ووٹر کے سیاسی شعور کا امتحان
ووٹ عام طور پر ایک گواہی ہے کسی اچھے یا بُرے کی۔کسی بھی سیاست دان کو منتخب اگلے پانچ سال کیلیے عوام سے گواہی لے کرکیا جاتاہے۔کسی امیدوار کو ووٹ دیتے وقت اپنے ووٹ کا معاوضہ لینا مکمل طور پر حرام ہے۔قران کریم میں ارشاد ہے۔مفہوم ۔جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اسے اس میں بھی حصہ ملتا ہے۔اور اگر بری سفارش ہوگی تو اس میں بھی وہ حصہ دار شمار کیا جاتا ہے۔عام طو رپر سیاست دان کا ووٹر سے تعلق اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک ووٹر اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرلیتا۔ووٹ کاسٹ ہوجانے کے بعد ووٹر اور اس کے لیڈر کے درمیان جو ووٹ کاسٹ ہونے سے پہلے والا تعلق تھا وہ خودبخود ہی ختم ہوجاتا ہے۔سیاست دان عام طور پر ووٹرز کو آج تک اپنی سوتیلی اولاد کی طرح سمجھتے آئے ہیں۔پاکستان میں ان دنوں ووٹر اور امیدوار کے درمیان ایک جنگ جاری ہے۔پاکستان کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو شروع دن سے لے کر آج تک ہمیشہ سے ہی سیاست دانوں نے اپنے حلقے کے ووٹرز کو یرغمال بنارکھا ہے۔سیاسی جماعت کے نظریات سے زیادہ مقامی سیاسی لیڈروں نے ہی اپنے ووٹرز کو اپنی گرفت میں رکھا ہے آج تک۔میرا تعلق جس علاقے سے ہے یہاں کی بات کررہاہوں۔بڑے بُزرگوں سے سُناہے کہ ایک زمانے میں جب الیکشن نزدیک ہوتے تھے تو امیدوار اپنے منشی کے ذریعے ایک پرچی لکھ کر ووٹرز کی طرف بھیج دیا کرتا تھا اور وہ منشی اسی پرچی کو پورے علاقے میں ہرایک ڈیرے پہ جاکے پڑھ کر سنایا یاکرتاتھا۔اس پرچی میں ایک کوئی ریکوسٹ یا گزارش نہیں بلکہ ایک حکم نامہ ہوتا تھا۔
جس پہ بس یہی لکھا ہوتا تھا کہ۔ یہ ہمارا انتخابی نشان ہے اسی پہ ہی آپ سب نے مہر لگانی ہے۔یہ ہوتی تھی پوری کی پوری الیکشن کمپین۔اور علاقے کے تمام ووٹرز اسی خط کو سننے کے بعد خوش ہوجاتے تھے اور اپنے نمائندے کو ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے اس بات پر فخر محسوس کرتے تھے کہ ہمارا لیڈر اس قدراچھا ہے کہ اس نے ہمیں یاد کیا ۔
زمانہ گزار پھر وہ زمانہ آیا جب گھر گھر ووٹ مانگنے کی نوبت آن پہنچی۔یہ دور بھی مقامی سیاست دانوں کادور قرار پایا۔لیڈر صاحب گھر گھر جاتے تھے ووٹ کا میسج اور پیغام دے کر واپس آجاتے ووٹ کے لیے ووٹرسے کوئی منت سماجت یا کوئی کام کا وعدہ نہیںہوتا تھا بلکہ ایک دھمکی آمیز ولن بھرے لہجے میں آرڈر دیا جاتا تھا میں آپکاسردار ہوں یہ میرا انتخابی نشان ہے۔یہ ہوتی تھی اس زمانے کی الیکشن کمپین۔ہاں اس زمانے میں ووٹر سے تھانے کچہری اوریونین کے کاموں کی سطح تک کام کرکے ایک بہت بڑا احسان کر کے بھی ووٹ پکے کیے جاتے تھے۔کبھی ووٹر کو ایک نلکے کی لالچ دی جاتی تھی تو کبھی تھانے کے منشی سے ایک بند موٹر سائیکل چھڑاکے ووٹ لیا جاتا تھا۔کبھی عوام کو پٹوار خانے میں ایک چھوٹے سے پٹواری سے کام کروا کے ووٹ کنفرم ہوتے تھے۔
ان چھوٹی موٹی لالچوں کا سہارے لے کراور پولیس سے بلیک میل کروانے کے بعد ووٹر کو پانچ سال مسلسل ذلیل کیاجاتارہاہے۔ اب آتے ہیں آج کے دور کی طرف۔یہ دور میڈیا کا دور ہے۔الیکٹرانک پرنٹ اور سوشل میڈیانے ووٹر کواس کی اہمیت کا صیح پتہ دیا ہے۔سیاسی شعور میں دن بہ دن اضافہ ہوا ہے لوگ اب مقامی اثرورسوخ سے نکلتے نظر آئے ہیں اس دور میں نظریے کی بنیاد پہ ووٹ مانگتے دیکھا گیا ہے۔اس دور میں الیکشن کمپین کے دران ایک ووٹر سے ٹائم لیناہمالیہ سر کرنے کے مترادف سمجھا جارہاہے، ووٹ دینا نہ دینا تو بعد کی بات ہے۔