قارئین کرام ، انسان اِس دنیا میں جب مکافات عمل کو بھول جاتا ہے تو حیران کن واقعات پیش آنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی جو سزایافتہ ہو جانے کے باوجود بڑی کرّوفر سے وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہونے کےلئے تیار نہیں تھے تاریخ کے ایک تھپیڑے کو نہ سہہ سکے اور وزیراعظم ہاﺅس چھوڑ کو ایوان صدر میں منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ ریاض ملک جو قارونی خزانے کے مالک تھے اور جنہیں سیاست میں نہ ہونے کے باوجود ہر حکومت کی ناک کا بال سمجھا جاتا تھا ، آج بے مثال وسائل ہونے کے باوجود توہین عدالت کے مقدمے میں وکیل حاصل کرنے سے محروم ہیں اور بار بار عدالت عظمیٰ سے وکیل نہ ملنے کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ رحمن ملک جن کے اشارے کے بغیر ملک میں پتا نہیں ہلتا تھا ، دوہری قومیت کے کیس میں غلط بیانی کا شکار ہیں ۔ گو کہ عدالت عظمیٰ نے اُن کی سینیٹ کی نشست اِسی غلط بیانی کے تحت معطل کر دی گئی ہے لیکن وہ ابھی تک حقائق عدالت کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہیں اور متعدد ریاستی معاملات میں اپنی غلط بیانیوں کے سبب عوام الناس میں\\\" جھوٹے بادشاہ\\\" کے نام سے جانے لگے ہیں ۔ حیرانی کی بات ہے کہ قول و فعل کی تضادبیانی ، منافقانہ طرز عمل اور بدعنوانیوں کے باعث قوم کی قیادت کے دعویٰ دار یہ بڑے سرمایہ دار لوگ چشم زدن میں بہت ہی چھوٹے کیوں ہو کر رہ گئے ہیں ؟ کیا یہ آئین و قانون کو نظام زندگی کا حصہ بنانے کے بجائے قانون اور آئین کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے تھے اور آج معاشرے کےلئے عبرت کی نشانی بنے ہوئے ہیں ۔
محترم قارئین ، قانون اور نظام زندگی کیا ہے ، اِن دونوں کے باہمی تعلق کے بارے میں ریسرچ کرتے ہوئے ایک مذہبی دانشور شخصیت نے کہا تھا کہ قانون کے لفظ سے ہم جس چیز کی تعبیر کرتے ہیں وہ دراصل عملی طور پر اِس اَمر کی متقاضی ہے کہ انسانی طرز عمل انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا ہونا چاہئے ۔ اِس کا پہلا تعلق ہماری اخلاقی تعلیم و تربیت سے ہوتا ہے جسے ہم اپنے لوگوں کی سیرت و کردار میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔دوسرا تعلق قانون کو ہماری معاشرتی روایات کے حوالے سے باہمی انسانی تعلقات کو ایک منضبط ظابطہ کی شکل دینا ہوتا ہے ۔ اِس کا تیسرا پہلو ہمارے معاشی نظام میں دولت کی پیدائش اور تقسیم کے حوالے سے عام لوگوں کے حقوق کے تعین سے متعلق ہے جسے قانونی حوالے سے معاشرتی برائیوں کی روک تھام کےلئے بخوبی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن صد افسوس کہ حرص و ہوس اور کرپشن و بدعنوانی سے دولت اکٹھی کرنے والے بدنیت افراد مکر و فریب ، منافقت ، ریاکاری اور بدنیتی کے دائروں میں چھپے رہتے ہوئے اپنے ہر جرم ، کرپشن اور بے ایمانی کا بوجھ عوام الناس پر ہی ڈالنے میں مصروف نظر آتے ہیں جبکہ جرائم کو سیاسی رنگ دینا اور سیاست کو جرائم سے آلودہ کرناموجودہ حکمرانوں کی ڈھٹائی کو ظاہر کرتا ہے ۔شورش کاشمیری مرحوم نے اِسی پس منظر میں فرمایا تھا کہ\\\" جو لوگ حقائق کے جائزے پر رواداری کا سبق دیتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ اصولوں اور عقیدوں کی قربانی دینے کا نام رواداری نہیں ہے ۔یہ رواداری بالکل اِسی طرح ہے کہ جیسے ایک چور مکان میں نقب لگا رہا ہو اور صاحب مکان سے کہا جائے کہ آنکھیں بند کر لو ، چور کو اگر پکڑا تو یہ اُس کی آزادی میں مداخلت ہوگی یا اِس کو للکارا تو اِس سے چور کی دل آزاری ہوگی\\\" ۔ قانون اور معاشرتی نظام زندگی کے حوالے سے قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے فرمایا تھا کہ اسلامی اقدار کو اپنانا ، انسانی ترقی کی معراج تک پہنچنے کےلئے ناگزیر ہے، یہ ایک طرف تو قیام پاکستان کا جواز ہے اور دوسری طرف معیشت کی مساویانہ تقسیم کے حوالے سے ایک نئے معاشرے کی تخلیق کی ذمہ دار ہے ۔ ایمانداری اور خلوص نیت سے کام کیجئے ، آپ کے ضمیر سے بڑی کوئی قوت رُوئے زمین پر نہیں ہے ، آپ جب خدا کے رُو برُو پیش ہوں تو آپ اعتماد سے کہہ سکیں کہ میں نے اپنا فرض انتہائی ایمانداری ، وفاداری اور قلب صمیم سے انجام دیا ہے ۔
