میرے خیال میں شاید اب اس حقیقت کے بارے میں دورائے نہیں ہیں کہ پاکستان آج حالت جنگ میں ہے۔ چند محدود حلقے جو اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے میں گریزاں تھے اور دہشت گردوں سے امن مذاکرات پر گزشتہ سات آٹھ ماہ سے بضد تھے ان پر بھی آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کی کامیابی نے یہ حقیقت آشکارا کر دی ہے کہ کاش امن کی مضموم کاوشوں کی بجائے موجودہ ملٹری آپریشن بہت پہلے 2011ء یا 2012ء میں ہی دہشت گردی کی سرکوبی کیلئے عمل میں لایا جاتا تو ہزاروں معصوم سویلین پاکستانیوں اور پاک فوج کے بہادر اور شجاعت کے پیکر فوجی آفیسران اور جوان وطن کے دفاع کیلئے شجاعت کی داستانیں رقم کرنے کیلئے آج بھی زندہ ہوتے۔ حیرت کی بات ہے کہ آج جبکہ آپریشن ضرب عضب فتح و کامرانی کے خاتمہ بالاخیر کی طرف آگے بڑھ رہا ہے ان حلقوں کے بارے میں حکومت پارلیمنٹ اور میڈیا بظاہر کوئی جانچ پڑتال اور محاسبہ کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتا دکھائی نہیں دیتا جو وزیرستان کے علاقے میں ملٹری ایکشن کرنے پر سنگین BACKLASH کی ڈرائونی اور خوفناک تصویریں پیش کرتے تھے اور نہ صرف فاٹا اور وزیرستان بلکہ پورے پاکستان کے بڑے شہروں میں حساس نوعیت کے اداروں کی تباہی و بربادی کی پشین گوئیوں سے عوام کو ڈراتے اور حکومت وقت و فوجی قیادت کو دھمکانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے تھے۔ آج ساری دنیا اور خاص طور پر پاکستان کے بدخواہوں اور دشمنوں نے اپنی آنکھوںسے دیکھ لیا ہے کہ نہ وزیرستان کے بڑے دو مرکزوں یعنی میرانشاہ اور وانا میں مقامی و غیر ملکی دہشت گردوں کے اڈے بڑے بڑے فوجی سازو سامان اور بم تیار کرنیوالے مراکز کا خاتمہ کر کے ایک بہت بڑی ہتھیاروں اور بم تیار کرنیوالے کارخانوں کے سازو سامان کو قبضہ میں لیکر دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور انکے پیچھے خفیہ ہاتھوں کے علاوہ جانے پہچانے ہاتھ بھی ناکارہ اور عضو معطل بن جانے کا جلد عبرتناک نمونہ پیش کرینگے‘ انشاء اللہ۔یہ طویل پس منظر اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان کی سرزمین پر افواج پاکستان نے ضرب عضب کے ذریعے ضرب کلیم کا کردار ادا کیا ہے لیکن مستقبل میں عالم اسلام اور خاص طور پر اسلام کا قلعہ جو واحد نیو کلیئر طاقت ہونے کا اعزاز رکھتا ہے‘ عالمی طاقتوں اور خاص طور پر بھارت اسرائیل کا صیہونی گٹھ جوڑ اپنی دیرینہ اسلام دشمن گرینڈ ڈیزائن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اپنے ترکش کے تمام تیر زہر آلود کر کے دنیا کے مختلف حساس مقامات پر اسلامی جذبہ عقیدت و اخوت جو عالم اسلام کے مسلمانوں کو اللہ کی وحدانیت پر ایمان اور عشق رسول کی آن پر قربان ہو جانے کو زندگی کا سب سے بڑا اعزاز سمجھتے ہیں۔ اس کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹانا چاہتے ہیں جس طرح تاریخ میں ایک دفعہ سپین کے مسلمانوں کا حشر کیا گیا تھا۔ لیکن وقت بہت آگے گزر چکاہے اور اسلام کی نشاط ثانیہ نے ایک نئی کروٹ لی ہے جس کی عکاسی تیونس میں بحیرہ اوقیانوس کے ساحل سے لیکر دنیا کے نہایت حساس اور قدرتی وسائل سے مالا مال بحرو بر سے گزرتے ہوئے ملائیشیا اور انڈونیشیا تک بحرہ الکاہل کے ساحلوں سے جا ٹکراتا ہے اور دوسری طرف جنوب میں بحرہ ہند سے لیکر شمال میں وسطی ایشیاء کی آزاد مسلمان ریاستوں پر پھیلا ہوا یہ خطہ اپنی تمام تر دنیاوی و مادی کمزوریوں اور کوتاہیوں و اندرونی نسلی لسانی و سیاسی انتشار کا شکار ہو جانے کے باوجود روحانی سطح پر امت واحدہ کی زنجیر میں مضبوطی سے جکڑے ہوئے صدیوں سے لا الہ الا اللہ کا علم سر بلند رکھے ہوئے ہیں۔ اگر آج کے عالمی منظرنامہ پر نظر ڈالی جائے تو فلسطین کشمیر یا چیچنیا کے مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں‘ غیر انسانی حیوانیت کا بدترین نمونہ ہے ۔ ہر دور میں صلاح الدین ایوبی‘ حضرت موسی علیہ السلام‘ امام حسینؓ اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور ہر کربلا کے بعد اسلام کو ایک نئی حیات جاوید نصیب ہوتی رہی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے یہودی بنکاروں اور ان کے دیگر ہمنوائوں نے ایک گہری سازش کے تحت عالم اسلام کے سینے پر فلسطین کی ریاست کو دنیا کے نقشہ سے مٹا کر اس جگہ پر اسرائیل کی ریاست قائم کرکے بیت المقدس اور مسلمانوں کے قبلہ اول کو نقصان پہنچانے کی دل آزار اور خوفناک سازش کی گئی جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ اسرائیل کی غزہ پر وحشیانہ بمباری سے 600 سے زائد فلسطینی عرب شہید ہو چکے ہیں اور گزشتہ روز جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو سے جنگ بندی کے سلسلہ میں امن کی پیشکش کے ساتھ ملے تو اسرائیل کی بربریت کے خلاف ایک لفظ تک نہ بولے۔ یہ اقوام متحدہ کا رویہ مظلوموں کے لئے انصاف کی طلب گاری کیلئے ایک شرمناک سانحہ ہے۔ جو انصاف کے ترازو پر قائم ماتم کا سیاہ دھبہ ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ اقوام متحدہ بھی لیگ آف نیشن کی طرح ناکام ہو چکی ہے اور عالم اسلام کو یورپ‘ ایشیاء اور افریقہ میں ایک نئے عالمی ادارے کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ خاص طور پر ایشیاء اور افریقہ کے عوام اس وقت بیداری کی کروٹ لے رہے ہیں۔ چین اور روس اس نئی علاقائی تنظیم میں شمولیت کیلئے مائل کئے جا سکتے ہیں۔ اسلامی ممالک عرب ممالک میں آنے والے بہار کے جھونکوں کے بعد باقی ماندہ ممالک میں بھی نئی امید کے چراغ فروزاں کر رہے ہیں۔ امریکی اور نیٹو فورسز افغانستان کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہیں۔ ہندوستان کا نریندر مودی جنوبی ایشیاء کا نیتن یاہو کا کردار ادا کرنے کیلئے پرتول رہا ہے لیکن جنوبی ایشیاء کا کوئی ایک ملک بھی مودی کو گھاس ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ مشرق وسطی جنوبی ایشیاء اور وسطی ایشیاء کے NON ARAB مسلمان عرب آبادی سے کہیں زیادہ تعداد اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر عرب ممالک میں بہار کے جھونکوں کی آمد آمد ہے تو NON ARAB علاقوں کی آبادی جن کو عرب عجمی کہتے ہیں بادشاہت سے تو آزاد ہو چکے ہیں لیکن برائے نام جمہوریت سے بھی مطمئن نہیں ہیں ان کا عدم اطمینان ایک تبدیلی یا انقلاب کو دستک دے رہا ہے اس منظرنامہ میں پاکستان کے عوام اور انکی مستقبل کا ویژن رکھنے والی قیادت ایک کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024