پاکستان کی تاریخ میں کبھی شفاف، یکساں اور کڑا احتساب نہیں کیا جاسکا۔ اس کی بڑی وجہ کرپٹ افراد کا بااثر اور بااختیار ہونا ہے۔ قومی لٹیرے اس قدر بااثر ہوچکے ہیں کہ وہ سیاسی بصیرت اور اہلیت سے عاری ہونے کے باوجود پاکستانی ریاست کے سب سے بڑے مناصب پر فائز ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کی دوبڑی جماعتوں نے احتساب کے ادارے کو آزاد، خودمختار اور غیر جانبدار بنانے سے گریز کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرپشن اس حد تک پہنچ گئی کہ ریاست کی آزادی، سلامتی اور خودمختاری شدید خطرے میں پڑ گئی۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور قومی لٹیرے ’’مکافات عمل‘‘ کا شکار ہونے لگے۔ پاکستان کے صدر ممنون حسین نے پیشین گوئی کی کہ قومی دولت لوٹنے والے عبرت کا نشان بنیں گے ان کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی۔ قانون کی طاقت پہلی بار اپنا اثر دکھا رہی ہے۔ نیب کے دلیر اور جرأت مند چیئرمین (ر) جاوید اقبال نے مشنری جذبے کے ساتھ احتساب کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دنیا کے کسی جمہوری ملک میں مجرموں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ افسوس پاکستان کے ریاستی ادارے ابھی اسقدر مضبوط اور مستحکم نہیں ہوئے کہ وہ انتخابات سے قبل سیاست سے مجرموں کی ’’بھل صفائی‘‘ کرسکیں۔ یہ اس وقت ممکن ہوگا جب ریاستی ادارے خود اپنا احتساب کرکے عوام کا مکمل اعتماد حاصل کرلیں گے۔ جب سیاستدانوں کا احتساب کیا جاتا ہے تو وہ یہ بہانہ بناتے ہیں یا جواز پیش کرتے ہیں کہ ان کا احتساب ہر پانچ سال کے بعد انتخابات کے ذریعے عوام کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کا اجتماعی سیاسی شعور اگر پختہ ہوتا تو قومی دولت لوٹنے والے اور دیگر جرائم میں ملوث مجرمین انتخابی اُمیدوار بننے کی جرأت ہی نہ کرتے۔ 2018ء کے انتخابات ہر لحاظ سے منفرد اور اہم ہیں۔ پاکستان کے عوام کو تسلسل کے ساتھ تیسرے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا موقع مل رہا ہے۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی ’’کارکردگی‘‘ ان کے سامنے ہے۔ الیکٹرانک میڈیا نے تمام بڑے سیاسی چہروں کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ اب کوئی لیڈر یا اُمیدوار عوام کو دھوکہ اور فریب نہیں دے سکتا۔ عوام اگر اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق ووٹ دینے کا فیصلہ کرلیں تو وہ آج یوم انتخاب کو یوم احتساب بنا کر فیض احمد فیض کا خواب پورا کرسکتے ہیں جنہوں نے کہا تھا۔
ہر اک اولیٰ الامر کو صدا دو
کہ اپنی فرد عمل سنبھالے
اُٹھے گا جم سرفروشاں
پڑیں گے دارورسن کے لالے
کوئی نہ ہوگا کہ جو بچا لے
جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی
یہیں پر عذاب و ثواب ہوگا
یہیں سے اُٹھے گا شور محشر
یہیں پہ روز حساب ہوگا
اگر پاکستان کے عوام نے اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے آج کے تاریخی اور سنہری موقع سے فائدہ نہ اُٹھایا اور قومی لٹیروں کے خلاف انتقامی جذبے کے ساتھ ووٹ ڈال کر ان کو سیاست سے نکال باہر نہ کیا تو وہ ووٹ کی طاقت کو اپنی کرپشن اور لوٹ مار کو بچانے کے لیے استعمال کریں گے اور پاکستان کی سلامتی کو بھی دائو پر لگادیں گے۔ پاکستان کے عوام بڑے سادہ لوح ہیں۔ بلند بانگ دعوؤں، پرفریب وعدوں، منافقانہ نعروں اور سفید جھوٹ کے جال میں آجاتے ہیں۔ وہ یہ سادہ سی بات بھی نہیں سمجھ پاتے کہ جو سیاستدان انتخابی مہم پر اربوں روپے خرچ کررہے ہیں وہ منتخب ہوکر عوام کی خدمت نہیں کریں گے بلکہ اپنے انتخابی اخراجات بھی قومی خزانے سے پورے کریں گے اور اگلے انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے مزید لوٹ مار کریں گے۔ پاکستان کے آج ہونے والے انتخابات اپنی تاریخ کے منفرد اور غیر معمولی انتخابات ہیں۔ ان انتخابات میں اس قدر سیاسی جماعتیں، گروپ اور آزاد اُمیدوار حصہ لے رہے ہیں جو انتخابی تاریخ کا نیا ریکارڈ ہے۔ ایم ایم اے میں شامل مذہبی جماعتیں ایک بار پھر ایک پلیٹ فارم سے انتخاب لڑرہی ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان اور ملی لیگ‘ (اللہ اکبر تحریک)‘ مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بنک توڑیں گی۔ بلاول بھٹو نے انتہائی کامیاب انتخابی مہم چلا کر اپنی سیاسی بصیرت سے پی پی پی کے جیالوں اور عوام کو متاثر کیا ہے۔ توقع ہے پنجاب میں پی پی پی کا 2013ء کی نسبت ووٹ بنک بڑھے گا جو تحریک انصاف کے ووٹ بنک کو متاثر کریگا۔ کراچی فری فال آل بن چکا ہے لہذا انتخابی نتائج حیران کن اور غیر متوقع بھی ہوسکتے ہیں۔ معلق پارلیمنٹ کی صورت میں بلیک میلنگ ہوگی اور قومی و عوامی مفادات متاثر ہوں گے کیوں کہ کرپٹ انتخابی نظام میں صرف لٹیرے ہی منتخب ہوتے ہیں جو ریاست اور عوام پر رحم نہیں کرسکتے۔ نوجوان لکھ رکھیں کہ جب تک پاکستان کا استحصالی اور شیطانی انتخابی نظام تبدیل نہیں کیا جاتا پاکستان کا سیاسی قبلہ کبھی درست نہیں ہوسکے گا اور لوٹ مار مفاد پرستی موقع پرستی اور اقربا پروری اسی طرح جاری رہے گی اور ریاست کے تمام ادارے انحطاط پذیر رہیں گے۔
پاکستان کے عوام نے اگر کرپٹ اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل اُمیدواروں کا احتساب نہ کیا تو قانونی احتساب انتخابات کے بعد بھی جاری رہے گا۔ عوام اگر مصلحتوں اور مکروفن کا شکار ہوبھی جائیں ریاستی ادارے آئین اور قانون کے مطابق یکساں اور شفاف احتساب کرکے ریاست کو میگا کرپشن سے پاک کردیں گے کیوں کہ پاکستان اور کرپشن اب مزید اکھٹے نہیں چل سکتے۔ حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ کے پر عزم اور سرگرم ڈائریکٹر ابصار عبدالعلی نے ’’معلق یا مستحکم پارلیمان‘‘ کے موضوع پر فکری نشست کا اہتمام کیا جس میں سینئر صحافی سجاد میر تجزیہ نگار سلمان غنی، کالم نگار ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر اور راقم نے اظہار خیال کیا جس میں شفاف انتخابات، یکساں احتساب اور ریاستی اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود کے اندر رہنے پر زور دیا گیا۔ مقررین نے کہا کہ پاک فوج سلامتی کا منظم اور فعال ریاستی ادارہ ہے جسے عوام کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔ پاکستان کو چوں کہ سلامتی کے علاوہ سیاسی اور معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے اس لیے قومی مفاد کا تقاضہ یہ ہے کہ منتخب ہونے والی پارلیمانی جماعتیں قومی اتفاق رائے اور یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی حکومت تشکیل دیں تاکہ پوری قوم متحد ہوکر پاکستان کو لاحق چیلنجوں کا مقابلہ کرسکے اور اندرونی و بیرونی سازشوں کو ناکام بناسکے۔ پاکستان کے عوام اپنا قومی فرض پورا کرنے کے لیے اپنے گھروں سے نکلیں اور پر امن اور پور سکون رہتے ہوئے ووٹ کا حق اپنے ضمیر کے مطابق استعمال کریں اور آج کے صدیوں بعد ملنے والے سنہری موقع کو ضائع نہ جانے دیں۔ پاکستان کے عوام ہاتھ اُٹھائیں اور کائنات کے قادر مطلق اور بزرگ و برتر رب کے حضور عاجزی اور انکساری کے ساتھ دعا مانگیں کہ وہ آج کے انتخابات کو ریاست اور بیس کروڑ عوام کے لیے باعث رحمت بنادے اور غریب و مقروض پاکستانی قوم کو لٹیروں سے ہمیشہ کے لیے نجات دلادے آمین:۔
ووٹ کو عزت دو
جھوٹ کو ذلّت دو
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024