درج بالا اقوال کے برعکس ، اعلیٰ منصبوں پر بیٹھے ہوئے ہمارے حکمران اور اُن کے ایجنٹوں نے ہماری معاشرتی اقدار کو کس حد تک نقصان پہنچایا ہے اِس کا اندازہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت متعدد مقدمات سے بخوبی ہو جاتا ہے جسکی ایک مثال ایک مقدمے میں توہین عدالت کے تحت یوسف رضا گیلانی کی وزیراعظم کے اعلیٰ منصب سے علیحدگی کی شکل میں سامنے آئی ہے ۔ اِسی طرح قوم کو ناقابل تلافی معاشی نقصان پہنچانے کے حوالے سے رحمن ملک اور ریاض ملک کے گٹھ جوڑ کی ایک حالیہ اہم شہادت پاکستان کی ایک مقتدر شخصیت محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جانب سے آئی ہے ۔ لندن کے ایک انگریزی پرچے میں اُن کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کی بازگشت انٹر نیٹ پر بھی محسوس کی جا رہی ہے ۔
ڈاکٹر خان جو کچھ کہتے ہیں اُسے دولت جمع کرنے کی دھن میں اخلاقی اقدار سے محروم اِن شخصیتوں کے طریقہ واردات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ اُن کے مضمون کے متعلقہ انگریزی متن میں وہ لکھتے ہیں : \\\"About 12 years when Bahria Town was launched , I was once invited to be chief guest of one of their functions. Many armed forces senior officers and bureaucrates had also been invited. Bahria Town had been extremely well planned, just like any modern European Town. I praised it for this and my statement was later used by them for publicity purposes. The Safari Villas were really beautiful and well furnished. After being shown around we sat down to tea, etc. Malik Riaz then put a key on table in front of me. I looked through the window and quipped to him that I did not see any Rolls Royce, Mercedes or Jaguar standing outside. He replied that it was the key to the bunglow which I had just admired. I thanked him very much, but diclined his kind offer. How grateful I am now that I did so at the time otherwise I might well have been accused of giving him nuclear weapon in return for the favour. Later, when the present government came to power and Mr. Rehman Malik made all sorts of flase promises to me, he also requested me not to write for english/urdu papers, saying that Riaz Malik would pay me the equivalent in \\\"monthly allowance\\\" as compensation. That too I politely refused as I wanted to live by my own earnings, not on dole.\\\"
محترم قارئین ، ریاض ملک کا نام رحمن ملک کی معرفت اہم سیاست دانوں کو بلٹ پروف مرسیڈیز اور جیگور گاڑیاں دینے میںبھی لیا جاتا ہے ، دو ایس ہی گاڑیاں مبینہ طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان واپسی پر دی گئی تھیں جبکہ ایسی ہی دو گاڑیاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تحقیقات کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم کو فراہم کی گئی تھیں ۔ آجکل ریاض ملک صاحب کے دسترخوان کے متعلق کافی خبریں میڈیا میں آ رہی ہیں لیکن اِس میں بھی شہرت کا پہلو زیادہ نمایاں ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں فرعون و قارون سے زیادہ سرمایہ کسی کے پاس نہ تھا ۔ یہی شہرت حاصل کرنے کے حوالے سے فرعون اپنی رعونت ، دنیاوی جاہ و جلال اور دعویٰ خدائی کو مصر کے طول و ارض میں منوانے کےلئے اُس زمانے میں ہزاروں غریب و غربا کےلئے شاہی لنگرِ خاص کے دسترخوان پر روزآنہ کھانا کھلاتا تھا لیکن اِس لنگر کی سلطنت کے طول و ارض میں ہائی پرفائل شہرت اور دعویٰ خدائی کے باعث فرعون بلاآخر اپنی رعونت، تکبر ، منافقت اور ذاتی جاہ و حشمت کےساتھ اپنے ساتھیوںسمیت تباہی و بربادی کا شکار ہوا۔ اِس میں اُن لوگوں کےلئے نصیحت او ر سبق پوشیدہ ہے جو اعلیٰ اسلامی اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے ذاتی جاہ و جلال کےلئے جائز ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرتے ہیں اور پھر یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا مکافات عمل بھی ہے۔ بقول اقبالؒ........
