میں جب بھی پچپن میں کوئی محاورہ سنتا تو اس کو مسترد کرنے کیلئے موجود دلائل و شواہد کی مدد لیتا۔ شاید یہی پس منظر تھا کہ جب میں نے اپنی پہلی کتاب فن خبر نویسی لکھی تو خبر کی لارڈ نارتھ کلف کی مشہور زمانہ اور آسان فہم تعریف کو جسے صحافت کی نظرمیں تعلیم حاصل کئے بغیر صحافت کرنے والوں میںسے ہر زیرک اور ذہین شخص‘ نوآموز اور نو وارد نوجوانوں کو صحافت کی تفہیم اسی تعریف کے حوالے سے کراتا اور پھر علوم صحافت میں ماہر ہونے کی داد سمیٹتا‘ میں نے اس تعریف کو کہ ’’کتا بندے کو کاٹے تو خبر نہیں‘ بندہ کتے کو کاٹے تو خبر ہے۔‘‘ اس کے لغوی معنی ظاہری اور اصطلاحی یعنی باطنی دونوںحوالوں سے مسترد کر دیا کہ اگر مراد جو یقینا لارڈ نارتھ کلف کے ذہن میں تھی کہ کسی واقعہ کا خلاف معمول ہونا خبر ہے اور کسی واقعہ کا معمول کے مطابق ہونا خبر نہیں تو میں نے بے شمار خلاف معمول واقعات کا خبر نہ ہونا اور عید پر یا یوم آزادی اور دوسرے تہواروں کا معمول کے مطابق ہونے کو خبر کے طورپر شائع کرنے کے حوالے دیئے اور ظاہر معنوں میں یہ کہہ کر اگر کتا بندے کو کاٹے تو بھی خبر ہے اور اگر کتا کسی بھی ملک کے صدر یا وزیراعظم کاٹے تو بہت بڑی خبر وغیرہ وغیرہ۔
بات اس وقت صحافت کے حوالے سے ایسے ہی پس منظر بیان کرنے کیلئے سامنے آگئی وگرنہ بات تو ’’بڑے لوگوں کی بڑی باتیں‘‘ پر کرنا تھی۔ اسی وضاحت کے ساتھ کہ جب بڑے لوگوں کی پہچان ان کی دیانتداری‘ دانائی‘ ایثار اور بالغ نظری سے ہٹ کر عہدے‘ پیچھے اور اثر و رسوخ کے حوالے سے ہونے لگی تو بڑے لوگوں کی چھوٹی باتیں کا محاورہ یا اصطلاح بھی استعمال ہونے لگے۔ دراصل اسے لوگ جو بنیادی انسانی خوبیوں اور اوصاف سے محروم ہوں‘ وہ خواہ معاشرے میں کتنے ہی نمایاں اور بڑے نظرآئیں‘ ان کو ان کے خوشامدی اورحاشیہ نشین ہی بڑا ہونے کے طورپر متعارف کرواتے ہیں وگرنہ وہ چھوٹے ہی ہوتے ہیں۔ ذہن‘ عقل‘ سوچ اور عمل ہر اعتبار سے چھوٹا ۔بڑا آدمی تو خود احتسابی کے مستقل عمل کو اختیار کرتا ہے۔ اپنی خامیوں کو تسلیم کرتا ہے اور دوسرے کی خامیوں کو نظرانداز اور اپنی خوبیوں پر انکساری سے شرما جاتا ہے اور دوسروں کی خوبیوں کی تشہیر کرتا ہے۔ چھوٹا آدمی جب حالات و واقعات یا قسمت کی وجہ سے کسی بڑی کرسی یا منصب پر فائز ہوتا ہے تو اپنی خامیوں کی نشاندہی کرنے والے کو اپنا دشمن سمجھنا شروع کرتا ہے اور خودساختہ خوبیوں کو اجاگر کرنے والوںکو ذہین اور اپنا خیرخواہ سمجھتا ہے اور خوشامد اور تعریف کے اس فرق کو ہرگز قبول نہیں کرتا کہ تعریف اسے کہتے ہیں کہ کرنے والا سمجھے وہ درست بات کر رہا ہے اور سننے والا اسے بس اس طرح قبول نہ کرے بلکہ انتہائی عجز سے کہہ دے کہ حقیقت ایسی نہیں جو آپ بیان کر رہے ہیں۔ خوشامد کرنے والا جانتا ہے کہ وہ غلط کہہ رہا ہے اور جس کی خوشامدی کی جا رہی ہے‘ وہ سمجھتا ہے کہ بالکل درست بات کی جا رہی ہے۔
