پاکستان کے غمزدہ اور اچھے دنوں کے منتظر لوگوں نے ہمیشہ عدلیہ کے لئے ایک احترام اور نرم گوشہ رکھا ہے۔ عوام نے چیف جسٹس افتخار چودھری کے لئے ایک بھرپور تحریک چلائی اور انہیں دوبارہ چیف جسٹس بنوایا مگر جسٹس افتخار چودھری نے لوگوں کا مان نہ رکھا۔ انہیں مایوس کیا اور ایسی پالیسی اپنائی جو کسی کی سمجھ میں نہ آئی۔ لوگ اضطراب میں مبتلا یہ سوچتے رہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ جسٹس افتخار لوگوں کی امیدوں پر پورا اُترتے تو کمال ہو جاتا۔ ریٹائر ہونے کے بعد بھی وہ ہیرو کی طرح ہوتے۔
اب چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کو ایک لیڈر سے بھی زیادہ عوام نے عزت اور اعتماد بخشا ہے۔ پوری امید ہے کہ جسٹس ثاقب نثار انہیں مایوس نہیں کریں گے۔ ہم جسٹس ثاقب نثار کی جرا¿ت مندی اور ہنرمندی پر یقین رکھتے ہیں۔
اسی دوران جسٹس شوکت صدیقی کے ایک بیان سے صورتحال میں تہلکہ مچ گیا ہے۔ انہوں نے ایک ایجنسی کی طرف سے عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا ہے۔ شعیب علی سے میرا تعارف نہیں۔ انہوں نے ایک زبردست کالم لکھا ہے، ہمارا ماضی بھی عدلیہ کے لئے تحفظات سے بھرا پڑا ہے۔ ہر فوجی آمر کے لئے منظوری اور رضامندی کا فیصلہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے آیا تھا۔ اگرچہ مارشل لاءنام نہاد جمہوریت کے خلاف نافذ ہوتا ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ سیاستدانوں کی نااہلی اور کرپشن کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا تو پھر فوج ہی اقدام کرتی ہے۔ ہم آمریت کی مذمت کرتے ہیں مگر جمہوری آمریت یا آمرانہ جمہوریت کے لئے کیا کریں۔ کسی مارشل لاءکے خلاف کوئی آدمی باہر نہیں نکلا دونوں نظام قابل ستائش نہیں۔ عوام ہی باہر نکلیں پہلے اپنے ”لیڈروں“ کو پکاریں پھر للکاریں۔ اب بھی بات اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج نے کی ہے اور عزت مآب چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔ صرف وزیراطلاعات پاکستان برادرم بیرسٹر علی ظفر نے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ نامور ایڈووکیٹ اور سابق وفاقی وزیر ایس ایم ظفر کے بیٹے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار کے نوٹس لینے پر سب حقائق سامنے آ جائیں گے۔ اب سے پہلے ہم نے ایسی کوئی بات نہ سُنی نہ پڑھی۔ عزت مآب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پہلے یہ بات کیوں نہ کی۔ کیا انہیں کسی دوسرے جج کی تائید حاصل ہے۔ اس بات کو چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ ضرور ڈسکس کرنا چاہئے تھا۔ ہم میجر جنرل آصف غفور کی طرف سے بھی کسی وضاحت کے منتظر ہیں۔
ہمارے دوست کالم نگار محمد اسلم خان نے دانشمندی اور حقیقت پسندی سے بات کی ہے اور نوائے وقت کے کالم نگار ہونے کا حق ادا کر دیا ہے۔
”خدا را یہ مت بھولیں کہ دشمن گھات میں ہے۔ اگر مجرم کوسزا نہ ملے گی تو عدل کی عمارت کا شہروں کی تجاوزات میں شمار کیوں نہ کیا جائے۔ آگ سے آگ کبھی نہیں بجھتی۔ اس کے لئے پانی ہی چاہئے ہوتا ہے۔“