تقدیر امم کیا ہے ؟ کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ
اخلاصِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے
” شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا “
محترم قارئین ، قانون اور نظام زندگی کیا ہے ، اِن دونوں کے باہمی تعلق کے بارے میں ریسرچ کرتے ہوئے ایک مذہبی دانشور شخصیت نے کہا تھا کہ قانون کے لفظ سے ہم جس چیز کی تعبیر کرتے ہیں وہ دراصل عملی طور پر اِس اَمر کی متقاضی ہے کہ انسانی طرز عمل انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا ہونا چاہئے ۔ اِس کا پہلا تعلق ہماری اخلاقی تعلیم و تربیت سے ہوتا ہے جسے ہم اپنے لوگوں کی سیرت و کردار میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔دوسرا تعلق قانون کو ہماری معاشرتی روایات کے حوالے سے باہمی انسانی تعلقات کو ایک منضبط ظابطہ کی شکل دینا ہوتا ہے ۔ اِس کا تیسرا پہلو ہمارے معاشی نظام میں دولت کی پیدائش اور تقسیم کے حوالے سے عام لوگوں کے حقوق کے تعین سے متعلق ہے جسے قانونی حوالے سے معاشرتی برائیوں کی روک تھام کےلئے بخوبی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن صد افسوس کہ حرص و ہوس اور کرپشن و بدعنوانی سے دولت اکٹھی کرنے والے بدنیت افراد مکر و فریب ، منافقت ، ریاکاری اور بدنیتی کے دائروں میں چھپے رہتے ہوئے اپنے ہر جرم ، کرپشن اور بے ایمانی کا بوجھ عوام الناس پر ہی ڈالنے میں مصروف نظر آتے ہیں جبکہ جرائم کو سیاسی رنگ دینا اور سیاست کو جرائم سے آلودہ کرناموجودہ حکمرانوں کی ڈھٹائی کو ظاہر کرتا ہے ۔شورش کاشمیری مرحوم نے اِسی پس منظر میں فرمایا تھا کہ\\\" جو لوگ حقائق کے جائزے پر رواداری کا سبق دیتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ اصولوں اور عقیدوں کی قربانی دینے کا نام رواداری نہیں ہے ۔یہ رواداری بالکل اِسی طرح ہے کہ جیسے ایک چور مکان میں نقب لگا رہا ہو اور صاحب مکان سے کہا جائے کہ آنکھیں بند کر لو ، چور کو اگر پکڑا تو یہ اُس کی آزادی میں مداخلت ہوگی یا اِس کو للکارا تو اِس سے چور کی دل آزاری ہوگی\\\" ۔ قانون اور معاشرتی نظام زندگی کے حوالے سے قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے فرمایا تھا کہ اسلامی اقدار کو اپنانا ، انسانی ترقی کی معراج تک پہنچنے کےلئے ناگزیر ہے، یہ ایک طرف تو قیام پاکستان کا جواز ہے اور دوسری طرف معیشت کی مساویانہ تقسیم کے حوالے سے ایک نئے معاشرے کی تخلیق کی ذمہ دار ہے ۔ ایمانداری اور خلوص نیت سے کام کیجئے ، آپ کے ضمیر سے بڑی کوئی قوت رُوئے زمین پر نہیں ہے ، آپ جب خدا کے رُو برُو پیش ہوں تو آپ اعتماد سے کہہ سکیں کہ میں نے اپنا فرض انتہائی ایمانداری ، وفاداری اور قلب صمیم سے انجام دیا ہے ۔
درج بالا اقوال کے برعکس ، اعلیٰ منصبوں پر بیٹھے ہوئے ہمارے حکمران اور اُن کے ایجنٹوں نے ہماری معاشرتی اقدار کو کس حد تک نقصان پہنچایا ہے اِس کا اندازہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت متعدد مقدمات سے بخوبی ہو جاتا ہے جسکی ایک مثال ایک مقدمے میں توہین عدالت کے تحت یوسف رضا گیلانی کی وزیراعظم کے اعلیٰ منصب سے علیحدگی کی شکل میں سامنے آئی ہے ۔ اِسی طرح قوم کو ناقابل تلافی معاشی نقصان پہنچانے کے حوالے سے رحمن ملک اور ریاض ملک کے گٹھ جوڑ کی ایک حالیہ اہم شہادت پاکستان کی ایک مقتدر شخصیت محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جانب سے آئی ہے ۔ لندن کے ایک انگریزی پرچے میں اُن کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کی بازگشت انٹر نیٹ پر بھی محسوس کی جا رہی ہے ۔