ووٹر کے ذہنی سکون اور اپنے لیڈر سے بدلہ لینے سینے میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے یہی الیکشن سے دو ہفتے پہلے کے دن ہوتے ہیں۔ورنہ تو پورے پانچ سال ایک ووٹر اپنے لیڈر کے پیچھے ایسے رُلتا پھرتا ہے جیسے سسی اپنے محبوب پنوں کو بڑی بے چینی سے تھل میں تلاش کرتی رہی تھی۔اس دور کی الیکشن کمپین میں ہم نے جہاں امیدواروں کو ووٹرز کے سامنے ہاتھ باندھ کے واسطے دے کر ووٹ مانگتے دیکھا ہے وہیں پہ مختلف لیڈروں کو حلقے کے عوام کی طرف سے روڈ پہ ہی روک کر کربے عزت ہوتے بھی دیکھاہے۔
میرے اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پہ یہ بات کررہا ہوں۔ہمارے کسی دوست نے ہمیں اپنے ڈیرے پہ بلایا جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ کافی سارے لوگ اس ڈیرے پہ جمع ہیں اور ہر طرف ایک سیاسی پارٹی کے بینرز آویزاں تھے۔پتہ چلا کے آج ایک سیاسی پارٹی کے نمائندے نے اپنے لیے الیکشن کے حوالے سے وقت مانگاہے۔کچھ ہی دیر میں گاڑیوں کی لمبی قطار ڈیرے کی طرف آتے دیکھی چند نوجوانوں کو بینرز ہاتھ میں پکڑ کر رٹے رٹائے سیاسی نعرے لگانے کا کہا گیا۔اس امیدوار کے سامنے کاموں کی اک بڑی لسٹ رکھی گئی تمام کام الیکشنز کے فوری بعد ہوجانے کے وعدے کے ساتھ ہی وہ امیدوار رخصت ہوئے۔ڈیرے پہ بیٹھے بُزرگ نے گھڑی کی طرف دیکھا اور چونک سے گئے نوجوانوں کو جلدی جلدی یہ تمام بینرز اتارنے اور دوسری پارٹی کے بینرز فوری طور پر لگانے کو کہا۔
پتہ چلا کو بزرگ نے ایک ہی دن میں دو گھنٹے کے وقفے سے دو سیاسی پارٹیوں کے امیدواران کو ٹائم دے رکھا تھا۔تمام بینرز جلدی سے اتار دیئے گئے اور دوسری سیاسی جماعت کے بینرز جلدی سے آویزاں کر دیئے گئے اسی اثناء میں دوسری سیاسی جماعت کے امیدوار بھی آن پہنچے۔بینرز اتارے جانے کی جلدی میں ایک چھوٹا سا فلیگ پہلی سیاسی پارٹی کا نہیں اتارا جا سکا، وہ فلیگ اس بزرگ کی سامنے والی جیب پہ لگا ہوا تھا۔اس کے بعد خود سوچیے کہ کیسے کنٹرول کیا گیا ہوگا؟
ایک اور دوست نے اپنے ہاں ایک سیاسی جلسے میں شرکت کی دعوت دی وہاں پہ آئے امیدوار سے حال احوال لیا گیا۔جناب نے بڑی پھرتی اور چالاکی سے اپنی پوائنٹ سکورنگ بڑھاتے ہوئے کہا کہ میں آپ کے پاس ووٹ مانگنے نہیں میں تو آپ کو فلاں بزرگ کے فوت ہوجانے پہ فاتحہ پڑھنے آیا ہوں۔قابل ذکر بات یہ کہ اس بزرگ کو فوت ہوئے سات مہینے بیت چکے تھے۔اسی دوران اسی محفل میں بیٹھے ایک شرارتی لڑکے نے کہا سر ایسا کریں میرے ساتھ یہ جو دو بزرگ بیٹھے ہیں ان کی فاتحہ بھی ابھی پڑھ کے جائیں کیونکہ آپ نے اگلی بار پانچ سال بعد واپس آنا ہے تب تک یہ دو بزرگ اپنے دن پورے کر کے گزرگئے ہوں گے۔پوری محفل قہقہوں سے گونج اٹھی ۔
آجکل کادور اب مقامی سیاسی نمائندوں کے ہاتھوں سے نکلتا ہوا دور ہے ، عوام اب کافی حدتک سیاسی شعور حاصل کرچکے ہیں۔یہ دور مقامی سیاست دانوں سے زیادہ نظریے کا دور ہے۔ مقامی طور پر بلیک میل کر کے یا چھوٹی موٹی لالچ دے کر ووٹ لینے کا زمانہ نہیں ہے بلکہ اس دور کی الیکشن کمپین ایک نظریے سے ووٹ مانگ کرکافی کار کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔اب تھانہ کچہری یا پھر یونین کی سیاست کا دور نہیں بلکہ اب کچھ بڑا کر کے دکھانے کا زمانہ ہے۔اب ووٹر کو ایک پانی کا نلکا دے کر ووٹ پکا نہیں کیا جاسکتا۔یہ زمانہ ووٹر کے سیاسی شعور کازمانہ ہے حلقے کے امیدواران اگر پانچ سال بعد عوام میں جائیں گے تو اُن کے ساتھ کیا سلوک ہوگا، یہ اُس امیدوار سے زیادہ بہتر بھلا کون جانتاہے؟