کشمیر کا رن ،عید اور صفائی
کشمیر میں آج الیکشن ہو رہے ہیں۔ اس بار انتخابی مہم کی گہما گہمی کچھ زیادہ ہی تھی ‘سیاسی جماعتوں نے مظفرآباد پر حکومت کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔ کشمیر میں گھمسان کا سیاسی رن پڑا ہوا ہے۔ ہر کوئی مخالف کو نیچا دیکھانے کے لیے آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی کشیدگی بھی عروج پر ہے۔ آج امن و امان کو کنٹرول کرنے کے لیے اور ووٹر کو پر امن ماحول فراہم کرنے کے لیے افواج پاکستان کو طلب کر لیا گیا ہے‘ دعا ہے کشمیر کا الیکشن پرامن ماحول میں سرانجام پا جائے اور اللہ ہماری سیاسی جماعتوں کو انتخابی نتائج بھی تسلیم کرنے کا حوصلہ عطا فرمائے کیونکہ جس قسم کی انتخابی فضا پیدا کی گئی ہے اس کے بعد ہارنے والوں کے لیے نتائج تسلیم کرنا اتنا آسان نہ ہو گا ۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ جب 2018 کے انتخابات کے بعد مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو کشمیر میں بعض حکومتی ارکان نے در پردہ تحریک انصاف سے رابطہ کیا اور راجہ فاروق حیدر پر عدم اعتماد لانے کی بات کی مگر عمران خان نے اس سے اتفاق نہ کیا ‘اب کچھ لوگ جلسوں سے اندازے لگا کر قبل از وقت ہی دھاندلی کے بیانیہ کو لانچ کرنے کی پلاننگ کر رہے ہیں۔ اگر کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت بنتی ہے تو یہ اچنبے کی بات نہیں ہو گی کیونکہ الیکٹ ایبل ہوا کا رخ عام لوگوں سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ دھڑا دھڑ پی ٹی آئی کی جانب پرواز سے پتہ چل گیا تھا کہ کس کا پلڑا بھاری ہے۔ پاکستان میں سب سے وفادار جماعت جماعت اسلامی ہے۔ اگر ان کے مقامی لیڈر عبد الرشید ترابی حالات کو دیکھ کر تحریک انصاف کی حمایت کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے وہاں کی سیاسی فضا تحریک انصاف کے حق میں ہے۔ عمران خان کے آخری جلسے نے بھی پانسہ پلٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے کشمیر پر بات کی اور فیصلے کا اختیار کشمیریوں کو دینے کا اعلان کیا توقع تو یہی کی جا رہی ہے کہ کشمیر میں تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن یہاں کی سیاست موسم کی طرح بڑی بے اعتباری ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے تاہم اب چند گھنٹوں کی بات ہے سب کچھ سامنے آجائے گا ۔رات تک صورتحال واضح ہو جائے گی نتائج سامنے آجائیں گے اور اگر تحریک انصاف کو کامیابی ملتی ہے تو زیادہ چانسز ہیں کہ سردار تنویر الیاس آذاد کشمیر کے وزیراعظم ہوں گے اور اگر مسلم لیگ ن کامیاب ہوتی ہے تو راجہ فاروق حیدر ہی دوبارہ وزارت عظمی کے امیدوار ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ جس طرح انہوں نے انتخابات جیتنے کے لیے کشمیر کا سیاسی درجہ حرارت گرم کیا ہے۔ اسی طرح الیکشن کے بعد بعد حالات کو نارملائز کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کریں ورنہ خدشہ ہے کہ کہیں سیاسی تلخیاں ذاتی دشمنیوں میں نہ بدل جائیں اگر ہارنے والی جماعتوں نے نتائج تسلیم نہ کیے تو کشمیر کا سیاسی ماحول اور زیادہ تلخ ہو جائے گا۔ دعا ہے اللہ سب کے لیے بہتر کرے ۔
آج ہم نے دو تین موضوع اکھٹے کر دئیے ہیں چونکہ عید کے بعد یہ پہلا کالم ہے اور حالات بھی متقاضی تھے کہ ان ایشوز پر بات کی جائے ۔عید سے قبل ہم نے لکھا تھا کہ گوشت ہے اور ہم ہیں دوستو جس میں ہم نے احتیاط کی درخواست کی تھی لیکن افسوس کہ ہم نے روایت کو برقرار رکھا اور گوشت دیکھ کر ہم اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکے۔ صرف لاہور میں 18 ہزار افراد بسیار خوری کے سبب ہسپتالوں میں جا پہنچے۔ یہ وہ تعداد ہے جو لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج سے حاصل کی گئی ہے۔ نجی ہسپتالوں میں جانے والوں کا ڈیٹا اکھٹا کیا جائے تو یہ تعداد ڈبل ہو گی اور پھر پورے پنجاب یا پاکستان کا اندازہ لگائیں اور وہ لوگ جو حکیموں عطائیوں کے ہتھے چڑھے وہ علیحدہ ہیں۔ اس کے علاوہ لا تعداد لوگ ایسے ہیں جنھوں نے اپنی جانوں پر جبر کرکے گھریلو ٹوٹکوں سے اپنا علاج کیا۔ اس طرح ایک اندازے کے مطابق پورے پاکستان میں کوئی ڈیڑھ کروڑ لوگ عید کا گوشت زیادہ کھا لینے سے ڈسٹرب ہوئے۔ ہمارے ساتھ ہر سال ایسے ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کھانے کی تمیز نہیں دراصل ہم اعتدال پسند نہیں اور نہ ہی معاشرہ ہمیں اعتدال پسندی سیکھاتا ہے۔ اکثر شادیوں اور دیگر تقریبات میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے کہ ہم کھانا دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ زندگی کا آخری کھانا ہے اور پھر ہفتے بھر کا کھانا ایک ہی بار کھا کر ہم بیمار پڑ جاتے ہیں۔
دوسرا ہماری سائیکی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں زیادہ کھانے سے صحت بنتی ہے‘ جسم میں زیادہ طاقت آتی ہے حالانکہ زیادہ کھانا جسم اور صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہمیں کھانے پینے کے بنیادی اصولوں سے لے کر زندگی گزارنے رہن سہن کے بنیادی اصولوں کی تربیت کی ضرورت ہے جس کے لیے ماں باپ سے لے کر اساتذہ اور لیڈر شپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تربیت کا بیڑا اٹھائیں۔ عید قربان پر ہم نے کھانے پینے کے معاملے پر ہی اپنے آپ سے ظلم نہیں کیا بلکہ گند ڈالنے ماحول کو آلودہ کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی حالانکہ ہمارا مذہب کہتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ جس طرح قربانی کے بعد اوجھڑیوں اور آلائشوں کے ڈھیر جگہ جگہ دکھائی دئیے وہ معاشرے کی بے ترتیبی کی واضح تصویر ہے۔ اگر ہر قربانی کرنے والا صفائی کا خیال رکھتا تو ہم ماحول کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو سکتے تھے۔ اسی طرح صفائی کے عملہ نے اپنے تائیں اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں لیکن بطور شہری ہم صفائی رکھنے میں ناکام ہوئے ہیں۔