ڈاکٹر خان جو کچھ کہتے ہیں اُسے دولت جمع کرنے کی دھن میں اخلاقی اقدار سے محروم اِن شخصیتوں کے طریقہ واردات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ اُن کے مضمون کے متعلقہ انگریزی متن میں وہ لکھتے ہیں : \\\"About 12 years when Bahria Town was launched , I was once invited to be chief guest of one of their functions. Many armed forces senior officers and bureaucrates had also been invited. Bahria Town had been extremely well planned, just like any modern European Town. I praised it for this and my statement was later used by them for publicity purposes. The Safari Villas were really beautiful and well furnished. After being shown around we sat down to tea, etc. Malik Riaz then put a key on table in front of me. I looked through the window and quipped to him that I did not see any Rolls Royce, Mercedes or Jaguar standing outside. He replied that it was the key to the bunglow which I had just admired. I thanked him very much, but diclined his kind offer. How grateful I am now that I did so at the time otherwise I might well have been accused of giving him nuclear weapon in return for the favour. Later, when the present government came to power and Mr. Rehman Malik made all sorts of flase promises to me, he also requested me not to write for english/urdu papers, saying that Riaz Malik would pay me the equivalent in \\\"monthly allowance\\\" as compensation. That too I politely refused as I wanted to live by my own earnings, not on dole.\\\"
محترم قارئین ، ریاض ملک کا نام رحمن ملک کی معرفت اہم سیاست دانوں کو بلٹ پروف مرسیڈیز اور جیگور گاڑیاں دینے میںبھی لیا جاتا ہے ، دو ایس ہی گاڑیاں مبینہ طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان واپسی پر دی گئی تھیں جبکہ ایسی ہی دو گاڑیاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تحقیقات کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم کو فراہم کی گئی تھیں ۔ آجکل ریاض ملک صاحب کے دسترخوان کے متعلق کافی خبریں میڈیا میں آ رہی ہیں لیکن اِس میں بھی شہرت کا پہلو زیادہ نمایاں ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں فرعون و قارون سے زیادہ سرمایہ کسی کے پاس نہ تھا ۔ یہی شہرت حاصل کرنے کے حوالے سے فرعون اپنی رعونت ، دنیاوی جاہ و جلال اور دعویٰ خدائی کو مصر کے طول و ارض میں منوانے کےلئے اُس زمانے میں ہزاروں غریب و غربا کےلئے شاہی لنگرِ خاص کے دسترخوان پر روزآنہ کھانا کھلاتا تھا لیکن اِس لنگر کی سلطنت کے طول و ارض میں ہائی پرفائل شہرت اور دعویٰ خدائی کے باعث فرعون بلاآخر اپنی رعونت، تکبر ، منافقت اور ذاتی جاہ و حشمت کےساتھ اپنے ساتھیوںسمیت تباہی و بربادی کا شکار ہوا۔ اِس میں اُن لوگوں کےلئے نصیحت او ر سبق پوشیدہ ہے جو اعلیٰ اسلامی اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے ذاتی جاہ و جلال کےلئے جائز ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرتے ہیں اور پھر یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا مکافات عمل بھی ہے۔ بقول اقبالؒ........
تقدیر امم کیا ہے ؟ کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ
اخلاصِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے
” شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا “