قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے آج کے انتخابات‘ قومی اداروں‘ قائدین اور ووٹروں کا امتحان
ملک میں رائج وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے تسلسل میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات آج مورخہ 25؍ جولائی کو منعقد ہورہے ہیں۔ انتخابات کیلئے پولنگ صبح آٹھ بجے شروع ہوگا جو بلاتعطل شام چھ بجے تک جاری رہے گا جس کے بعد متعلقہ پولنگ سٹیشنوں پر ووٹوں کی گنتی کا سلسلہ شروع ہوگا اور گنتی مکمل ہونے کے بعد ریٹرننگ افسر اپنے اپنے پولنگ سٹیشن کے مصدقہ نتائج الیکشن کمیشن کو بھجوائیں گے۔ پاکستان الیکشن کمیشن اور عبوری نگران سیٹ اپ کے زیراہتمام منعقد ہونیوالے ان انتخابات میں مجموعی دس کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 مرد و خواتین ووٹر حق رائے دہی استعمال کرینگے جس کیلئے ملک بھر میں 85 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں۔ ان میں سے 17 ہزار پولنگ سٹیشنوں کو انتہائی حساس قرار دے کر وہاں سکیورٹی انتظامات سخت رکھے گئے ہیں۔ آج انتخابات کے موقع پر پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے تین لاکھ 70 ہزار پاک فوج کے جوانوں سمیت آٹھ لاکھ کے قریب سکیورٹی اہلکار تعینات کئے گئے ہیں جبکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کیلئے سرکاری ہسپتالوں کو پیشگی الرٹ کرکے تمام سہولیات یقینی بنانے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ حساس پولنگ سٹیشنوں پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کردیئے گئے ہیں اور کنٹرول رومز کو بھی اپریشنل کردیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق ووٹروں کی سہولت کیلئے ہر کلومیٹر کے فاصلے پر ایک پولنگ سٹیشن قائم کیا گیا ہے۔ ان میں مردوں کیلئے 23 ہزار 358 اور خواتین کیلئے 21 ہزار 679 پولنگ سٹیشن الگ الگ قائم کئے گئے ہیں جبکہ خواتین اور مردوں کے 40 ہزار 236 مشترکہ پولنگ سٹیشن بھی بنائے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق آج کے انتخابات کیلئے مجموعی 22 کروڑ بیلٹ پیپر شائع کئے گئے ہیں اور پہلی بار سکیورٹی فیچرز پر مبنی بیلٹ پیپروں کی اشاعت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ آفیشل کوڈ مارک اور متعلقہ اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسر کے دستخطوں کے بغیر بیلٹ پیپر گنتی سے خارج کردیا جائیگا۔ اسی طرح واٹر مارک والے بیلٹ پیپر کے سوا کوئی دوسرا بیلٹ پیپر گنتی میں شمار نہیں ہوگا۔ آج پولنگ کے دوران مجموعی طور پر 16 لاکھ افراد الیکشن ڈیوٹی سرانجام دینگے جن میں آٹھ لاکھ سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ 85 ہزار 307 ریٹرننگ افسر‘ اتنے ہی پریذائیڈنگ افسر‘ پانچ لاکھ دس ہزار 356 اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسر اور 2 لاکھ 55 ہزار 178 پولنگ افسر شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کیلئے ضابطۂ اخلاق جاری کیا گیا ہے جس کی خلاف ورزی پر ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دو سال قید یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔ لاہور میں بیلٹ پیپرز کی حفاظت کیلئے فوجی اہلکار تعینات کئے گئے ہیں جبکہ الیکشن سے متعلق تمام سامان فوجی اہلکاروں ہی کی زیرنگرانی پولنگ سٹیشنوں اور پولنگ بوتھوں میں فراہم کردیا گیا ہے۔ آج پولنگ اور ووٹوں کی گنتی کے دوران بلاتعطل بجلی کی فراہمی کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جس کیلئے دو کنٹرول روم قائم کرکے نیشنل پاور کنٹرول سنٹر اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو خصوصی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ آج ملک بھر میں عام تعطیل ہے جبکہ سکیورٹی کے انتظامات کے تحت بلوچستان کے کئی اضلاع میں آج انٹرنیٹ سروس بھی بند رہے گی۔ اسی طرح دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر پاک افغان سرحد کو بھی سیل کردیا گیا ہے جبکہ افغان مہاجرین کی واپسی بھی دو روز کیلئے منسوخ کردی گئی ہے اور پاک افغان سرحد تجارت کیلئے بھی بند رہے گی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ملک بھر میں الیکشن ڈیوٹی کیلئے پاک فوج کے جوانوں کی تعیناتی کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے جس کا مقصد شفاف انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہے۔
آج جہاں آزادانہ‘ منصفانہ‘ شفاف اور پرامن انتخابات کو یقینی بنانے کیلئے نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن کا امتحان ہے وہیں آج اگلی پانچ سال کی آئینی میعاد کیلئے اپنی قیادت اور نمائندوں کے انتخاب کے معاملہ میں آج ووٹروں نے بھی کڑے امتحان سے گزرنا ہے کیونکہ انکے حق رائے دہی کے استعمال سے ہی ملک کے مستقبل کی سمت کا تعین ہونا ہے اور جمہوریت کی گاڑی نے استحکام کی منزل کی جانب گامزن ہونا ہے۔ اس وقت تین بڑی قومی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف‘ پیپلزپارٹی اور انکے علاوہ دینی اتحاد متحدہ مجلس عمل میں شامل پانچ جماعتوں اور دوسری جماعتوں اے این پی‘ ایم کیو ایم پاکستان‘ پاک سرزمین پارٹی‘ پختون خوا ملی عوامی پارٹی‘ پاکستان نیشنل پارٹی‘ تحریک لبیک پاکستان‘ اللہ اکبر تحریک‘ ملی گی اورایک دوسرے انتخابی اتحاد پاکستان پیپلز موومنٹ میں شامل 16 کے قریب جماعتوں اور سندھ میں قائم انتخابی اتحاد جی ڈی اے کے امیدواروں اور آزاد امیدواروں سمیت مجموعی 12 ہزار امیدوار میدان عمل میں ہیں جن میں سے قوم نے اپنی بہترین قیادت کا انتخاب کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں ہر پارٹی اور اتحاد نے اپنے اپنے منشور کے ذریعے ملک اور قوم کی بہتر قیادت کا دعویٰ کیا جبکہ ان جماعتوں اور اتحادوں کے سربراہان اور دوسرے قائدین 23؍ جولائی کی شب انتخابی مہم کا مرحلہ ختم ہونے تک مختلف جلسوں‘ ریلیوں‘ کارنر میٹنگز اور دوسرے انتخابی اجتماعات کے ذریعے ووٹروں کے دل گرماتے اور انہیں اپنی جانب مائل کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ تاہم انتخابی مہم شروع ہونے اور انتخابی شیڈول جاری ہونے سے بھی بہت پہلے ملک میں سیاسی محاذآرائی کی فضا گرم ہوگئی تھی جبکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران ہی اسکی قیادت اور حکمران خاندان کیلئے شروع کئے گئے احتساب کے عمل اور اس عمل کے دوران میاں نوازشریف‘ انکی صاحبزادی مریم نواز‘ داماد کیپٹن صفدر اور پھر پولنگ سے تین روز قبل مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حنیف عباسی کی سزائوں کے باعث انتخابات میں حصہ لینے کی نااہلیت اور اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے متعدد امیدواروں کے اپنی وفاداریاں تبدیل کرکے دوسری پارٹیوں بالخصوص تحریک انصاف میں جانے اور بعض کے آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرنے سے انتخابی فضا میں ایک عمومی تاثر قائم ہوا کہ بعض حلقوں کی جانب سے کسی طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت مسلم لیگ (ن) اور اسکی قیادت کو دیوار سے لگانے اور اسے انتخابی میدان سے آئوٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) ہی نہیں‘ پیپلزپارٹی‘ اے این پی‘ جمعیت علماء اسلام (ف) اور دوسری جماعتوں کی جانب سے بھی تحریک انصاف اور اسکے قائد عمران خان کیلئے انتخابی میدان صاف کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے نگران سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن کے زیراہتمام انتخابات کے انعقاد پر تحفظات کا اظہار کیا جانے لگا۔
