دہشت گردوں کو خاتمے کے بعد پاکستان نے بہتری کا سفر شروع کیا ہی تھا کہ ایک مرتبہ پھر ہمارے دشمنوں نے ایک نیا جال تیار کیا ہے۔ پاکستان ہمیشہ کی طرح اندرونی و بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ دشمن پاکستان کا امن تباہ کرنا چاہتا ہے، پاکستان کو ایک مرتبہ پھر دنیا میں تنہا کرنا چاہتا ہے، پاکستان کو ایک مرتبہ معاشی طور پر کمزور کرنا چاہتا ہے۔ دشمن ہدف حاصل کرنے کے لیے ہر طرف سے حملہ آور ہو رہا ہے۔ یقیناً دشمن ناکام ہو گا پاکستان ایک حقیقت ہے اور خطے میں اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کو بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمنوں کا مقابلہ بھی کرنا ہے۔ اس مرتبہ حالات ذرا مختلف ہیں کیونکہ پاکستان کے تین مرتبہ کے وزیراعظم میاں نواز شریف ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ وہ ایک بڑی سیاسی جماعت کی سربراہی کرتے ہیں ان کی بیٹی نے سزا یافتہ والد کی عدم موجودگی میں سیاسی جماعت کو ہائی جیک کر لیا ہے۔ وہ ذاتی مفادات کی خاطر جماعت اور پاکستان کے سادہ لوح اور معصوم لوگوں کو استعمال کر رہی ہیں۔ ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پیدا کر رہی ہیں، پاکستان کے دفاعی اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس مہم کا مقصد ملک میں بدامنی پھیلانا اور عام آدمی کو متنفر کرنا ہے۔ وہ اپنے والد میاں نواز شریف کو بچانے کے لیے ہر حد تک جانا چاہتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد ہونے والی دہشت گردی کے بعد میاں نواز شریف کی سیاسی دہشت گردی اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ عمومی طور پر لوگ سوال کرتے ہیں کہ میاں نواز شریف کو کیوں نکالا، خود میاں نواز شریف بھی یہی سوال کرتے تھے کہ انہیں کیوں نکالا گذشتہ روز افغان حکام سے ہونے والی ملاقات کی تصاویر دیکھ کر سب کو یقین آنا چاہیے کہ میاں نواز شریف کیوں نکالے گئے تھے، عوام نے ان کی جماعت کو کیوں مسترد کیا تھا۔ میاں نواز شریف کو عوام نے ان کی قومی سلامتی کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے مسترد کیا تھا بدقسمتی سے سابق وزیراعظم کی طرف سے ابھی تک ان کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ افغان قومی سلامتی کے مشیر سے کس حیثیت میں ملاقات کر رہے ہیں۔ مریم نواز شریف کہتی ہیں کہ ہمسایوں کے ساتھ پاکستان کا پْرامن وجود نوازشریف کینظریے کی بنیاد ہے، سب سے بات کرنا، نقطہ نظر سْننا، اپنا پیغام خود پہنچانا سفارت کاری کا بنیادی جْز ہے،حکومت عالمی محاذ پر مکمل ناکام ہے۔
مریم نواز شریف قوم کو گمراہ کرنا بند کریں، وہ یہ بتائیں ایک مجرم کیسے سفارتکاری کر سکتا ہے، ان کے والد کس حیثیت میں پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے والی افغان حکومت کے نمائندوں سے مل رہے ہیں، وہ ان ملاقاتوں سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں، اشرف غنی کی حکومت تو نریندرا مودی کی آلہ کار ہے کیا میاں نواز شریف نریندرا مودی اور اشرف غنی کے کلب میں اعلانیہ شامل ہو رہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کہتے ہیں "نوازشریف کو وطن واپسی پر فوج اور رینجرز کی سکیورٹی دینے کی پیشکش ہے۔ وہ صبح اعلان کریں شام کو وطن واپس لانے کے لیے طیارہ بھیجوں گا۔ میاں نوازشریف نے اپنی تکلیف کا انتخاب خود کیا ہے۔ نوازشریف سے را کے ایجنٹ مل رہے ہیں"۔ میاں نواز شریف کو سب سے پہلے تو وطن واپس آنا چاہیے، انہیں سزا پوری کرنی چاہیے اور مقدمات کا سامنا بھی کرنا چاہیے۔ جب وہ ملک کے وزیر اعظم تھے اس وقت بھی انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو بغیر ویزے کے پاکستان میں خوش آمدید کہا اور اس کے نریندرا مودی نے اس دورے بارے جو کچھ کہا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اب میاں نواز شریف لندن میں بیٹھ کر "را" کے کھلاڑیوں سے مل رہے ہیں۔ اگر انہیں سیاسی سرگرمیوں کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے وطن واپس آئیں۔ یہ ان کا اپنا ملک ہے۔ یہاں ہر شہری وزیراعظم نہیں بن سکتا، کبھی عام شہری کی حیثیت سے بھی ملک میں رہنا سیکھیں۔ ہر وقت وزیراعظم کی حیثیت سے تو نہیں رہا جا سکتا۔ میاں نواز شریف کی حالیہ تصاویر اور ملاقاتیں نہایت افسوسناک ہیں وہ ایک مرتبہ پھر ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف امریکہ، بھارت، اسرائیل اور افغانستان کا چیلنج درپیش ہے تو دوسری طرف اپنے ہی سیاست دان بھی ملکی سلامتی کے خلاف کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف میاں نواز شریف مودی کے یاروں کی میزبانی کر رہے ہیں تو دوسری طرف معید یوسف مودی کے ایجنڈے کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے بھارتی صحافی کو انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ جب تک بھارت کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس وقت تک بات چیت نہیں ہو سکتی۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ ہر پاکستانی آخری وقت تک کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر میں یکطرفہ اور جارحانہ اقدام واپس نہیں کرتا اس وقت تک کوئی بات چیت ممکن نہیں ہے۔ بھارت کی طرف سے خطے میں امن کو خراب کرنے کے لئے تخریب کاری کے ثبوت موجود ہیں۔ لاہور دھماکے کے تانے بانے بھارت سے جڑتے ہیں اور اس کے ثبوت سامنے رکھ دیے ہیں۔بھارت کو پاکستان میں دہشتگردی روکنی ہوگی۔ بھارت کی حکومت آر ایس ایس اور فاشسٹ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان ہمیشہ امن کے لیے کوشاں رہا ہے مگر بھارت کی ہندوتوا سوچ آڑے آرہی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے قبول کیا کہ بھارت نے ایف اے ٹی ایف کو سیاسی عزائم کے لیے استعمال کیا ہے۔ کیا میاں نواز شریف کو یہ سب نظر نہیں آ رہا، کیا وہ نہیں جانتے کہ اشرف غنی کی حکومت کیا کر رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی اعلیٰ قیادت کو میاں نواز شریف کی سرگرمیوں پر اپنا موقف واضح کرنا ہو گا۔ کیا علاج کے نام پر لندن جانے والے میاں نواز شریف کا یہ رویہ نون لیگ کے رہنماؤں کے لیے قابلِ قبول ہے۔ کیا وہ اس بیانیے کے ساتھ چل سکتے ہیں، کیا نون لیگ کی اعلی قیادت ملک کو درپیش مسائل سے بیخبر ہے، کیا ان ملاقاتوں کے بعد بھی وہ میاں نواز شریف کو اعلانیہ اپنا قائد سمجھتے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024