ڈاکٹرارسلان افتخارنے نظرثانی درخواست میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ ان کے کیس کی تحقیقات کسی ریٹائرڈ جج سے کروائی جائیں
ارسلان افتخارکی جانب سے دائرنظرثانی درخواست کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ اورجسٹس خلجی عارف حسین پرمشتمل دورکنی بینچ نے کی۔ ارسلان افتخارکے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے پراس کی روح کے مطابق عملدرآمد نہیں کیا گیا، عدالت نے تفتیش ریاستی مشینری کوبھجوانے کی ہدایت کی تھی جبکہ اٹارنی جنرل نے کیس قومی ادارہ احتساب کوبھجوادیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس میں کہا کہ تفتیش کے قانونی طریقہ کارسے ہٹ کرکارروائی کی اجازات نہیں دے سکتے، ارسلان افتخارکے وکیل نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ کیس کی تفتیش کسی بھی ریٹائرڈ جج سے کروائی جائے، ایف آئی اے اوروفاقی پولیس رحمان ملک کے ماتحت ہے جبکہ رحمان ملک اوراٹارنی جنرل دونوں عدالتی فیصلوں سے متاثرہیں اس لیے ان سے شفاف تحقیقات کروانے کی امید نہیں۔ دوران سماعت پراسیکوٹرجنرل نیب کے کے آغا نے عدالت کوبتایا کہ عدالتی فیصلے اوراٹارنی جنرل کے خط پرغورکے لیے پچیس جون کونیب کی ایگزیکٹیوبورڈ میٹنگ ہوئی تھی جس میں انہوں نے اکتیس جولائی دوہزارنوکے فیصلے سے متاثرہونے کے باعث شرکت نہیں کی اورخود کوارسلان افتخارکیس کی تفتیش سے بھی الگ رکھا ہے۔ عدالت عظمی نے ارسلان افتخارکے وکیل کونظرثانی درخواست کی کاپی پراسیکوٹرجنرل نیب کوفراہم کرنے کی ہدایت کرتےہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