یوں ہم سب جیت جائیں گے!!!
خوش بختی دیکھیے کہ 25جولائی "یوم عام انتخابات " باران رحمت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ لگتا ہے کہ اس بار ابر رحمت کھل کر برسے گا او رہماری پیش گوئی کے مطابق کوئی بھی "امیدوارنہیں ہارے گا " ۔ کیونکہ ہار ماننے کیلئے کوئی تیار نہیں ۔ چشم بینا سے ذرا تصور کیجیے بہت مزے کا، بڑے کمال کا نظارہ ہو گا جو عام دنو ںمیں ہم عام لوگوں کو کہاں نصیب ہوتا ہے ۔ اس کی چاشنی کو سنبھال کر رکھیے گا کہ اگلے پانچ سالوں، سالوں سے مراد ماہ و سال یعنی برس ہیں یہ وہ "سالوں" نہیں جو عام طو رپر ایک عدد منکوحہ کے ساتھ جہیز میں آتے ہیں یا پھر آتے جاتے رہتے ہیں ۔چشم بینا دیکھ رہی ہے کہ بڑی جماعتوں کے بڑے لیڈران کرام نے ابھی تک قطرہ ، قطرہ زندگی کے موضوع پر کوئی بیان نہیں داغا۔ حالانکہ یہ قطرہ ، قطرہ وہی پانی ہے جس سے سبھی کے داغ دھلتے ہیں یہ زندگی کا ایسا بنیادی عنصر ہے جس کے بغیر زندگی ناممکن ہے ۔ اس طرح دوسرا بڑا موضوع بجلی کا ہے جو عوام پر بلوں کی صور ت کڑکتی بھی ہے اور گرتی بھی ۔ اسے کسی صورت آسمانی درجہ سے اتار کر زمینی او رعوامی درجہ پر لایا جائے تو زندگی بن جائے ۔ یہی معاملہ عدل و انصاف کا ہے جو تواتر سے قتل ہو رہا ہے مگر بے چارہ عدل ہے کہ آہ و فغاں کرنے کا بھی حق نہیں رکھتا ۔
پچھلے دنوں ، بچوں نے مجھے ایک نہایت دلچسپ و مختصر ویڈیو دکھائی ۔ منظر یہ تھا کہ کسی یونیورسٹی کے کانووکیشن میں ایک ڈگری ہولڈر بچی ، نہایت خوش اندامی میں کہہ رہی تھی کہ
میری ممی کہندی اے ، تیرا ویاہ کرنا
میں کہیا ، چھڈو
کیہہ بے گانہ منڈا تباہ کرنا
اس سادگی اور سچائی پر مر جانے کو جی چاہ رہا تھا کہ اس نازک اندام کو اس بالی عمر میں بھی خوب احساس ہے کہ کسی کی زندگی میں اپنی کیفیات ، عادات اور خرافات کے ساتھ یوں داخل ہوجانا ، دوسرے کو تباہ کرنے والی بات ہے ۔ ایسی غیر نیوکلیرائی
قوتوں کو بہت سوچ سمجھ کر کسی کی زندگی میں آنا چاہیئے ۔ اگر بہار بن کر نہیں آ سکتے تو "عذابی خزاں"بھی نہ بنیں۔
کیپ ٹاون کا نام تو آپ نے سنا ہوگا۔اس کا شمار براعظم افریقہ کے متمول ترین شہروں میں ہوتا ہے۔جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ اسی شہر میں قائم ہے۔دنیا کے کئی ارب پتیوں نے یہاں املاک خریدی ہوئی ہیں۔نیلا بحر اوقیانوس مٹیالے بحرِ ہند سے کیپ ٹاون کے کناروں پر ہی گلے ملتا ہے۔پینتالیس لاکھ آبادی ہر جدید اور خوشحال شہر کی طرح دو طبقات میں بٹی ہوئی ہے۔ خادم اور مخدوم۔ جو مخدوم ہیں وہ بہت ہی مخدوم ہیں۔سب کے رنگ صاف اور تمتماتے ہوئے۔ زندگی کا محور بڑے بڑے سوئمنگ پولز والے ولاز، سایہ دار گلیاں، تازہ ماڈل کی گاڑیاں، فارم ہاوسز، کارپوریٹ بزنس اور پارٹیاں۔ شہر کے اسی فیصد آبی وسائل بیس فیصد مخدوموں کے زیرِ استعمال ہیں اور باقی اسی فیصد خدام کو بیس فیصد پانی میسر ہے۔دس برس پہلے کچھ پاگل ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ بڑھتی آبادی، اوور ڈویلپمنٹ (اس کا اردو ترجمہ میں نہیں کر سکتا) اور ماحولیاتی تبدیلی جلد ہی کیپ ٹاون کو ناقابلِ رہائش بنا دے گی۔ظاہر ہے یہ وارننگ سن کر سب ہنس پڑے ہوں گے۔اب سے تین برس پہلے تک کیپ ٹاون کشل منگل تھا۔شہر کی آبی ضروریات پوری کرنے کے لیے گرد و نواح میں چھ ڈیموں کے ذخائر میں ہر وقت پچیس ارب گیلن پانی جمع رہتا تھا۔