اگرچہ نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصرالملک‘ چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سرداررضا خان کی جانب سے متعدد مواقع پر آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے عزم کا اظہار کیا گیا مگر انتخابی عمل مکمل ہونے تک نیب کی جانب سے جس انداز میں بطور خاص مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے قائدین اور امیدواروں کو ٹارگٹ کرکے انکی گرفتاریوں‘ سزائوں اور دوسرے اقدامات کا سلسلہ جاری رکھا گیا اس سے آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے دعوے باطل ہوتے نظر آتے رہے۔ اسی طرح انتخابی عمل کے دوران صوبہ کے پی کے اور بلوچستان میں بھیانک دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا جو انتخابی مہم کے اختتام تک امیدواروں کو ٹارگٹ کرکے جاری رہا اس سے پرامن انتخابات کا انعقاد بھی مشکوک نظر آنے لگا۔ اس تناظر میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کے دوران امن و امان کے قیام کیلئے عساکر پاکستان کی معاونت طلب کی جس پر کورکمانڈرز میٹنگ میں الیکشن کمیشن کو ساڑھے تین لاکھ فوجی جوانوں کی خدمات فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم پاک فوج کے ان جوانوں سے امن وامان کے علاوہ پولنگ سٹیشنوں کے اندر بیلٹ بکسوں کی حفاظت اور انکی نگرانی میں ہی بیلٹ پیپروں کی ریٹرننگ اور پریذائیڈنگ افسروں کو منتقلی کا کام لینے کا بھی عندیہ ملنے لگا تو اس سے انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی اور بعض دوسری جماعتوں کے تحفظات مزید بڑھ گئے۔ اسی دوران بعض ریٹرننگ افسران کی جانب سے انکے کام میں مداخلت کی شکایات بھی الیکشن کمیشن کو بھجوائی گئیں جس پر سوشل میڈیا میں بھی شوروغوغا بلند ہوتا نظر آیا تو اس فضا میں انتخابات کے شفاف انعقاد کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) سمیت بعض جماعتوں کے تحفظات کو مزید تقویت ملنے لگی۔
اسی فضا میں آج عام انتخابات کا انعقاد ہورہا ہے تو بالخصوص انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے قوم کے اعتماد پر پورا اترنا الیکشن کمیشن اور نگران سیٹ اپ کا بہت بڑا امتحان ہے۔ اگر اس امتحان میں معمولی سا بھی جھول الیکشن کمیشن اور نگران حکمرانوں کے کھاتے میں پڑتا نظر آیا تو اس سے پورا انتخابی عمل مشکوک ہو سکتا ہے اور 2018ء کے انتخابات متنازعہ قرار پا سکتے ہیں۔ چنانچہ آج کا دن بطور خاص الیکشن کمیشن اور نگران حکمرانوں کیلئے قوم کے سامنے اپنی ذمہ داریوں کے معاملہ میں سرخرو ہونے کا دن ہے۔ الیکشن کمیشن نے بہرصورت اپنے ضابطۂ اخلاق کی بھی پابندی کرانی ہے‘ ووٹروں کو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کا آزادانہ موقع بھی فراہم کرنا ہے اور امن و امان کی فضا بھی یقینی بنانی ہے تاکہ ہر ووٹر بلاخوف و خطر اپنے گھروں سے نکل کر متعلقہ پولنگ سٹیشنوں میں حق رائے دہی کے استعمال کیلئے پہنچ سکے۔ یقیناً ووٹروں کے ٹرن آئوٹ نے انتخابی نتائج میں بنیادی کردار ادا کرنا ہے اس لئے انہیں اپنی آزاد مرضی کے تحت آج ہر صورت اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہیے۔ عوام کی عدالت میں ووٹرز نے ہی جج کا کردار ادا کرنا ہے۔ ووٹر آج اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہے گا اور حق رائے دہی کے قومی فریضہ کی ادائیگی کے وقت کسی مفاد‘ مجبوریوں کا اسیر نہیں ہوگا تو اسکی رائے آج ملک کی ترقی و خوشحالی‘ سسٹم کے استحکام اور جمہوری اقدار کے فروغ کی ضمانت بن جائیگی۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