خوبصورت معاشرے میں عوام کو حقوق کی فراہمی اور ان کی تقسیم صرف عدل و انصاف کی بدولت ہی میسر آ سکتی ہے۔بدقسمتی سے ملک پاکستان جب سے بنا ہے اس کو اب تک مخلص لیڈر شپ میسر نہیں آئی۔ قائداعظم محمد علی جناح کے بعد جو بھی آیا اس نے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر جائز و ناجائز کرپشن کے حربے استعمال کرتے ہوئے اس ملک کو کھوکھلا کیا۔ ملک کے اندر لاءاینڈ آرڈر کے عملی اقدامات نہیں کئے گئے اور نہ ہی چیک اینڈ بیلنس کا نظام رائج نہیں کیا۔ ملک پر مسلط کرپٹ لوگوں کے بے شمار سکینڈل منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی ہرشخص راتوں رات امیر بننے کے خواب دیکھتا ہے انسان کے اندر اچھائی اور برائی دونوں شامل ہیں لیکن معاشرے کے اندر نا انصافی اور لاقانونیت کے باعث شیطانیت کا عنصر جلد سرایت کر جاتا ہے جس کی وجہ سے اللہ کا خوف انسانوں کے دلوں سے ختم ہوجاتا ہے۔ انسان کو دو طرح کے طریقوں سے سکھایا جا سکتا ہے۔ پہلا وہ معاشرہ جو ایک سولائزڈ معاشرہ کہلاتا ہے۔ جہاں قانون کی حکمرانی اور تعلیمی نظام قائم ہوتا ہے۔ وہاں بچپن ہی سے بچے کو تمام انسانی حقوق کی پاسداری کا سبق دیا جاتا ہے جس سے وہ بچہ بڑا ہو کر ایک اچھا شہری بنتا ہے۔ دوسرا اس ملک میں قانون کی حکمرانی کی وجہ سے سزا اور جرمانے کا خوف جہاں کوئی سفارش‘ کوئی پروٹو کول کام نہیں آتا۔ یہی پاکستانی باہر کسی ترقی یافتہ ممالک میں رولزاینڈ ریگولیشنز کی مکمل طور پر پاسداری اور احترام کرتا ہے کیونکہ وہاں اسی کو ڈر اور خوف ہوتا ہے کہ مجھے قانون شکنی پر بھاری جرمانہ اور سخت سزا ہو سکتی ہے۔ لیکن یہی پاکستانی جب ملک کے اندر آتا ہے تو کسی لاءاینڈ آرڈر کی پابندی کو توڑنا اپنا فخر محسوس کرتا ہے کیونکہ یہاں کسی نہ کسی سرکاری دفتر میں اس کا کوئی ماما‘ چاچا یا کوئی عزیز یا دوست اس کی سفارش کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ برائی ہمیشہ لیڈر شپ سے ختم ہوتی ہے۔ اگر لیڈر قانون کی حفاظت اور اس پر عمل کروانا جانتا ہے اور خود بھی اس پر عمل کرتا ہے۔ تو وہ معاشرہ روز بروز ترقی کی راہ پر گامزن نظرآتا ہے۔ یہ اس حکمران کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ قانون کے اوپر عملدرآمد کروائے جس سے کسی بھی سرکاری اور نیم سرکاری آفیسر‘ سیاست دان یا عام شہری کی جرات نہ ہو گی کیونکہ اسے ہر وقت جرمانے اور سزا کا خوف ہوگا۔ عدالتوں کو صوبے کی سطح سے نیچے یونین کونسل کی سطح پر فیصلے کا حق دیا جائے تو نچلی سطح پر عوام کو انصاف فراہم ہو سکے گا۔ موجودہ حکومت کے لئے چند گزارشات تمام صوبوں سے پروٹوکول جیسی لعنت کو ختم کرنا‘ جی او آر اور سرکاری گھروں کو فلیٹ سسٹم ‘ دس مرلہ‘ ایک کنال کے گھروں پر محیط کرنا نہ کہ دو کنال سے لے کر ایکڑوں تک کے گھروں پر پابندی عائد کرنا کیونکہ جتنا بڑا گھر ہو گا اتنے زیادہ حکومتی اخراجات کا بوجھ غریب عوام پر برداشت کرنا پڑے گا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت ہرصوبے ہر شہر‘ ہر قصبہ‘ ہر دیہات میں آن لائن شکایت سیل قائم کر کے عوام کی شکایت کو رجسٹرڈ کرنے کے بعد علاقے کے آفیسر کی ذمہ داری ہو کہ وہ سائل کو انصاف فراہم کرے ورنہ خود سزا کے لئے تیار ہو جائے۔ ایوان صدر ‘ ایوان وزیراعظم ‘ ایوان گورنر‘ ایوان وزیر اعلیٰ کو چھوٹے دفاتر میں تبدیل کرنا‘ پورے ملک میں لائسنس یافتہ یا غیر لائسنس یافتہ اسلحے پر پابندی لگوانا‘ اس سے ملک میں 75 فیصد دہشت گردی‘ غنڈی گردی‘ ناانصافی‘ ڈکیتی اور راہزنی ختم ہو جائے گی اور اگر کوئی قانون کی پاسداری نہیں کرتا تو اسے سرعام کوڑے‘ جرمانہ اور سزا دی جائے۔ ملک کو ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کے لئے تعلیمی نصاب ونظام یکساں کرنا‘ یعنی پورے ملک کے اندر ایک ہی تعلیمی نظام‘ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں قائم کرنا۔ پاکستان کے اندر اساتذہ کو ایک گزیٹڈ آفیسر کا احترام دیا جائے۔ ملک کے اندر کسی وزارت کا وزیر ہوگا جس کو اس وزارت کے بارے میں مکمل عبورحاصل ہو گا۔ ملک میں قرضے اتارنے کے لئے ٹیکس کے نظام میں بہتری لانا ہو گی اور تاجروں کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ چاہے اس کے لئے آپ کو صاف شفاف ٹیسٹ بنک میں اکاﺅنٹ کھولنا پڑے۔ انرجی کرائسز کی وجہ سے تمام لگژری اشیاءپر 100 فیصد ٹیکس لیا جائے تاکہ کرپشن کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوسکے اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں زیرو فیصد ٹیکس لیا جائے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی معدنیات‘ زراعت اور بہت سے وسائل سے نوازا ہے۔ جو بلاشبہ سب سے بڑی نعمت ہیں۔ اب ہماری لیڈرشپ کو چاہئے کہ وہ اپنے وسائل کو بروئے کارلاتے ہوئے اور سادگی پر عمل کرتے ہوئے ملک میں ترقی کا جال بچھائے۔ خاص طور پر سیاحت کے نیٹ ورک کو پروموشن دے تاکہ غیرملکی ریونیو اکٹھا ہو سکے۔ہمارے ملک میں بجلی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ بجلی کی رسد اور طلب کا بیلنس نہ ہونا ہے۔ اگرہمارے حکمران فوری طور پر چائنا سے اے پلس کوالٹی کی ایل ای ڈی لائٹ امپورٹ کر لیں تو کسی حد تک یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ایک L.E.D لائٹ سیور انرجی کے مقابلے میں 16 واٹ بجلی کی بچت کرتی ہے۔ اگر حکومت پاکستان L.E.D لائٹ اور سولر پینل کے اوپر سے ڈیوٹی ختم کر دے تو عوام کی خرید کی پہنچ میں آ جائے گی۔اگرحکومت تمام سرکاری‘ نیم سرکاری پرائیویٹ اداروں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بنکنگ سیکٹرکو سختی سے L.E.D لائٹ پر عملدرآمد کروا دے تو اس ملک سے 3000 میگاواٹ بجلی کی بچت ہو جائے گی۔ یعنی ٹیوب لائٹ اور انرجی سیورکی حوصلہ شکنی کی جائے۔ باقی حکومت پاکستان اپنے کوئلے اور بجلی کے منصوبوں پر نیک نیتی سے کام شروع کردے اور حکومت پاکستان اپنے تمام غیر ضروری پراجیکٹ کی رقم سب سے پہلے انرجی کرائسز پر استعمال کرے کیونکہ کسی ملک کی معاشی ترقی اس کی تجارت اور انڈسٹری پر منحصر ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38