کوئی بھی بڑا شخص زندگی کے کسی شعبہ میں بڑا نہیں ہوا جب تک اس نے اپنی غلطیوں اور خامیوں کا ادراک نہ کیا اور اس کی اصلاح نہ کی۔ میں یہاں عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ کی مثال دینا چاہوں گا۔ وہ ایسے ہی عالمی بڑی شخصیت نہیں بن گئے بلکہ انہوں نے اپنے بچپن سے جوانی تک کی اپنی غلطیوں کی خود نشاندہی کی جن سے بجز ان کے کوئی آگاہ نہیں تھا۔ وہ خود بتاتے ہیں کہ عوامی جمہوریہ چین کے صدر کا (میرا) بچپن کیسے گزرا۔ اس کی کیا کمزوریاں تھیں۔ ایک واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ آج کے بچوں‘ نوجوانوں اور بڑوں سبھی کیلئے اس میں ایسا سبق ہے کہ اس پر عملدرآمد سے تربیت کا ایسا معیار قائم ہو سکتا ہے کہ معاشرہ سدھر جائے۔ چین کے صدر کا کہنا ہے کہ وہ بچپن میں بہت خودغرض تھے اور یہ عادت ان کی شخصیت پر خودغرضی اور مفاد پرستی کی ایسی سیاہ چادر کے طورپر دیکھی جا سکتی تھی کہ جس کے نیچے ہر خوبی چھپ گئی تھی۔ میرے والد نے میری تربیت جس انداز سے کی وہ اولاد کی تربیت کے خواہشمند والدین کیلئے کروڑوں ڈالر کا نسخہ ہے۔
میں اپنی خودغرضی کے سبب ہمیشہ سب سے اچھی چیز پر ہاتھ مارتا اور پھر میری یہ خودغرضی کسی سے ڈھکی چھپی نہ رہی اور میرے گھر والوں نے عملاً ناپسند کرنا شروع کر یا اور دوست مجھ سے پیچھے ہٹ گئے۔ یہ تلخ حقیقت جاننے کے باوجود کے میں اپنی اس بری عادت کی وجہ سے تنہا ہو رہا ہوں‘ یہ عادت چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ یقینا میرے والد کو میری کردار سازی سے جو دلچسپی تھی ان پر میری اس بری عادت کا کتنا برا اثر پڑتا تھا‘ وہ کتنے دبائو میں تھے‘ میری اصلاح کیلئے کیا کیا تدبیریں سوچتے تھے‘ مجھے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ البتہ مجھے اتنا یاد ہے کہ ایک روز انہوں نے نوڈلز کے دو پیالے تیار کئے‘ دونوں میرے کھانے کی میز پر رکھ کر مجھے بلایا اور کہا کہ ایک پیالہ تمہارے لئے اور اس کے انتخاب کا حق بھی تمہارا ہی ہے۔ ایک پیالے میں نوڈلز کے اوپر ایک انڈا رکھا تھا اور دوسرے پیالے میں صرف نوڈلز ہی نظر آرہی تھیں۔ میں نے اپنی لالچی طبیعت کے پیش نظر انڈے والا پیالا اٹھا لیا۔ والد نے دوسرا بچا ہوا پیالہ لیا۔ ہم دونوں نے مزے سے کھانا شروع کیا۔
میں نے دیکھا کہ والد بھی انڈا کھا رہے ہیں حالانکہ پیالے کے اوپر انڈا نہیں تھا۔ مجھے پہلے تھوڑی حیرت ہوئی اور پھر تو ایک جھٹکا لگا جب دیکھا کہ اس پیالے میں نوڈلز کے نیچے دو انڈے تھے۔ والد میرے لالچ کے باوجود آج جیت گئے اور میں خسارے میں چلا گیا اور چونکہ ان دنوں انڈے بالکل ناپید تھے صرف بہت بڑے تہوار پر ہی میسرآسکتے تھے۔ ایسے میں ایک انڈے کے لالچ میں دو انڈوں سے محروم ہونے کا صدمہ میں برداشت نہیں کر سکتا تھا حالانکہ تھوڑی دیر پہلے ہی میں اپنے انتخاب پر خود کو مبارکباد دے رہا تھا۔ اپنی چالاکی اور دانائی پر اترا رہا تھا مگر یہ سب تو الٹ ہو گیا۔ اب میں اپنے فیصلے پر پچھتا رہا تھا۔ میرے والد میری حالت دیکھ کر مسکرائے اور کہا میرے بیٹے یاد رکھو جو تمہاری آنکھیں دیکھتی ہیں‘ ضروری نہیں وہ ویسا ہی ہو یا وہی درست ہو۔ اگر تم دوسروں کو ان کے فائدے سے محروم کرنے کی نیت رکھو گے تو نقصان میں تم ہی رہو گے۔ اگلے دن میرے والد نے پھر دو پیالے اسی طرح تیار کئے پھر مجھے پہلے پیالہ اٹھانے کی دعوت دی۔ میں بہت چالاک تھا وہ پیالے جس پر ایک انڈا نظر آرہا تھا اسے چھوڑ دیا اور دوسرا پیالہ جس میں کل دو انڈے نوڈلز کے نیچے تھے اٹھایا‘ فاتحانہ مسکراہٹ سے باپ کو دیکھا اور کہا آیئے کھانا شروع کرتے ہیں۔ باپ مزے مزے سے انڈا کھا رہا تھا اور میں ان دو انڈوں کو ڈھونڈ رہا تھا جو میرے اندازے کے مطابق نوڈلز کے نیچے چھپائے گئے تھے مگر آج میرے پیالے میں کوئی انڈا نہ تھا۔ میں آج پھر ہار گیا۔ میرا فیصلہ غلط ثابت ہو گیا۔ اپنے کئے پر پچھتا رہا تھا۔ حسرت بھری نگاہوں سے باپ کے پیالہ کو دیکھ رہا تھا۔ میرے باپ نے میری اس ہزیمت پر مسکر کر کہا بیٹا یاد رکھو‘ تجربہ پر ہمیشہ تکیہ نہیں کرنا۔ زندگی آپ کو دھوکہ بھی دے سکتی ہے مگر اس پر زیادہ آرزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس سے سبق سیکھ بیٹا یہ باتیں تمہیں کتابوںمیں نہیں ملیں گی ۔
تیسرے دن میرے باپ نے اس طرح نوڈلز کے دو پیالے تیار کئے۔ ایک بڑا انڈا اور دوسرا بغیر انڈے کے پھر مجھے دعوت دی کہ میں پہلے پیالہ اٹھا لوں اب کے میں نے کہا ابا! آج آپ پہلے پیالہ اٹھائیں۔ آپ اس خاندان کے سربراہ ہیں اور اس خاندان کی پرورش اور فلاح و بہبود کا سب بوجھ آپ نے اٹھایا ہے۔ میرے والد نے انکار نہ کیا اور جس پیالے میں نوڈلز کے اوپر انڈا تھا‘ اٹھا لیا۔ آج تو مجھے یقین تھا کہ گھر میں ایک ہی انڈا تھا جو والد کے پیالے میں چلا گیا۔ اب کل کی طرح میرے پیالے میں آج بھی کوئی انڈا نہیں‘ میں آرام آرام سے کھا رہا تھاکہ پیالے کی تہہ میں کوئی سخت چیز محسوس ہوئی۔ پیالے میں رکھے دونوں انڈوں تک میری رسائی ہونے پر مجھے جو خوشی ہوئی‘ وہ بیان سے باہر ہے۔ میرے والد پھر مسکرائے آج ان کی آنکھوں میں پدرانہ شفقت تھی۔ بولے میرے بیٹے! جب آپ دوسروں کا بھلا سوچو گے تو آپ کا بھلا ہوگا۔ اچھی چیزیں خود آپ کے پاس آجائیں گی۔ میں نے اپنے باپ کی یہ تینوں نصیحتیں جو بغیر کسی نصیحت کے کی گئیں‘ پلے باندھ لیں۔ کاروبار سیاست کی ہر جگہ میرے سامنے یہ تین باتیں رہیں اور میری کامیابی کی مرہون منت اپنے ہی انداز کی میرے باپ کی یہ تربیت میری زندگی کا مرکز و محور رہی۔ والدین بچوں کی تربیت کیلئے تقریر کرنے کی بجائے عملی اقدامات سے ان کی رہنمائی کریں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38