کھلا خط
میں عالم ارواح میں بیٹھا تھا اور محسوس کیا کہ پاکستان کے حالات و واقعات پر آسمانوں میں خاص طور پر وہ حصہ جہاں پر پاکستان کے حکمران جمع ہیں اور پاکستان کے حالات پر بحث اور مباحثہ کررہے ہیں اور بڑی ہی بے چینی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ حضرت قائد اعظم ؒ اور ڈاکٹر محمد اقبال نمایاں جگہ پر تھے اور 70برس کے حکمران گول میز کے گرد جمع تھے ، وہاں جو خاص لوگ تھے اُن کا اور قائداعظم کا نقطہ نظر ایک تھا کہ ہر صورت میں پاکستان کو قائم رہنا چاہیے اور وہ لیڈر جو جمہوریت کے علم بردار بنے ہوئے تھے وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ نہیں پاکستان میں جمہوریت کا دور اور ایک بندہ ایک ووٹ کو اہمیت دینی چاہیے اس سے عوام میں شعور بے دا ر ہوتا ہے لوگوں میں احتساب کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے کہ ہر پانچ سال کے بعد وہ اپنی مرضی کے حکمران تبدیل کر سکتے ہیں مگر علامہ اقبال ، قائد اعظم اور وہاں خاص افراد کا پر زور اصرار تھا کہ یہ جو جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں وہ جمہوری نظام جو مغرب نے ہمیں دیا وہ قابل قبول نہیں کیونکہ اس میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولہ نہیں جاتا کیونکہ اکثریت کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے اور میرے ملک میں ستر فی صد سے زائد لوگ نا خواندہ ہیں اور انھیں اس بات کا شعور نہیں حاصل اور نہ ہی دو قومی نظریے اور دین میں یہ بات شامل ہے کہ ہم جمہوریت کو اپنے ملک کا نظام بنائیں چونکہ جمہوریت کی صورت میں لوٹ مار اور کرپشن بنیادی جمہوریتوں سے صوبائی اور قومی سطح تک پھیلی ہوئی ہوتی ہے جس کے ذریعے چند لوگوں کو خرید لیا جاتا ہے اور جو لوگ مالدار ہوتے ہیں جن کے پاس دولت زیادہ ہوتی ہے وہ اپنے سے کمتر لوگوں کو اپنی طاقت کے زور پر دبا لیتے ہیں جس کی بے شمار مثالیں گزشتہ 7 دیہائی میں پاکستان کے سیاسی نظام میں پائی جاتی ہیں ہمارے ملک میں دو وزرائے اعظم شہید کئے گئے ایک وزیر اعظم کو پھانسی پر جھلا دیا گیا ایک حکمران کا جہاز فضاء میں تباہ کر دیا گیا باقی جو سیاست دان ہیں اُن میں قیادت کا فقدان ہے اکثر حکمرانوں نے اتنا لوٹا کہ پاکستان کے 20کروڑ عوام کے جن کے پاس نہ دو وقت کی روٹی کھانے کا پیسہ ہے نہ بچوں کو تعلیم و تربیت دینے کے لئے پیسے ہیں نہ بیماروں کو سرکا ری ہسپتالوں میں علاج کی سہولیات دستیاب ہیں اُس کے باوجود بھی میرے ملک کے اکثریتی ناخواندہ عوام اب بھی اِن سیاست دانوں کے پیچھے برادریوں کے نام پر پر علاقائی تعصب کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوچکے ہیں اور یہی بات عالم ارواح میں گول میز کانفرنس جو کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال نے کی تھی اُس پر بحث ہورہی تھی کہ اس دفعہ پاکستان کہ دو قومی نظریہ کو اگر بچانا ہے اور ملک میں صاف اور شفاف قیادت لانے کی کوشش کرنی ہے تو کسی کو بہت اہم کردار ادا کر نا پڑے گا اور اُس میں غیر جانب دار رہتے ہوئے اُن تمام سیاست دانوں کا محاسبہ اور احتساب کرنا ہوگا جب سیاست دانوں نے پاکستان کے غریب 20کروڑ عوام کو مختلف نعروں میں پھنسا دیا ہوا ہے کوئی کہتا ہے کہ روٹی کپڑا اور مکان کوئی کہتا ہے کہ موٹر وے اور سی پیک اور ہندوستان کوئی کہتا ہے کہ دین کے نام پر ووٹ لے کر ہم اسمبلی پر پہنچے گے اور غربت کو دور کریں گے یہ وہ لوگ ہے جو تمام پہلے بھی آزمائے جاچکے ہیں اور اِن لوگوں نے آج تک پاکستانی عام آدمی کے لئے کچھ بھی نہیں کیا سوائے اپنے بینک بیلنس اور اپنے پیٹ بڑے کئے ہیں اور غریب آدمی کے بدن سے کپڑا تو کیا اُس کی چمڑی تک اُتارنے سے یہ لوگ دریغ نہیں کررہے یہ ساری بحث عالم ارواح میں چل رہی تھی اور وہاں پر بھی اختلافات کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا تھا کہ اچا نک میری بیٹی نے مجھے آواز دی کہ ابو جی پچھلے ماہ بجلی کا بل ادا نہیں ہوا تھا جس کی بنا پر محکمے والے ہمارا کنکشن کاٹنے باہر دروازے پر دستک دے رہے ہیں اور میں ہڑ بڑا کر اُٹھا اور باہر کی طرف لپکا اور میں ذہن میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا ہم لوگ جو مڈل کلا س ہیں کبھی بھی اطمینان سے اپنی ضروریات ِ زندگی پوری نہیں کر سکیں گے آخر کیوں !