نکولس سرکوزی کی امتیازی پالیسیوں‘ معاندانہ رویئے اور جارحانہ طرز عمل پر فرانس کے مسلمان نالاں تھے‘ سرکوزی نے ان لوگوں کے مطالبے کی حمایت بھی کی جو قرآن میں تحریف کرانا چاہتے تھے۔ انتخابات میں مسلمانوں کو حساب برابر کرنے کا موقع مل گیا۔ مسلم کمیونٹی نے سرکوزی کے خلاف کسی قسم کی انتخابی مہم چلائی نہ اشتعال انگیز زبان استعمال کی۔ ان کا پورا زور اپنی کمیونٹی پر ووٹ کا حق استعمال کرنے پر تھا۔ آگے ان لوگوں کو خود پتہ تھا ووٹ کس کو دینا ہے۔ یہ لوگ7مئی 2012ء کو پولنگ کے روز گھروں سے نکلے‘ واپس آئے تو سرکوزی کا کوزا الٹ چکا تھا۔
ہمارے ہاں آج انتخابات ہو رہے ہیں۔ قوم کے پاس اپنی مرضی کے لوگ چننے کا بہترین موقع ہے۔ آپ کس کو آگے لانا‘ کس سے نجات پانا چاہتے ہیں یہ آپکی صوابدید پر ہے۔خود گھر بیٹھیں نہ اپنے زیراثر افراد کو گھر بیٹھنے دیں۔ پولنگ سٹیشن جائیں‘ ووٹ کاسٹ کریں‘ یہی ووٹ کی عزت ہے۔ ووٹ کے صحیح استعمال سے اگلے پانچ سال ہمیں عزت ملنی ہے۔ ایک عام امیدوار سے لیکر خاص الخاص امیدوار اور پارٹیوں کی اعلیٰ ترین قیادتوں تک کے اعمال و کردار کا عوام کو بخوبی علم ہے کہ کون چور‘ کون ایماندار‘ کون محب وطن‘ کون بیرونی قوتوں کا ایجنٹ اور کون قومی معاملات پر کمپرومائز کر سکتا ہے۔ کون ڈٹ جانیوالا اور کون دبائو پر ہٹ جانیوالا ہے۔ کوئی کسی کے بارے میں کچھ بھی کہے‘ آپ کا جہاں ضمیر مطمئن ہو‘ وہی درست ہے۔ ووٹ واقعی قوم اور ملک و ملت کی امانت ہے۔ایک ایک ووٹ کی اپنی اہمیت ہے۔ 2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ میں ظفر اللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی برتری سے وزیراعظم بنے۔ یہ مولانا اعظم طارق کا فیصلہ کن ووٹ تھا۔ اگر کہیں انتخابی نتائج کو سبوتاژ کرنے کی سازش نظر آرہی ہے تو اسے ووٹ کے ذریعے ہی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔
آج کے پولنگ کے دن تک پہنچنے میں بڑے نشیب و فراز آئے۔ دہشت گردی کے چار بھیانک اور ہولناک واقعات ہوئے۔ ان کا مقصد بھی شاید انتخابات کو سبوتاژ کرنا‘ انتخابی عمل کو غیر یقینی بنانا تھا۔ دہشت گردی کے مستونگ میں بدترین واقعہ میں وطن سے محبت کرنیوالا سراج رئیسانی دو سو سے زائد ساتھیوں سمیت شہید ہوا۔ وہ علیحدگی پسندوں کیلئے برہان قاطع تھا۔ بھارتی جھنڈے کو روندتے ہوئے پاکستان کا پرچم لہراتا تھا۔ ہارون بلورکو پشاور‘ اکرام گنڈاپور کو ڈی آئی خان میں نشانہ بنایا گیا۔ بنوں میں اکرم درانی پر حملہ بھی قابل مذمت ہے جہاں وہ عمران خان کے مقابلے پر ہیں۔
انتخابات کے التواء کیلئے کچھ لوگوں نے عدالتوں میں درخواستیں بھی دیں اور پہلے احتساب پھر انتخاب کے نعرے لگائے گئے۔ انتخابات کے عین موقع پر میاں نوازشریف کو لندن فلیٹس کی ٹریل نہ دینے پر صاحبزادی مریم نواز سمیت قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا ہوئی۔ غیر موجودگی میں سنائی جانے والی سزا کاٹنے کیلئے وہ لندن سے پاکستان چلے آئے۔ اڈیالہ جیل میں ان کو دل کی تکلیف کا سامنا ہے۔ مریم نواز نے جیل میں بہتر سہولتیں لینے سے انکار کردیا۔ جیل کا ماحول بڑے لوگوں کیلئے اذیت‘ عذاب اور مصائب کم نہیں۔ ان کیلئے یہی مشقت ہے۔ نوازشریف کی صحت پر تشویش کا اظہار سامنے آرہا ہے اور شہبازشریف و مریم اورنگزیب نے انہیں جیل کے ہسپتال میں داخل کرانے کا پرزور مطالبہ کیا ہے۔یہ مطالبہ بے جا نہیں۔