اس موقعہ پر ایک سابق چیف جسٹس منیر نجانے کیوں یاد آ رہا ہے۔ ایک ہندو جج عزت مآب جج جسٹس بھگوان داس نے ایک مسلمان ملک پاکستان کا جج ہونے کا ثبوت فراہم کیا تھا۔ ایس ایم ظفر کی طرف سے ایک تقریب میں جسٹس بھگوان داس کی بہت تعریف ہوئی۔ کمپیئر اور دانشور تنویر عباس تابش نے جسٹس بھگوان داس کی موجودگی کو ایک قومی آسودگی میں بدل دیا۔ ہم جسٹس کارنیلس کا بھی بہت احترام کرتے ہیں۔ ہمیں حیرت ہوئی کے جسٹس شوکت کالم نگار اور دانشور سابق مشیر وفاقی حکومت عرفان صدیقی کے عزیز ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عرفان صدیقی نواز شریف کے قریبی دوست ہیں مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی آدمی کا قریبی عزیز ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭
جتنی پابندی سے افواج پاکستان کا نمائندہ رسالہ راولپنڈی سے ماہنامہ ”ہلال“ شائع ہوتا ہے۔ کوئی رسالہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ بہت قابل ذکر مزاح نگار بریگیڈئر صدیق سالک بھی اس کے سرپرست تھے۔ میرے دوست برادرم ممتاز اقبال ملک بھی اس کے ایڈیٹر رہے ہیں۔ گورنمنٹ کالج میں بھی انہوں نے رنگ جمایا تھا پھر باقاعدہ حمایت کی۔ برادرم مجیب الرحمن شامی کے ساتھ انہوں نے بہت کام کیا۔ آجکل میجر جنرل آصف غفور اس کے چیف پیٹرن ہیں۔ وہ آجکل خبروں میں بہت مذکور ہوتے ہیں۔ وقار اور اعتبار والے آدمی ہیں۔ ہلال کے ایڈیٹر یوسف عالمگیرین ہیں۔ وہ لاہور میں میری کلاس میں تھے۔ اس رشتے کو وہ ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ وہ بہت اہلیت اور فرض شناسی کے آدمی ہیں۔ صبا زیب ڈپٹی ایڈیٹر ہیں۔
ہر نیا رسالہ پہلے سے بہتر ہوتا ہے۔ اس میں فوجی افسران اور جوانوں کی تحریریں بھی ہوتی ہیں۔ رابعہ رحمان کی تحریریں بہت باقاعدگی سے شائع ہوتی ہیں۔ ان کے شوہر فوجی افسر ہیں۔ یاسر پیرزادہ بھی تقریباً ہر رسالے میں ایک اچھی اور دلچسپ تحریر کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ تازہ رسالے میں بھی ”ٹھنڈا گرم پانی“ کے نام سے اس کی بہت مزیدار تحریر شائع ہوئی ہے۔ماہنامہ ہلال بہت خوبصورت کاغذ پر بہت اچھی طرح مرتب کیا گیا ہے۔ یوسف عالمگیرین کو بے حد مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
ایک رسالہ ”پنجاب رنگ“ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آرٹ اینڈ کلچر ”پیلاک“ لاہور مجھے ملتا رہتا ہے۔ اس رسالے کو بھی خوبصورت اور معیاری بنانے میں چیف ایڈیٹر ڈاکٹر صفرا صدف بہت محنت اور محبت سے دلچسپی لیتی ہیں۔ ڈپٹی ایڈیٹر محمد عاصم چودھری اور خاقان حیدر غازی بھی اپنی چیف ایڈیٹر کی دل و جان سے مدد کرتے ہیں۔ مقالے نگاروں کے لئے ایک ہدایت نامہ بھی چھاپا گیا ہے۔ ایک ہدایت ملاحظہ کریں۔ ”مقالے دے نال اہدا خلاصہ انگریزی زبان وچ خوش خط لکھ کے بھیجا جائے، اس دے بغیر تحریر شائع نہیں ہوئے گی“ پنجابی ناول نگاری کی ریت روایت بارے صائمہ بتول کا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ خوبصورت اداریہ خود بلکہ خودبخود ڈاکٹر صغرا صدف نے لکھا ہے۔ ہم مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
”ادب دوست“ ہمارے محبوب دوست برادرم اے جی جوش شائع کرتے تھے۔ انہیں شعرا و ادب سے زیادہ شاعروں ادیبوں سے محبت تھی۔ ان کے کام کو ان کے صاحبزادے خالد تاج آگے بڑھا رہے ہیں۔ لگتا ہے اے جی جوش اپنے بیٹے خالد تاج کے ساتھ ساتھ ہیں۔ ڈاکٹر نثار رابی کا ایک تجزیہ اردو مثنوی ”کتاب نامہ“ کے لئے بہت خوب ہے۔
رومانی ماہنامہ ”آئینہ قسمت“ پیر سید انتظار حسین زنجانی شائع کرتے ہیں جس میں پیش گوئیاں اور رومانیات اور ان دیکھی دنیا کے حالات کے حوالے سے بہت پراسرار اور پرکشش تحریریں شائع کی جاتی ہیں علم نجوم کے حوالے سے بھی کچھ نہ کچھ شامل اشاعت ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38