معراج انسانیت کی رات: شب قدر
ڈاکٹر محمد نویداظہر
خالق کائنات کی بے پایاں رحمت کاایک انداز یہ بھی ہے کہ وہ بہانے بہانے سے اپنے گناہ گار بندوں کی بخشش کا سامان کرتا رہتا ہے۔ نفسا نفسی کے اس پرفتن دور میں غبار معصیت سے آلودہ انسان کیلئے توبہ کا دروازہ موت تک کھلارکھنا اوراپنے بندوں کے لئے ماہ رمضان المبارک میں شیطان کو پابند سلاسل کر کے سال بھرکے شب و روز کی برکات کو ان راتوں میں جمع کر لینا رحمت بے کنار کا انداز کریمانہ نہیں تو اور کیا ہے؟ شب قدر ایک ایسی ہی قدرو منزلت والی رات ہے جس میں گناہ گاروں کی توبہ کی قبولیت کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔ اس رات میںہر اس شخص کیلئے جو معصیت کی دلدل سے نکل کر ایک نئے جنم کے ساتھ اپنے کیسئہ اعمال میں ایمان و تقویٰ کاذخیرہ جمع کرنا چاہے، اس کیلئے یہ رات ایک بیش بہا عطیہ خداوندی ہے۔ یہی وہ رات ہے جس میں قرآن مجید کی لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیاگیا۔ اسی رات کی عبادت ان ہزار مہینوں کی عبادات سے افضل ہے جن میں یہ رات نہ ہو۔ اسی رات کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں اتنی کثیر مقدار میں فرشتوں کا نزول ہوتاہے کہ زمین، تنگ پڑ جاتی ہے۔ یہ وہ رات ہے جس میں ملائکہ المقربین اور روح الامین عبادات میں مصروف ہر صاحب ایمان کو تلاش کرتے ہیں، اس کی خدمت میں سلام پیش کرتے ہیں، اس سے مصافحہ کرتے ہیں اور اس کیلئے دعائے خیر کرتے ہیں۔ یہ رات طوفان، گرج اور اذیت سے محفوظ ہوتی ہے، اس رات میں غروب آفتاب ہی سے فرشتے گروہ در گروہ زمین پر اترتے ہیں اور طلوع فجر تک سلامتی کے فیصلے جاری رہتے ہیں۔ اس رات کاہر حصہ وقت سحر کی طرح بابرکت ہے، رب العالمین نے ’ اور تم کیا جانتے ہو شب قدر کیا ہے؟‘ کے جملہ استفہامیہ کے ساتھ واضح فرما دیا ہے کہ شب قدر کی عظمت و فضیلت انسان کی محدود عقل میں سما ہی نہیں سکتی۔
شب قدر کے تعین کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتاہے۔ بعض اکابرین کے نزدیک یہ رات پورے سال میں گردش کرتی ہے لیکن زیادہ تر علماء کی رائے یہ ہے کہ چوں کہ اس رات کونزول قرآن کے باعث غیر معمولی عزت وشرف حاصل ہے لہذا یہ رمضان المبارک میںپائی جاتی ہے۔ شب قدر کی تاریخ کے بارے میں بھی متعدد اقوال پائے جاتے ہیں۔ تاہم مختصر یہ ہے کہ حدیث صحیح بخاری کے مطابق حضور اکرمؐ نے شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تلاش کرنے کا حکم فرمایا ہے اور ایک دوسری حدیث میں آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے تلاش کرنے کا ارشاد ہے اس لئے یہ رمضان کی آخری پانچ راتوں یعنی 21ویں، 23ویں، 25ویں، 27ویں اور 29ویں رات میں سے کوئی رات ہے، البتہ حضرت ابی بن کعبؓ اور حضرت ابن عباسؓ نے نہایت وثوق کے ساتھ فرمایا ہے کہ یہ 27ویں رات ہے۔ جبکہ باقی جید صحابہ و اکابرین امت کے اقوال ملاحظہ کرتے ہوئے امام مالک نے یہ رائے دی ہے کہ آخری عشرے کی تمام راتیں اپنی فضیلت کے اعتبار سے ایک جیسی ہیں اور سب کی سب شب قدر کا درجہ رکھتی ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر) حضور اکرمؐ کا اس رات کو متعین نہ فرمانے کے مقصد یہ تھا کہ اہل ایمان کم ازکم پانچ یا دس راتوں میں خالق کائنات کے حضور سر بسجود ہونے ، قیام الیل کرنے اور ذکر کی شمع روشن کرنے کی سعادت حاصل کرلیں۔ ام المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب ر مضان کا آخری عشرہ شروع ہوتاہے تو آپؐ پوری پوری رات قیام فرماتے، اہل خانہ کو بھی جگاتے اور کمر ہمت باندھ لیتے۔ (بخاری) مسلم کی روایت ہے کہ نبی کریمؐ اس عشرے میں جتنی محنت کے ساتھ عبادت فرماتے تھے اتنی دوسرے ایام میں نہیں فرماتے تھے۔ شب قدر کے تعین کے حوالے سے عموماً یہ اعتراض کیاجاتا ہے کہ حضوراکرمؐ شب قدر کے علم سے واقف نہیں تھے اسی لئے آپ نے اس آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا۔سلسلہ عالیہ نقش بندیہ کے جلیل القدر بزرگ سیدنا یعقوب چرخی ؒ ’’تفسیر چرخی‘‘ میں ’’تنبیہ الغافلین‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جب شب قدر ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ جبرائیلؑ سے فرماتے کہ فرشتوں کے ساتھ زمین پر اترجائو، وہ زمین پر اتر آتے ہیں ایک سبز جھنڈا ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے جسے وہ کعبۃ اللہ کی چھت پر نصب کردیتے ہیں۔ پھر فرشتے زمین پر پھیل جاتے ہیں۔ اہل ایمان میں سے جو کوئی بھی جاگ رہا ہو، کھڑا ہو یا بیٹھا ہو، حالت نماز میں ہو یا حالت ذکر میں، فرشتے اسے سلام کہتے ہیں۔ فرشتے اہل ایمان کو تلاش کرتے ہیں اور ان کے دعائوں پر آمین کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ صبح طلوع ہوجاتی ہے۔ پھر جبرائیل امینؑ آواز دیتے ہیں۔ اے فرشتوں کی جماعت! کوچ کرو اور آسمان کی طرف لوٹ چلو!‘‘ فرشتے سوال کرتے ہیں: اے جبرائیلؑ اللہ نے حضوراکرمؐ کی امت کے اہل ایمان کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ہے؟ حضرت جبرائیل جواب دیتے ہیں رب العالمین نے ان پر رحمت کی نگاہ فرمائی ہے اور ان کے گناہوں کو معاف فرمادیا ہے ۔سوائے اس گناہ گار کے جو سچی توبہ کرکے اپنے گناہ ترک کرنے کا مصمم ارادہ نہیں رکھتا۔ حدیث مبارک میں ہے من یقم لیلتہ القدر ایماناً و احتساباً غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ’’جس نے حالت ایمان میں آخرت کی جواب دہی کے احساس سے شب قدر میں عبادت کی اس کے جواب دہی کے احساس سے شب قدر میں عبادت کی اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ شب قدر کے حوالے سے خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ سے منسوب اشعار کا ترجمہ ہے:
’’میں سرور کائناتؐ کی گلی کی خاک کا ذرہ ہوں،میں حضور اکرمؐ کی زلف کے حلقے کا اسیر ہوں، دنیا شب قدر کے خیال میں گم ہے اور حسن گیسوئے مصطفےؐ کے خیال میں گم ہے ،دیدار مصطفےؐ کا مشتاق ‘‘۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول کریمؐ سے عرض کیا: یارسول اللہؐ! اگر مجھے شب قدر کی مقدس ساعتیں نصیب ہو جائیں تو میں کیا دعا مانگوں؟ ارشاد گرامی ہوا: عائشہ! اللہ سے عفو و درگزر طلب کرتے ہوئے یہ کلمات ادا کرو
اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی (ترمذی) ۔اردو میں یوں کہہ لیں: ’’اے پروردگار! بلاشبہ تو معاف فرمانے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے، بس مجھے معاف فرمادے‘‘۔ انسان کی کامیابی کا سب سے بڑا معیار بارگاہ ایزدی سے معافی کا پروانہ مل جانا ہے ۔