اپنے مقدمات اور فیصلوں پر میاں نوازشریف کا بیانیہ واضح ہے۔ وہ اس کے پیچھے فوج اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ قرار دیتے ہیں۔میاں نوازشریف کے بیانیے کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ایک کیس میں ریمارکس اور بعدازاں پنڈی بار سے خطاب سے تقویت ملتی ہے۔ شوکت عزیز جسٹس صدیقی کا کہنا ہے۔’’مجھے کہا گیا، ہماری مرضی کے فیصلے دیں گے توآپ کے خلاف ریفرنس ختم کرادیں گے اور اگر فلاں کیس میں ہمارے حق میں فیصلہ کریں گے تو نومبر نہیں دسمبر تک چیف جسٹس بنا دیں گے ۔ اللہ کو گواہ کرکے امانت کے طور پر یہ بات کر رہا ہوں کہ آج مرضی کے بنچ بنوائے جاتے ہیں۔ میرے چیف جسٹس کو کہا کہ ہم نے الیکشن تک نواز شریف اور ان کی بیٹی کو باہر نہیں آنے دینا شوکت عزیز صدیقی کو بنچ میں مت شامل کریں۔ مجھے پتہ ہے ، سپریم کورٹ کون پیغام لے کر جاتا ہے۔ احتساب عدالت کی روزانہ سماعت کی تفصیلات کہاں پرجاتی رہی ہیں‘‘۔
یہی نوازشریف اور انکے نکتۂ نظر کے حامی پارٹی لیڈر بھی کہتے ہیں۔ جسٹس صدیقی کے بیان پر فوج کی طرف سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ سامنے آیا‘ اس سے قبل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔ اب انہوں نے شوکت عزیز صدیقی سے انکشافات کے ثبوت اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس کاسی سے ان پر الزامات کی وضاحت طلب کی ہے۔ میاں نوازشریف کے جیل میں ہونے پر ہمدردی کا ووٹ مسلم لیگ (ن) کے کھاتے میں جاسکتا ہے۔ اس مسلم لیگ کے کھاتے میں جس سے میاں صاحب کو غیر محسوس طریقے سے دور کیا جا رہا ہے۔
انتخابات میں جہاں ایک ایک ووٹ کی اپنی اہمیت ہے‘ وہیں مروجہ سسٹم میں کروڑ ہا ووٹ ضائع ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی حلقے کو دیکھ لیں‘ ایک امیدوار ایک لاکھ ووٹ لیکر جیت جاتا ہے۔ ہارنے والے کو نوے ہزار ووٹ ملتے ہیں۔ ان نوے ہزار ووٹوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ ایسے ووٹوں کو ردی میں پھینکنے کی بجائے متناسب نمائندگی سے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔متناسب نمائندگی ایک ایسا طرز انتخاب ہے جس میں کسی کا ایک ووٹ بھی ضائع نہیں ہوتا ہے۔ اس میں پارٹی سربراہان اپنے نمائندگان کی فہرست الیکشن کمیشن کو فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح جو پارٹی جتنے ووٹ حاصل کرتی ہے اس کے مطابق جتنی نشستیں بنتی ہیں وہ اسے دے دی جاتی ہیں۔ اس طرح نہ تو ووٹ ضائع ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی جماعت کے جو سٹریٹ پاور رکھتی ہے پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم رہ سکتی ہے۔ اس سے ملک میں جمہوریت اور سیاسی جماعتیں بھی مضبوط ہونگی۔آخر میں چیف جسٹس آف پاکستان کی دعا ’’ اللہ کرے پاکستان کو ایماندار لیڈر نصیب ہو‘‘۔پر آمین کہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024