امرا کو ہر ہفتے سوئمنگ پول میں پانی بدل دینے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔کتوں کو بھی روزانہ دو بار پھواری غسل دینا معمول تھا۔کار تو ظاہر ہے روزانہ دھلتی ہی ہے، باغ کو مالی پانی نہیں دے گا تو مالی کی ضرورت کیا۔پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ خشک سالی آ گئی، آبی ذخائر بھرنے والے پہاڑی، نیم پہاڑی اور میدانی نالوں کی زبانیں نکل آئیں۔دھیرے دھیرے پچھلے برس اگست سے آبی قلت کیپ ٹاون کے ہر طبقے کو چبھنے لگی۔دسمبر تک یہ آبی ایمرجنسی میں بدل گئی اور آج حالت یوں ہے کہ کیپ ٹاون کا حلق تر رکھنے والے چھ بڑے آبی ذخائر میں پانی کی سطح چوبیس فیصد رہ گئی۔جب یہ دس فیصد پر پہنچ جائے گی تو پانی عملاً کیچڑ کی شکل میں ہی دستیاب ہوگا۔چنانچہ آبی مارشل لا نافذ کرنا پڑ گیا ہے۔جن آبی ذخائر اور نالوں میں فی الحال رمق بھر پانی موجود ہے وہاں آبی لوٹ مار، ڈکیتی، پانی کی چھینا جھپٹی اور چوری روکنے کے لیے مقامی پولیس کا اینٹی واٹر کرائم پٹرول متحرک ہے۔غربا کو پانی کی فراہمی کے لیے دو سو ہنگامی آبی مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں سے پچاس لیٹر روزانہ فی کنبہ راشن حاصل کیا جا سکتا ہے (یہ پانی آٹھ منٹ تک باتھ شاور سے گرنے والے پانی کے برابر ہے)۔سوئمنگ پول، باغبانی اور گاڑیوں کی دھلائی قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہے۔فائیو اسٹار ریسٹورنٹس پیپر کراکری استعمال کر رہے ہیں۔
اچھے ہوٹلوں میں دو منٹ بعد شاور خود بخود بند ہو جاتا ہے۔یہ بحران مزید سنگین جولائی تک ہوگا جب پہلے ہفتے میں ڈے زیرو آ جائے گا۔ڈے زیرو کا مطلب ہے استعمالی پانی کی نایابی۔حکومت ابھی سے ڈے زیرو سے نمٹنے کی تیاری کر رہی ہے۔کیپ ٹاون دنیا کا پہلا ڈے زیرو شہر بننے والا ہے۔ اس کے پیچھے ایک سو انیس اور شہر کھڑے ہیں۔ان میں بھارت کا آئی ٹی کیپٹل بنگلور اورپاکستان کا کراچی، لاہور اور کوئٹہ بھی شامل ہے۔آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں۔ سنبھلنے کی مہلت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔مگر جس ریاست میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل منچھر زہر کا پیالہ بن گئی، جہاں کراچی کو پانی فراہم کرنے والی کلری جھیل کو ہالیجی سے میٹھا پانی فراہم کرنے والی نال کو آلودہ پانی لے جانے والی نہر (ایل بی او ڈی) نے کاٹ ڈالا، جہاں کوئٹہ کی ہنا جھیل سوکھے پاپڑ میں بدل گئی، جہاں دریاوں اور سمندر کے ساحل کو خام کچرے اور صنعتی فضلے کا کوڑا گھر بنا کر اجتماعی بربادی کی جارہی ہے، زہریلے پانی سے سبزیاں اگا کے انھیں فارم فریش سمجھ کے ہم اپنے بچوں کے پیٹ میں اتار رہے ہوں.
حالات جس طرف جا رہے ہوں اور ان کی سنگینی کا جس قدر احساس ہے اور اس احساس کو مٹانے کے لیے جس طرح ہر فورم پر بس بتایا جا رہا ہے۔اس کے بعد وہ وقت دور نہیں جب کسی عدالت کا ازخود نوٹس تیرانے کے لیے بھی صاف چھوڑ گدلا پانی میسر ہو۔
وضو کو مانگ کر پانی خجل نہ کر اے میر
وہ مفلسی ہے تیمم کو گھر میں خاک نہیں
وہاں اکیلی کوئی بھی جماعت ، گروہ ، حتی کہ حکومت بھی کچھ نہیں کرسکتی اور نہ کرپائے گی ۔ اس جیسے دیگر جاں افزا ء مسائل کے حل کیلئے سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا اور جراتمندانہ فیصلے کرنا ہو ں گے ۔ یوں ہم سب جیت جائیں گے!!!!!