والے، جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ نعرہ حق ہی تھا جس کو بلند کرنے پر حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈال دیا گیا اور حضرت عیسٰیؑ کو بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا۔ یہ ”نہیں“ کہنا ہاں کہنے سے زیادہ بلند اور عظیم کام ہے۔ منافقین ابہام کو نہایت ہوشیاری سے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ منافقانہ رویوں سے استحصال کا شکار ہونے والوں کو منافقین اپنے مقاصد کے حصول کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں۔ 88 فیصد پوری دنیا کی رائے میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت کسی کے دوست نہیں بلکہ یہ کھلم کھلا اپنے دشمنوں سے دشمنی کا اظہار بھی نہیں کرتے۔ ہر دور کی طرح اس موجودہ دور میں بھی مفاد پرست، خود غرض اور منافق ٹولے نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا۔ مشاہدہ بتا رہا ہے کہ بدترین منافقت کی دلیل یہ ہے کہ ہمارا دوست ہمارے دشمن کا دوست ہو۔ امریکہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا گہرا دوست ہے وہ پاکستان کا دوست کیونکر ہو سکتا ہے۔ وہ مفادات جو امریکہ کے پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں انہیں کے حصول کے لئے تو وہ پاکستان سے دوستی کا ڈرامہ کرتا ہے۔ سورة الممتحنہ میں ارشاد ربانی ہے ”میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناﺅ، ہم دوست نما دشمنوں سے لین دین کرتے وقت اس آیت بالا کو کتنا پیش نظر رکھتے ہیں؟“ قوم کی بہن اور بیٹی عافیہ امریکی قید میں ہے اور شدید بیمار مگر ہمارے حکمران قطعی لاتعلق ہیں۔ تصور کیجئے ذرا اس گھر کا کہ جس کا سربراہ دشمن کے جال میں پھنس گیا ہو ، شاطر دشمن ایک گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگا کر اپنا دامن صاف رکھنا چاہتا ہو اور سربراہ خانہ غیر کو ناجائز خوشی دینے کیلئے اپنے اہل خانہ کی اذیت و پریشانی کو ہیچ سمجھنے لگے۔ اپنے گھر میں سنگدلی، بے حسی اور ظلم کا کھیل کھیل رہا ہو تو کیا ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی معافی کے حقدار بن سکیں گے۔
جس قدر ”نہیں“ کہنا دشوار ہے، اسی قدر ”نہیں“ سننا ناگوار ہے۔ ہاں میں ہاں ملا کر ہوتی چلنے والوں کو اپنے سربراہوں، عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ چلنے میں آسانی ہوتی ہے۔ بش نے بھی 9/11 کے بعد افغانستان پر چڑھائی کے وقت لاجسٹک سہولت کے حصول کیلئے اور اتحادی بننے کی ڈیکلریشن لینے کے لئے مشرف سے کہا تھا کہ Say, Yes or No ، اس وقت ہماری راہنما قیادت کے لئے شاید ہاں \\\"Yes\\\"کہنا نسبتاً زیادہ سہل تھا۔ تاہم وقت نے بتا دیا کہ اس وقت Yesکہنے کا بوجھ جو ہم آج تک اٹھائے ہوئے ہیں زیادہ شدید ثابت ہوا۔ مسئلہ کشمیر کے حل تک امن کی آشا کرنا یا پھر تجارتی امنگ رکھنا کیا مشکل ہے تاہم کسی امن و تجارت کے عمل کو مسئلہ کشمیر کے حل تک Noکہنا بڑی دلیری اور ہمت کی بات ہے اگرچہ یہ راستہ پرخار ہی سہی اور ہماری راہنما قیادت خود کو کسی پرخار راستے پہ کیونکر ڈالے کہ جس سے مسئلہ کشمیر کے حل کے راستے بننے کی امنگ و آشا پیدا ہونی ہو۔ میاں عبدالرشید بھی ”نہیں“ کہنے کی اہمیت بیان کرتے فرماتے ہیں کہ کلمہ طیبہ میں ”لا“ مقدم ہے اور ”اِلا“ بعد میں آتا ہے۔ باطل کی نفی کرکے سچے معبود کو یکتا بنایا جاتا ہے اور اسی طرح سچے معبود کی پہچان ہوتی ہے یعنی....سچائی سے پیار کرنے والے، جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ نعرہ حق ہی تھا جس کو بلند کرنے پر حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈال دیا گیا اور حضرت عیسٰیؑ کو بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا۔ یہ ”نہیں“ کہنا ہاں کہنے سے زیادہ بلند اور عظیم کام ہے۔ منافقین ابہام کو نہایت ہوشیاری سے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ منافقانہ رویوں سے استحصال کا شکار ہونے والوں کو منافقین اپنے مقاصد کے حصول کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں۔ 88 فیصد پوری دنیا کی رائے میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت کسی کے دوست نہیں بلکہ یہ کھلم کھلا اپنے دشمنوں سے دشمنی کا اظہار بھی نہیں کرتے۔ ہر دور کی طرح اس موجودہ دور میں بھی مفاد پرست، خود غرض اور منافق ٹولے نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا۔ مشاہدہ بتا رہا ہے کہ بدترین منافقت کی دلیل یہ ہے کہ ہمارا دوست ہمارے دشمن کا دوست ہو۔ امریکہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا گہرا دوست ہے وہ پاکستان کا دوست کیونکر ہو سکتا ہے۔ وہ مفادات جو امریکہ کے پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں انہیں کے حصول کے لئے تو وہ پاکستان سے دوستی کا ڈرامہ کرتا ہے۔ سورة الممتحنہ میں ارشاد ربانی ہے ”میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناﺅ، ہم دوست نما دشمنوں سے لین دین کرتے وقت اس آیت بالا کو کتنا پیش نظر رکھتے ہیں؟“ قوم کی بہن اور بیٹی عافیہ امریکی قید میں ہے اور شدید بیمار مگر ہمارے حکمران قطعی لاتعلق ہیں۔ تصور کیجئے ذرا اس گھر کا کہ جس کا سربراہ دشمن کے جال میں پھنس گیا ہو ، شاطر دشمن ایک گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگا کر اپنا دامن صاف رکھنا چاہتا ہو اور سربراہ خانہ غیر کو ناجائز خوشی دینے کیلئے اپنے اہل خانہ کی اذیت و پریشانی کو ہیچ سمجھنے لگے۔ اپنے گھر میں سنگدلی، بے حسی اور ظلم کا کھیل کھیل رہا ہو تو کیا ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی معافی کے حقدار بن سکیں گے۔